• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپس کی بات ہے سیاست دان زندگی میں جو بھی کر لیں ان کے ساتھ اس ملک میں ،آخر میں ،اکثربہت برا ہی ہوتا ہے۔ جانے کیا نشہ ہوتا ہے اقتدار میں ؟ ساری عمر کھجل ہوتے ہیں۔ہر جگہ طعنے تشنے کا سامنا کرتے ہیں۔ الزامات سہتے ہیں۔کورٹ کچہری بھگتنی پڑتی ہے۔ گالیاں سنتے ہیں۔ قید کاٹنی پڑتی ہے۔وطن بدر ہونا پڑتا ہے۔ غدارکا لقب ملتا ہے۔ بیچارے ڈنڈے کھاتے ہیں،ٹکے ٹکے کے لوگوں کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ ووٹروں کو مطمئن کرنے کے لئے ٹوٹے نلکوں، گٹروں کے ڈھکنوں اور گلیوں کی مرمت میں زندگیاں گزر جاتی ہیں۔ آپ کا جواب یقینا یہ ہو گا کہ یہ کرپشن کے لئے اقتدار میں آتے ہیں۔ بات آپ کی بھی درست ہے۔ہوس زر اور ہوس اقتدار باہم مربوط ہیں۔ لیکن اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو ان میں سے بہت سے سیاستدان اگر سیاست میں نہ آتے تو آج بہت بہتر زندگی گزاررہے ہوتے۔
عمران خان کی مثال سے بات شروع کرتے ہیں۔ عمران خان اس ملک کا سب سے بڑا ہیرو تھا۔ کرکٹ کا ہر میدان خان صاحب کی موجودگی سے جگمگاتا تھا۔ دنیا بھر کی مقبول ترین شخصیت۔ ملکوں کے سربراہ خان صاحب سے ہاتھ ملانے کی خواہش رکھتے تھے۔ اہل اقتدار تصویر بنوانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ ملکہ برطانیہ چائے پر بلاتی تھیں۔ دنیا بھر کی خواتین ایک نظر کو ترستی تھیں۔ انیس سو بانوے کے ورلڈکپ کے بعد تو پاکستانی قوم نے اپنا سب کچھ خان صاحب پرنچھاور کر دیا۔ اس وقت کے صدر ریٹائر منٹ کا فیصلہ واپس لینے کی درخواست کیا کرتے تھے۔ جدھر جاتے لوگ دل قدموںمیں رکھ دیتے تھے۔اس موقع پر خان صاحب نے شوکت خانم کا عظیم منصوبہ قوم کے سامنے پیش کیا۔ ساری قوم ایک ہی مقصد میں جت گئی۔ بچوں نے لنچ کے پیسے اور عورتوں نے زیورات تک بیچ ڈالے۔ عمران خان پہلے سے بھی زیادہ عظیم ہو گئے۔کسی کی جرات نہیں تھی عمران خان کے خلاف بات کرنے کی۔سب ہی دل سے محبت کرتے تھے۔ پھر خان صاحب سیاست میں آگئے۔ اتنے برسوں میں سیاست میں کیا کمایا کیا گنوایا یہ الگ بات ہے مگر اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے اپنی پہلی بیوی سے علیحدگی ہو گئی۔ بچوں سے دوری مقدر بنی۔ دوسری شادی ہوئی اور وہ بھی سیاست کی نذر ہو گئی۔ اب آئے روز ہر کوئی ان کے منہ کو آتا ہے۔ کوئی کرپشن کے الزام لگاتا ہے۔ کوئی ذاتی زندگی پر اعتراض کرتا ہے۔ کوئی یو ٹرن کا لقب دیتا ہے۔ جس کا دل چاہتا ہے کچھ بھی کہہ دیتا ہے۔ سوچئے اگر خان صاحب سیاست میں نہ ہوتے تو کیا کسی کی جرات تھی ایسی بات کرنے کی؟بنی گالہ جیسے پچاس گھر ہوتے ، نجی خانگی زندگی ہوتی، بے شمار دولت ہوتی تو کیا کسی نے سوال کر نا تھا؟
غور کریں تو شریف فیملی کا بھی یہی حال تھا۔ ساٹھ اورستر کی دہائی میںپاکستان میںا سٹیل کے کاروبار کے لئے صرف اتفاق ا سٹیل کا نام لیا جاتا تھا۔ اچھے کام کی شہرت صرف ملک میں ہی نہیں ساری دنیا میں تھی۔ مڈل ایسٹ کے کاروباری حلقوںمیں خصوصی طور پر اتفاق فائونڈریز کا نام احترام سے لیا جاتا تھا۔ فیکٹریاں آئے روز بچے دے رہی تھیں۔ دولت کی ریل پیل تھی۔ بھٹو دورمیں اداروں کو قومیانے کی مہم چلی تو کاروبار کو بیرون ملک منتقل کیا۔ ضیاء الحق کے دور میں جنرل جیلانی نے اس خاندان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سے متعارف کروایا۔ نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ ہوتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر پہنچ گئے۔ ضیاء الحق کے جہاز کے حادثے کے بعد جب بے نظیر اور میاں صاحب کی دو، دو ، باریاں لگیں تو سیاست دانوں پر ایک دوسرے کے توسط سے سب سے زیادہ عتاب آیا۔ فائلیں کھل گئیں۔ مقدمات بن گئے۔ فون ٹیپ کئے جانے لگے۔ ایک دوسرے پر گھٹیا الزامات لگنے لگے۔ گھروں کی بہو بیٹیوں کے نام سرعام لئے جانے لگے۔ کبھی قید اور کبھی احتجاج ہونے لگا۔ تاوقتیکہ انیس سو ننانوے میں ایک صاحب نے کنپٹی پر پستول رکھ کر استعفی لینے کی بھی کوشش اور ناکامی کی صورت میں میاں صاحب کو دس سال کے لئے ملک بدر کر دیا گیا۔ مبینہ اقدام قتل کا مقدمہ بنا ۔ جائیدادیں قرق ہوئیں۔ گھر کا سازوسامان شفٹ کرنا پڑا ۔ رشتہ داروں پر زمیں تنگ ہو گئی ۔ ایک دفعہ وطن واپس آنے کی کوشش کی مگر ائیر پورٹ سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔ واپس آئے تو پانچ سال بعد حکومت ملی۔ پھر پانامہ کا کیس کھل گیا۔ مریم نواز، حسن اور حسین نواز کا نام سامنے آنے لگا۔ ٹیکس کے گوشوارے سرعام زیر بحث آنے لگے کبھی تلاشی دینی پڑی کبھی رسیدیں دکھانی پڑیں۔ ہر کوئی منہ اٹھا کر تنقید کرنے لگا۔ اس مردانہ معاشرے میں ہر کوئی بیٹی کا نام سرعام لینے لگا۔ ہر مخالف بیہودہ الزامات لگانے لگا۔ لغو اور غلیظ ناموں سے پکارنے لگا۔ ایک لمحے کو سوچیں کہ اگر میاں صاحب سیاست میں نہ ہوتے تو تو کیا کسی نے پوچھنا تھا کہ کتنی فیکٹریاں ہیں؟ کون، کون سی آف شور کمپنی ہے؟ بیٹی کے نام کیا جائیدادہے اور بیٹوں کو کیا ملا ہے؟ والد نے جائیداد کا کب اور کیسے بٹوارہ کیا ہے؟ کیاکسی نے سوال کرنا تھا؟
بھٹو خاندان کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کے ایک اعلیٰ دماغ تھے۔ سندھ کے لینڈ لارڈ تھے۔ کمال کے مقرر اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ برکلے اور آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے تھے۔ لنکنز ان کے تر بیت یافتہ بیرسٹر تھے۔لیکن بدقسمتی سے سیاست میں آگئے۔ بس پھر کیا تھا ایک دن تختہ دار پر چڑھ گئے ۔ کسی نے جوڈیشل قتل کہا کسی نے انتقام کہا۔ جو بھی ہوا ،نتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو ہم میںنہیں رہے۔ بے نظیربھٹو شہید باپ کے نقش قدم پر سیاست میں آگئیں۔ اگر نہ آتیں تو آج بھی بڑی پر سکون زندگی گزار رہی ہوتیں۔ پوتے پوتیوں ، نواسے، نواسیوں کے ساتھ ایک خوشگوار زندگی گزار رہی ہوتیں۔ لیکن سیاست میں آنے کی وجہ سے کبھی کردارپر الزام لگا ، کبھی کرپشن کی فائلیں کھل گئیں، کبھی ملک بدر رہنا پڑا کبھی قید کاٹنی پڑی تاوقتیکہ کہ ایک سانحے میں جان سے گزر گئیں۔ سیاست میںنہ ہوتیں تو آج زندہ ہوتیں۔ کسی نے سوال نہیں کرنا تھا سرے محل کا، ہیروں کے ہار ، الزامات کے انبار کا۔
نتیجہ بحث کا یہ نکلتا ہے کہ سیاست ایسا کاروبار ہے کہ اس میں ٹاپ پر پہنچنا کوئی منافع بخش کام نہیں ۔آل اولاد، خاندان کی عزت، گھرانوں کا بھرم ، ذاتی کاروبار اور ذاتی زندگی سب کچھ دائو پر لگ جاتی ہے۔

.
تازہ ترین