• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس عنوان میں اگر آپ کو ’’شعلے‘‘ کے گبرسنگھ یا امجد خان کی گرج سنائی دے رہی ہے تو یہ محض ایک اتفاق ہے، یہ تو ٹیلی وژن کی خبروں میں فلمی گانوں اور مکالموں کے بیشتر بے محل استعمال کا نتیجہ ہے کہ ہمارا دھیان ادھر بھی جاتا ہے، ویسے یہ عنوان میں اپنے موضوع کیلئے بہت مناسب سمجھتا ہوں، اس گفتگو کی بنیاد تو اس ہفتے واشنگٹن میں ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر اور دوسرے دن خواتین کے احتجاج میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد کا تنازع ہے لیکن میری زیادہ توجہ اس بات پر ہے کہ ہمارے میڈیا میں اب سیاسی جلسوں، دھرنوں اور جلوسوں میں شامل افراد کی تعداد کا باقاعدہ اور قابل اعتبار اندازہ لگانے کی کوئی صلاحیت موجود نہیں ہے اورنہ ہی اس کام کو ایک اہم صحافتی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔
یہ بھی گویا جانبدارانہ بیانات یا ہٹ دھرمی کے سامنے حقائق کی پسپائی کی ایک شکل ہے، عجیب بات یہ ہے کہ ٹیلی وژن کے کیمروں کی گواہی بھی کسی کام نہیں آتی…یوں بھی زاویئے کے بدلنے سے منظر بدل جاتا ہے…ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ہم اعدادوشمار کے معاملے میں اور ریاضی میں بہت کچے ہیں، ورنہ ایسے فارمولے موجود ہیں کہ جن کے استعمال سے کسی مجمع میں شامل افراد کا بڑی حد تک صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے…صحافت کی تعلیم میں ہجوم کی تعداد کا شمار کرنے کی مشق بھی شامل ہوتی ہے، ہمارے ملک میں صحافت کی تعلیم بس واجبی سی ہوتی ہے اور پڑھانے والوں کی علمی استعداد بھی محدود ہوتی ہے…دوسرے ملکوں کو تو چھوڑیئے، خود اپنے اخباروں کا مطالعہ بھی جامع اور تجزیاتی انداز میں نہیں کیا جاتا…ایک، دو (یاتین) کو چھوڑ کر ہمارے بڑے سیاست داں بھی پڑھنے لکھنے کے عادی نہیں ہیں، اگر عذر یہ ہے کہ وقت نہیں ملتا تو ان کا اوباما سے زیادہ مصروف رہنا بھی قابل غور ہے، اور میں اوباما کے دور صدارت کا ذکر کر رہا ہوں۔
اب کچھ دیر کیلئے واشنگٹن چلتے ہیں…ڈونلڈ ٹرمپ جیسےفریبی شخص کے صدر بننے کے بعد امریکہ کی نئی حکومت کا صحافت سے اور صحافیوں سے جو رشتہ قائم ہو رہا ہے اس سے ہمیں واقف ہونا چاہئے، ہماری حکومتوں نے تو ہمیشہ غیر جانب دار اور سچی صحافت سے اختلاف کیا ہے، واشنگٹن میں یہ ہوا کہ گزشتہ جمعہ کو جب ٹرمپ نے صدارت کا حلف اٹھایا تو اخبارات نے واشنگٹن کے تاریخی احاطے میں موجود افراد کا موازنہ اوباما کی 2009ء کی حلف برداری کے اجتماع سے کیا، اوباما کا صدر بننا اتنا غیر معمولی واقعہ تھا کہ اس کے چاہنے والوں نے میدانوں اور سڑکوں کو بھردیا تھا…تصویروں میں جو فرق تھا اس کو جھٹلانا ممکن ہی نہیں ہے، لیکن ٹرمپ تو ٹرمپ ہے، اس نے اصرار کیا کہ اس کی حلف برداری کے موقع پر لاکھوں افراد کا مجمع تھا، اس نے صحافیوں کو دنیا میں سب سے جھوٹا کہا…اس سے اگلے دن کی کہانی بھی قابل غور تھی…اس دن خواتین کا عالمی احتجاج تھا اور تاریخ میں پہلی بار خواتین نے دنیا کے بے شمار ملکوں اور شہروں میں اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھائی اور اسے باضابطہ طور پر ٹرمپ کیخلاف احتجاج کہا، اب صحافیوں کا اندازہ تھا کہ واشنگٹن میں جتنی خواتین نے مرکزی اجتماع میں شرکت کی ان کی تعداد ٹرمپ کی ایک دن پہلے کی حلف برداری کے اجتماع سے تین گنا تھی… اس حقیقت کو بھی ٹرمپ اور اس کے ہمنوائوں نے رد کردیا…اس سلسلے میں کچھ ایسے اعدادوشمار بھی ہیں جن کی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا…مثال کے طور پر یہ کہ شہر کی میٹرو میں کتنے مسافروں نے اس جگہ تک سفر کیا جہاں جلوس نکالا گیا…یہ نظام ایسا ہے کہ ایک ایک فرد کا شمار ہوتا ہے…بتایا گیا کہ تاریخ میں صرف ایک بار اس سے زیادہ مسافروں نے میٹرو کا استعمال کیا تھا اور وہ دن تھا 2009ء میں اوباما کی حلف برداری کا…اسی طرح ایسے ہجوم بھی ہوتے ہیں جن کی تعداد ریکارڈ پر ہوتی ہے…میں کسی اسٹیڈیم میں کسی بڑے میچ کے تماشائیوں کی مثال دیتا ہوں…آپ نے دیکھا ہوگا…پورے میدان کو گھیرے ہوئے زمین سے کئی منزل اوپر جانے والی نشستوں کی قطاریں…صرف ایک طرف کا نظارہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے کوئی بڑا سیاسی جلسہ ہو…اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پورے اسٹیڈیم میں پچاس سے ساٹھ ہزار تماشائی تھے…اس سے اندازہ لایا جاسکتا ہے کہ پانچ ہزار کا مجمع کتنا بڑا ہوگا اور دس ہزار کا کتنا بڑا…حالیہ برسوں میں جو بڑے احتجاج ہوتے ہیں ان سب کی تعداد کے اندازے موجود ہیں…اس سلسلے میں اختلافات بھی ہوتے رہے ہیں لیکن یہ نہیں ہوتا کہ کوئی پانچ ہزار کو پچاس ہزار کہہ دے۔
یہ گفتگو جس تفصیل کا تقاضا کرتی ہے اس کی یہاں گنجائش نہیں…اب اپنے ملک کی بات کرتے ہیں…یہاں صحافیوں کی مجبوریاں بھی ان کے کام میں خلل ڈالتی ہیں…کراچی میں اتنے برسوں ہم نے بندوق بردار جماعتوں کا جبر سہا ہے اور یوں کہ وہ اپنے جلسوں کی خود رپورٹنگ کرتی رہیں… ایک مسئلہ صحافیوں کی اپنی جانب داری کا بھی ہے کہ کون کس سیاسی جماعت کا دامن تھامے ہے، کوئی بھی وجہ ہو، صحافی اس ذمہ داری سے دستبردار ہوگئے کہ وہ پوری ایمانداری سے خود کسی ’’اجتماع‘‘ کےحاضرین کی تعداد بتائیں…ویسے کبھی کبھی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جلسہ کرنے والے خود کیا کہتے ہیں…قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اندازہ کیا ہے اور مخالفین کیا کہتے ہیں…ان الگ الگ اندازوں میں جو فرق صاف ظاہر ہوتا ہے وہ کئی نہیں بلکہ بہت سے ہزاروں میں ہوتا ہے… جلسے میں حاضرین کتنے ہیں اس کی اہمیت کے ساتھ ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ لوگ کون ہیں…کیسے آئے ہیں…کون لایا ہے…کتنی دور سے لایا ہے… اب یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ لوگ کرائے پر بھی ملتے ہیں… یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ اب سیاسی جلسوں کی ہدایت کاری اورفن کاری بھی بدل گئی … اس شعبے میں عمران خان کی جماعت آسکر ایوارڈ کی مستحق ہے… میں یہ نہیں کہہ رہا کہ انہوں نے جلسے کو تماشہ بنا دیا ہے…حاضرین میں جوش پیدا کرنا اور ان کے احساس شمولیت کو بیدار کرنا بھی ایک سیاسی عمل ہے…لیکن یہ صحافتی فیصلہ ہوتا ہے کہ کس جلسے کو کتنا وقت یا کتنی جگہ اور اہمیت دی جائے، 2014ء کے دھرنے کی ہمارے میڈیا نے جتنی پذیرائی کی اس کا احوال صحافت کی درسی کتابوں میں شامل ہونا چاہئے…آخر کتنے ہزار لوگ اس اتنے بڑے ملک کی پوری آبادی کی توجہ کو کتنی دیر تک اپنی قید میں رکھ سکتے ہیں؟ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب کسی جلسے کی اہمیت کا اس بات سے زیادہ تعلق نہیں کہ اس میں کتنے لوگ تھے یا اس جلسے کی تقریروں میں کیا نئی بات تھی… بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے باہر جو سیاسی تقریریں کی جاتی ہیں وہ بھی کسی جلسے میں کی جانے والی تقریروں کا مزہ دیتی ہیں…اور ان دونمبر (یعنی اعلیٰ قیادت کے بعد کی صف کے) رہنمائوں کو مفت میں میڈیا مل جاتا ہے…رہی عوام کی بات کہ جن کے نام کاسکہ چلتا ہے تو وہ گھر بیٹھے تماشہ دیکھتے ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ ان میں سے کتنے کس کے ساتھ ہیں اور وہ خود اپنی مرضی سے، کس جلسے میں جائیں گے اور یہ حساب کون رکھے گا کہ وہ کتنے تھے…اور ان کے ہونے کا سیاست پر کیا اثر پڑے گا۔

.
تازہ ترین