• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی قومی اسمبلی میں اگلے روز جو کچھ ہوا ، اس پر کوئی حیرت نہیں ہے ۔ البتہ شرم ساری کا احساس ضرور ہوتا ہے ۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے ارکان آپس میں گتھم گتھا ہو گئے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کو مکے بھی مارے گئے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف نعرے لگائے اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے عمران خان کے خلاف نعرے بازی کی ۔ پاکستان کے عوام کے منتخب ایوان میں گالی گلوچ اور ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ عوامی نمائندگی کا حق ادا کررہا ہے تو اسے اپنی اس سوچ پر نظر ثانی کرنا ہو گی ۔ قومی اسمبلی میں ایک ایسا تماشا ہوا ہے ، جس پر حیرت نہیں ، شرمساری ہوئی ہے ۔
حیرت اس لئے نہیں ہوئی کہ ہمارے سیاست دانوں نے ایوانوں کے باہر جو زبان اختیار کر رکھی ہے ، اس کا نتیجہ یہی ہونا چاہئے تھا ۔ یہ لڑائی نہ صرف بہت پہلے ہونی چاہئے تھی بلکہ روزانہ کی بنیاد پر ہونی چاہئے تھی ۔ پاناما کیس کے حوالے سے ایک عدالت سپریم کورٹ کے اندر لگتی ہے اور دوسری عدالت سپریم کورٹ کے باہر لگتی ہے ۔ سپریم کورٹ کے باہر سیاست دان ایک دوسرے پر کسی ثبوت کے بغیر الزامات عائد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف گندی زبان استعمال کرتے ہیں ۔ یہ سلسلہ پاناما کیس سے شروع نہیں ہوا ہے بلکہ بہت پہلے سے چل رہا ہے ۔ سیاسی رہنما ایک دوسرے کے خلاف اس گندے کھیل میں اس طرح الجھ گئے ہیں کہ اب کسی پر الزام عائد کرنا یا کسی کی عزت اچھالنا اس ملک میں کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ اس کے اثرات ہمارے ملک کے دیگر شعبوں پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ میڈیا میں بھی فیصلے صادر کئے جاتے ہیں اور بغیر ثبوت الزامات عائد کئے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ عدالت کو نوٹس لینا پڑا کہ میڈیا کے لوگ فیصلے صادر نہ کیا کریں اور ایسے تبصروں سے گریز کریں ، جو کسی مقدمے کی کارروائی پر اثر انداز ہوں ۔ سیاست دانوں کے لئے ابھی تک عدالت کی طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں آیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا یہ حق سمجھتے ہیں کہ جو بات ان کے منہ میں آئے ، وہ کہہ دیں ۔
الزامات عائد کرنے کا آغاز کس نے کیا ؟ اب اگر اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے کوئی تحقیقاتی کمیشن بھی قائم کردیا جائے تو ایک یا دوسرا فریق کمیشن کی رپورٹ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا ۔ بالکل اسی طرح ، جس طرح پاناما کیس کا کوئی بھی فیصلہ آنے کی صورت میں ایک یا دوسرا فریق اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گا۔ جس نے بھی سیاست میں بغیر ثبوتوں کے الزامات کا سلسلہ شروع کیا ، اس نے نہ صرف جمہوری اور سیاسی اداروں کو نقصان پہنچایا بلکہ کرپشن کے خلاف عوام کی نفرت کا رخ موڑ دیا ۔ اب بڑی سے بڑی کرپشن بھی محض ایک الزام بن کر رہ گئی ہے اور کرپشن کے خلاف زیر سماعت مقدمات میں ملزمان کا جو میڈیا اور سیاسی ٹرائل کیا جاتا ہے ، اس کے بعد ملزمان ازخود مظلوم نظر آتے ہیں ۔ اس صورت حال میں نہ صرف عدالتیں سیاسی دباؤ میں رہتی ہیں بلکہ کوئی بھی ادارہ انصاف کی فراہمی اور کرپشن کے تدارک کے لئے صحیح طریقے سے کام نہیں کر پاتا ۔
ایسے ہی حالات سے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے خبردار کیا تھا ۔ وہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں غیر سیاسی قوتوں کی یہ منصوبہ بندی ہوتی ہے کہ وہ سیاسی قوتوں کو بدنام کریں اور ان کو اتنا گندا کریں کہ لوگ سیاست سے نفرت کرنے لگیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو یہ بھی کہتی تھیں کہ کرپشن کے تدارک کے لئے پاکستان کے جمہوری اور ریاستی اداروں کو مضبوط بنایا جائے اور صرف بیان بازی سے سیاست دان ایک دوسرے کا ٹرائل نہ کریں ۔ اس کا فائدہ غیر سیاسی قوتوں کو ہو گا ۔ ان کے دور میں ہی یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا ، جو اب اپنے عروج پر ہے ۔ اب غیر سیاسی قوتوں کو بھی الزام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ سیاست دان الزامات کی اس کیچڑ میں خود اپنے آپ کو گندا کر چکے ہیں۔ اب غیر سیاسی قوتوں کی طرف وہ انگلی بھی نہیں اٹھا سکتے۔ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں بغیر ثبوت الزام لگانے کی سزا ہوتی ہے لیکن یہاں قانونی حق سمجھا جاتا ہے ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سیاست دانوں کو نہ تو جمہوری اور ریاستی اداروں پر اعتماد ہے اور نہ ہی وہ ان اداروں کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں ۔ وہ صرف بیانات سے فیصلے صادر کرتے ہیں اور چیخ چیخ کر اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔ سیاست اب نوجوان نسل کے لئے محض کرپشن اور الزامات کا کھیل بن کر رہ گئی ہے اور کرپشن کے خلاف نعرہ بھی ایک سیاسی ’’ Exploitation ‘‘ ( استحصال ) کے سوا کچھ نہیں رہا ہے ۔ پاناما کیس کے حوالے سے شروع شروع میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اس کیس کا جو بھی فیصلہ ہو گا ، وہ پاکستان میں سیاست کے ’’ Norms‘‘ (طریقے )تبدیل کرکے رکھ دے گا لیکن اس کیس کی سماعت کے دوران عدالت کے باہر جو عدالتیں لگیں ، انہوں نے یہ تاریخی موقع گنوادیا ہے ۔ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا جو میڈیا اور سیاسی ٹرائل کیا گیا ، اس کے بعد اس کیس کے فیصلے کو ، چاہے وہ کچھ بھی ہو ، سیاسی انداز میں دیکھا جائے گا ۔ الزامات در الزامات کی سیاست ، بلاوجہ کی بیان بازی اور سیاست کے فسطائی انداز نے کرپشن کے خلاف مہم اور جمہوری ارتقا کو نقصان پہنچایا ہے اور یہ نقصان ایسی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے ، جس کی ہمیں توقع نہ ہو۔


.
تازہ ترین