• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوچنے کی بات یہ ہے کہ امانت و دیانت، صداقت، مساوات، عدل و انصاف، قومی خزانے کا تقدس، سادہ طرز حکومت ہمارا ورثہ اور ہماری میراث تھی جسے مسلمانوں نے پس پشت ڈال دیا اور غیر مسلمانوں نے ہماری میراث کو اپنے سینے سے لگا کر ان اصولوں کو اپنے نظام حکومت کی بنیاد اور طریق حیات بنالیا۔اپنی میراث سے انحراف کرتے ہوئے مسلمانوں نے شاہانہ طرز زندگی، ملوکیت، بادشاہت، شان و شوکت، وسائل کا ضیاع اور قانون و انصاف سے روگردانی کو اپنا مسلک بنالیا۔ آج قوموں کی دوڑ میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور ہر دن ہماری پسماندگی میں اضافہ کررہا ہے۔ دنیائے اسلام کی جمہورتیں بھی بادشاہتوں جیسی ہیں کیونکہ ان ممالک میں قانون کی حکمرانی، احتساب اور عوامی جوابدہی کے ادارے نہایت کمزورہیں۔میں پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑاتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا آغاز بہت اچھا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم زندگی کے ہر شعبے میں تنزل کا شکار ہوگئے۔ امانت، دیانت اور صداقت قصہ پارینہ بن کر رہ گئے اور ایثار کی جگہ کرپشن اور لوٹ مار نے لے لی۔ ہمارے بانیان قوم کے تصور کے مطابق پاکستان کو دنیائے اسلام کی رہنمائی (لیڈر شپ) کا فریضہ سرانجام دینا تھا لیکن ہم اس تصوراتی مقام سے گر کر اپنا وقار اس قدر کھو چکے ہیں کہ دنیائے اسلام کے اکثر ممالک ہمیں حقیر اور قابل رحم سمجھتے ہیں۔ ہماری ایٹمی قوت نے ہمیں چند برسوں کے لئے اسلامی ممالک میں عزت و اہمیت دی تھی لیکن ہم اسے بھی قائم نہ رکھ سکے اور آج صورتحال یوں ہے کہ دنیائے اسلام کے اکثر ممالک کا جھکائو ہمارے مخالف ہندوستان کی جانب ہے، وہ سرمایہ کاری، عسکری تربیت اور ٹیکنالوجی میں رہنمائی کے لئے ہماری طرف نہیں بلکہ ہندوستان کی جانب دیکھتے ہیں۔ مسلمان امہ، اسلامی بھائی چارے اور دینی رشتوں کو قومی ریاست اور قومیت پرستی نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ آپ تجزیہ کریں اور غور کریں تو محسوس ہوگا کہ اس میں ہماری قیادت کی کوتاہ نظری کا بڑا ہاتھ ہے۔
میں عرض کررہا تھا کہ سادہ طرز حکومت، امانت و دیانت ا ور ایثار و قربانی کے حوالے سے ہماری قومی زندگی کا آغاز یقیناً بہت اچھا تھا لیکن قیام پاکستان کے چند ہی برسوں بعد ہم نے مسلمانی کی میراث کو فراموش کردیا اور وہ ساری عادتیں اپنا لیں جن سے اسلامی طرز حکومت کے تصور کی نفی ہوتی تھی۔ اس وقت امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور اور کرۂ ارض پر طاقتور ترین اور رئیس ملک ہے لیکن آپ نے سابق امریکی صدر اوباما کا یہ بیان پڑھا ہوگا کہ مجھے وائٹ ہائوس میں قیام کے دوران ذاتی استعمال کے لئے ٹشو پیپر، اورنج جوس جیسی چھوٹی چھوٹی چیزیں خریدنی پڑتی تھیں۔ اوباما کے ساتھی اور امریکہ کے نائب صدر جوبائیڈن اپنی مالی مشکلات اور بیٹے کی بیماری کے لئے وسائل کی قلت کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے روپڑے۔ ان کا بیٹا کینسر کا مریض تھا، علاج بے حد مہنگا تھا جسے نائب صدر افورڈ نہیں کرسکتا تھا چنانچہ اس نے اپنا اکلوتا گھر فروخت کرنے کا ارادہ کرلیا۔ صدر اوباما نے انہیں ادھار دینے کا وعدہ کرکے اس ارادے سے باز رکھا۔ ہم نے اپنی گناہکار آنکھوں سے صدر اوباما اور نائب صدر جوبائیڈن کو سرکاری رہائش گاہوں سے خالی ہاتھ نکلتے دیکھا۔ دونوں فقط ایک ایک گھر کے مالک ہیں اور وہ گھر بھی اقتدار میں آنے سے قبل خریدے گئے تھے۔ ان کے علاوہ دنیا بھر میں نہ کوئی جائیداد، نہ کوئی بینک بیلنس اور نہ ہی سرمایہ کاری۔ اس کے برعکس ہمارے مختلف حکمران گزشتہ کئی دہائیوں سے ملکی وسائل کو جس طرح لوٹتے رہے ہیں اس سے پردہ ہٹانے کی ضرورت نہیں ۔ آزاد میڈیا لوٹ مارکو کسی حد تک بے نقاب کرچکا ہے۔ امریکہ ہو یا انگلستان یا دوسرے یورپی اور سیکنڈے نیویا ممالک، ان کے حکمران قانون و اخلاقیات کی پابندیوں میں جکڑے ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی مذاق بن کر رہ گئی ہے ا ور ہماری جمہوریت پر ملوکیت و بادشاہت کا گمان ہوتا ہے چنانچہ ان ممالک کو اسلامی ممالک پر اخلاقی برتری بھی حاصل ہوگئی ہے۔
سچ ہے کہ حکمران بھی عام انسانوں کی طرح زندگی گزاریں تو انہیں لوگوں کی مشکلات کا اندازہ ہوگا۔ حضرت ساریہؓ کا قاصد حضرت عمرؓ کے پاس آیا تو آپ اسے کھانے کے لئے اندر لے گئے۔ کھانے میں جو کی روٹی، زیتون کا تیل اور موٹا پسا ہوا نمک آیا۔ مہمان نے پوچھا امیر المومنین آپ گیہوں کے آٹے کی روٹی کیوں نہیں کھاتے ،جواب ملا’’عمر کو یقین ہے کہ مملکت میں ہر شخص کو کم از کم جو کی روٹی میسر ہے۔ وہ گیہوں کی روٹی اس دن کھائے گا جس دن مملکت میں ہر شخص کو گیہوں کی روٹی ملے گی‘‘۔ ہمارے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان خاندانی نواب اور رئیس تھے۔ ہزاروں ایکڑ اراضی کے مالک اور محلات میں رہنے والے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اپنا دہلی والا گھر پاکستانی سفارتخانے کو دے دیا اور خود پاکستان میں گھر تک نہ لیا اور نہ ہی اپنی چھوڑی ہوئی اراضی کے بدلے یہاں زمین الاٹ کروائی۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں پاکستان میں گھر اور زمین اس وقت لوں گا جب سارے مہاجرین آباد ہوجائیں گے، چنانچہ انتقال ہوا تو نہ گھر تھا نہ زرعی اراضی۔ پاکستان کے پہلے سربراہ مملکت قائد اعظم محمد علی جناح اسلامی طرز حکومت کی میراث کو ذہن میں رکھتے ہوئے قومی خزانے کے تقدس کا حددرجہ خیال رکھتے تھے۔ قانون کی حکمرانی، انصاف اور ایثار کو حرز جاں بنا رکھا تھا۔ ایک ایک پیسے کے جائز استعمال کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ جو بیکری گورنر جنرل ہائوس میں ناشتے کا سامان سپلائی کرتی تھی، مادرملت نے اس کے مالک کو فون کرکے چھوٹی ڈبل روٹی بھجوانے کا کہا کیونکہ نارمل ڈبل روٹی کے سلائس ضائع ہوجاتے تھے۔ قائداعظم کے لئے ز یارت میں اونی جرابیں منگوائی گئیں یا ان کے معالج کرنل الہٰی بخش نے لاہور سے باورچی منگوایا تو قائد اعظم نے جرابوںکی قیمت اور باورچی کا خرچہ اپنی جیب سے ادا کیا۔ مشرقی پاکستان کےسرکاری دورے کے لئے برٹش ائیر ویز کا طیارہ لینے سے انکار کردیا کہ میرے ملک کا خزانہ اس خرچ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ وفات سے قبل قائد اعظم نے ساری جمع پونجی اپنی بہن اور بیٹی کا حصہ نکال کر اسلامیہ کالج پشاور، مدرستہ الاسلام سندھ، انجمن حمایت اسلام لاہور اور بمبئی کے ایک مسلمان یتیم خانے میں تقسیم کردی۔ ہماری قومی تاریخ کے اولین حکمرانوں پر نہ کبھی کرپشن کا الزام لگا اور نہ ہی ان کے بیرون ملک اثاثے یا بینک بیلنس تھے۔ اندرون ملک ان کی جائیدادیں شک و شبہ سے بالا تر تھیں۔قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں نے جس سیاسی اور حکمرانی کے کلچر کو فروغ دیا وہ ہماری اسلامی میراث کے قریب تر تھا۔ اس دور میں پاکستان کو عالمی سطح پر وقار اور احترام حاصل تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کی کرپشن، بے بصیرتی اور قانون و انصاف کی پامالی کی داستانوں نے پاکستان کو ساری دنیا میں بدنام کردیا ہے حتیٰ کہ ہم اپنا قومی وقار بھی کھوبیٹھے ہیں ۔ حکمران طبقوں کی دیکھا دیکھی عوام بھی اسی رنگ میں رنگتے گئے اس طرح اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل گیا۔ افسوس کہ امانت و صداقت و دیانت ہماری میراث تھی۔ ہم اپنی میراث سے انحراف کرکے ذلیل و خوار ہوگئے جب کہ غیروں نے اسے اپنا کر عزت پائی۔ بقول علامہ اقبالؒ ؎
گنوادی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسمان نے ہم کو دے مارا



.
تازہ ترین