• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسی ہذیان گوئی، ایسی کذب بیانی، ایسی مغلظات، ایسی نفرت انگیزی اور ایسی سفلی اشتعال انگیزی کسی انسان، کسی مومن اور کسی صحیح الدماغ شخص کو زیب دیتی ہے؟ پر جن کا چلن ہی بدگوئی، بدخوئی اور بدطینتی ہو، اُن سے بھلے کی اُمید کوئی کیا کرے جب کوئی فساد فی الارض پہ تُلا ہو۔ جنہوں نے تکفیر اور توہین کو پیشہ بنا لیا ہو اور جو رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی روحانی طہارت اور خلوت کو بیچ بازار میں نیلام کر کے کروڑوں روپے بنانے کے دھندے پہ فخر کرتے ہوں، تو وہ کیا ہے جو وہ بیچنے سے باز رہیں گے۔ لیکن جو شرمناک اور خطرناک سودا بیچنے اب وہ ٹیلی ویژن پہ نمودار ہوئے ہیں، اس پہ تو خباثتِ شیطان بھی شرمندہ ہو کر رہ جائے۔ ایسے میں جب دینِ رحمت و سلامتی کو ظلمت و فساد میں بدلنے والے خوارج اور گمراہ لوگ رب العالمین کو خدانخوانستہ ظالموں اور رحمت للعالمین کے پاکیزہ اور اعلیٰ ترین انوار کو کذابوں، خارجیوں اور تکفیریوں کی بھینٹ چڑھانے پہ تلے ہوں، تو بندہ بشر اپنے رب سے اور کالی کمبلی والے محمد ﷺ کے حضور ابرِ کرم کی بھیک ہی مانگ سکتا ہے۔ اور گمراہ نفرت پردازوں کو صراطِ مستقیم پہ واپس لانے کی دُعا کے علاوہ کیا کر سکتا ہے۔ ’’ظالم آن لائن‘‘ تو سنا تھا لیکن ’’کاذب آن لائن‘‘ کو بھگتنا کسی بھی شریف آدمی کے بس کا نہیں۔ جی ہاں! کروڑہا بار، لبیک یا رسول اللہ ﷺ اور یا اللہ خیر کہ تجھ سے ہی معافی کے طلبگار ہیں اور تجھ سے ہی خیر کی بھیک مانگتے ہیں اور التجا کرتے ہیں کہ فتنہ گروں سے مملکتِ خداداد اور اُن کے شر سے اپنے بندوں کو محفوظ رکھ!!
جانے کہاں سے یہ خود کش نمودار ہوا ہے اور کون ہے جو اس بزدل کے غبارے میں ہوا بھر رہا ہے؟ جو کسی کا نہیں وہ کیونکر اپنے عامیانہ و بازاری ہذیان اور اشتعال سے جانے کس کا کیا مقصد پورا کر سکتا ہے؟ آلِ رسول، حضرت شاہ قمیص الاعظم ساڑھوروی، حضرت عبدالقادر جیلانی کی اولاد اور اولیائے کرام اور صوفیائے کرام جو برصغیر میں دینِ نجاتِ انسانی لائے اُنہیں لعنتی ابوجہل کہنا کارِ مذلت نہیں تو کیا ہے۔ اس پر دل خون کے آنسو نہ روئے تو کیا کرے۔ جنہیں ماں بہن کے مقدس رشتوں کی تمیز نہ ہو، اُنہیں بہن کی گالی دینے میں کیا عار! اور جو شہرت اور دولت کے اندھے پجاری ہوں، اُنہیں ایمان تو کیا اپنا سب کچھ بیچ دینے میں کیا ہچکچاہٹ ہو سکتی ہے۔ بس نمبر 1 بننا ہے، بھلے آپ ایک نمبر کے ڈھونگی، دو نمبر کے بکائو مال ہی کیوں نہ بن جائیں۔ چھوٹی سکرین پہ بیٹھی مرد داشتائوں کو دیکھ کر تو بیچاری طوائفیں بھی منہ چھپائے پھرتی ہیں۔ بھلا ایسے ضمیر و ایمان فروشوں کو کیا معلوم کہ ابھی بھی لوگ ہیں جو امانتوں میں خیانت کو گناہِ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ آیئے ہمارے تصدیق شدہ کھاتے حاضر ہیں اور ہم ایک ایک پائی کے حساب کے لئے اس دُنیا اور اپنے رب کے سامنے ذمہ دار ہیں۔
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مَے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام اُلٹائے دیتے ہیں
رہی بات رسالت مآب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی حرمت اور عظمت، یہ جہاں تو کیا حضور پُرنور ﷺ پر سب کچھ قربان ہے۔ فتنہ گرو باز آئو، اللہ اور اس کے رسول دیکھ رہے ہیں اور تمہارے جیسے کذابوں کے لئے عذابِ الیم کی شنید ہے۔
کبھی غور کیا ہے اسوئہ حسنہ پر، آپؐ پر وہ بوڑھی گند پھینکتی تھی اور جب ایک روز نہ پھینک پائی، آپؐ کو فکر لاحق ہوئی، معلوم کیا تو پتہ لگا بیمار ہے اور بھوکی ہے۔ تو آپؐ نے کیا کیا، اُس کی تیمارداری کی اور اپنی پشت پر خوراک کی بوری لاد کر اُس کی کفالت کی۔ اپنے بدترین مخالفوں کے ساتھ آپ جس طرح پیش آئے اُس نے بدترین مخالفوں کو بھی گرویدہ کر لیا۔ تمام عالمین کی رحمتوں کے امین حضور پاک ﷺ میں کہیں تکبر، تحکم اور ظاہری شان و شوکت کا کوئی شائبہ نہ تھا۔ صابر و شاکر، صادق و امین، حلیم و کریم، کیا کچھ نہیں تھیں آپ کے شرف کی بلندیاں۔ اور ایک آپ ہیں نام تو میرے نانا حضور کا لیتے ہیں۔ لیکن کس تحقیر و غضب اور نفرت و عقوبت سے، آپ شرفِ انسانی کی تذلیل کو اپنا طرئہ امتیاز بتانے میں فخر کرتے ہیں۔ اگر آپ کو نفرت و تکذیب کے اس شرمناک کاروبار پہ فخر ہے تو اللہ ہی آپ کو سبق دے۔ ویسے ہم جس مملکتِ خداداد کے باسی ہیں اور دُعا ہے کہ وہ تا قیامت سلامت رہے، اُس میں کوئی قانون، کوئی منصف، کوئی ادارہ ہے جو اس شرانگیزی اور فتنہ گری کو روکے۔ اب آہنی ضربِ عضب کی بات ہو رہی ہے اور ضربِ قلم کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی اور خوفناک فرقہ پرستی کی روک تھام کے عزم کے بار بار اعادے کیے جا رہے ہیں۔ تو ہم پوچھ سکتے ہیں کہ نفرت فروشی کا جو دھندہ ایک ٹیلی ویژن پہ چلایا جا رہا ہے اور معصوم لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے، ایسے متعصب بائولوں کو لگام دینے والا کوئی ہے؟ لگتا ہے کہ قرونِ اولیٰ کی قہر انگیزی (Inquisition) کا دور پلٹ آیا ہے۔ جو چاہے جس کو جو کہہ دے اور اشتعال پھیلا کر گلی کوچوں میں لوگوں کو سنگسار کر دے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں! یہ کس طرح کی بربرئیت کا بازار گرم کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمان مسلمان کے خون کا پیاسہ ہو جائے اور اُمت کو باہمی چپقلش کی بھینٹ چڑھایا جائے۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
اک عمر گزری ہے اس دشت کی سیاحی میں، حقِ اظہار، جمہوری و شہری حقوق اور آزادیٔ جمہور کے لئے ہم نے دہائیوں تک خون پسینہ ایک کیا ہے۔ سالہاسال جیلوں کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ شرفِ انسانی، تہذیبی چلن، بھائی چارے، انسان دوستی، رواداری، مظلوموں محروموں کی داد رسی، جمہوریت، انسانی حقوق اور امن و آشتی کے لئے کیا ہے جو ہم جیسے راندئہ درگاہوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر نہ کیا ہو! ہم کیسے حقِ اظہار پہ کسی قدغن کی حمایت کر سکتے ہیں؟ ساری زندگی محنت کشوں اور صحافی بھائیوں کے لئے جدوجہد کرتے کرتے ہم کیسے اپنے قلم کشوں کے روزگار پہ لات مارنے کا کبھی سوچ بھی سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے کہاں سوچا تھا کہ حقِ اظہار، حقِ نفرت گوئی، حقِ کذب بیانی، حقِ دروغ گوئی اور حقِ اشتعال انگیزی، حقِ قتل و غارت، حقِ گمراہی اور حقِ باطل میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔ ذہن و دماغ، زبان و قلم، ابلاغ و پرچار کی تلوار جب بندروں کے ہاتھ دے دی جائے تو اُن فسطائی اور آمرانہ قوتوں کے لئے راہ ہموار ہو جاتی ہے جو ایک آزاد اور ذمہ دار میڈیا سے خائف ہیں۔ ہم نے تو بار بار ضابطۂ اخلاق کی قسم کھائی ہے اور اس کی ترغیب بھی دیتے ہیں اور یہی ہماری راہ میں مانع ہے اور دُعا ہے کہ مانع رہے۔ ورنہ اصل اوقات دکھلانے میں کیا مشکل ہے۔
چھ برس پہلے کے ایک ٹیلی ویژن شو جس میں علامہ محمد اقبال کے فرزند ارجمند ڈاکٹر جاوید اقبال، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، سجاد میر اور راقم شریک تھے، پر کبھی کسی نے انگلی اُٹھائی تھی اور نہ تہمت دھری تھی۔ اُس پروگرام میں تو ’’لکم دینکم ولی الدین‘‘، ’’لااکراہ فی الدین‘‘ اور والی ٔ دو جہاں حضور نبی کریم ﷺ کی قناعت و دیانت، ذہانت و فطانت، رسالت اور صداقت کی توصیف بیان کی گئی تھی۔ لعنت ہو اُن پر اللہ کی اور ہدایت ہو اُن کو آخری پیارے نبی کریم محمد مصطفیٰ ﷺ کی کہ وہ سرقہ سے باز رہیں۔ اگر الزام لگانا ہی تھا تو کوئی ڈھنگ کا الزام لگاتے۔ جس کی ہمیں شرم ہے، ہمیں احترام ہے اور جن کے صدقے ہم اپنی مغفرت کے لئے دُعاگو ہیں، خدارا ہمیں اُس پہ تو شرمندہ نہ کریں اگر آپ میں واقعی رتی بھر شرم باقی ہے۔ لیکن آپ سے ایسی اُمید کہاں جو خود چند ٹکوں کے عوض سب کچھ بیچنے کے لئے ہمہ وقت بے چین رہتے ہیں۔ شکریہ اُن سو سے زیادہ مدیروں اور کالم نویسوں کا اور کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز، اے پی این ایس اور پی پی اے کا جو راقم کے دفاع میں گواہ بنے۔ رہی بات اس چیلنج کی کہ عدالت میں لے جائو اگر ہم اپنے باپ کے ہیں تو جناب ایسا ہی ہے۔ بھاگیں گے نہ بھاگنے دیں گے۔ یا اللہ خیر! یا رسول بے قصوروں کی مدد کر! لبیک یا رسول اللہ۔ ہماری پاک دھرتی پہ فتنہ و فساد کذب و ریاکاری اور ضمیر فروشی کو نایاب کر دے۔ آمین!
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں


.
تازہ ترین