• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
٭٭٭
سٹیبلشمنٹ بدستور خبروں میںہے ، اور بدقسمتی سے یہ خبر اچھی نہیں ہے ۔ یہ بات درست کہ فوج جمہوریت کا نیا سفر شروع کرنے والی اس ریاست کا مرکزی کردار ہے ، چنانچہ اسے میز پر نمایاں مقام ملنا چاہئے ، لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ ملک کو متواز ن حالت میں چلانے کے لئے خودپارسائی ، تنک مزاجی اور برہمی کے اظہار کی بجائے دانشمندی اور غیر متنازع کردار کی ضرورت ہے ۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
2008 ء میں پی پی پی کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد امریکی حکومت نے کیری لوگر بل منظور کیا ۔ یہ بل پاکستان کو دی جانے والی مالی امداد کو’’ غیر ضروری فوجی مداخلت کے بغیر جمہوریت کے تسلسل‘‘ سے مشروط کرتا تھا۔ اس خبر نے دنیا کے ہمارے حصے میں ابھی دستک دی ہی تھی کہ وزیر ِخارجہ، شاہ محمود قریشی کوایسی شرائط رکھے جانے پر سخت تنقید کا نشانہ بناکر فوراً واشنگٹن کی طرف روانہ کردیا گیا کہ وہ اس شق میں ترمیم کرائیں۔ اس کے بعد صدر آصف زرداری نے انڈیا کے ساتھ روابط بحال کرنے کے لئے ’’حملے میں پہل نہ کرنے‘‘ کے معاہدے پر دستخط کرنے کی پیش کش کی، لیکن اُن کی اس کوشش کو ممبئی حملوں نے ناکام بنا دیا۔ مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ ان حملوں کے فٹ پرنٹس کاکھوج پاکستان کی طرف جاتا دکھائی دیتا تھا۔ بہرحال ممبئی دہشت گردی سے پرامن مذاکرات کے امکانات دم توڑ گئے ۔
اس کے بعد میموگیٹ سامنے آگیا۔ مسٹرزرداری کے قریبی رازداں اور واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر، حسین حقانی کو ’’قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے ‘‘ کی پاداش میں گھر جانا پڑا۔ ملک میں تنائو اتنا بڑھا کہ زرداری صاحب نے ’’علیل ‘‘ ہونے میں ہی عافیت گردانی اور یواے ای کے کسی اسپتال میں داخل ہوگئے ۔ اگر2011 میں ریمنڈ ڈیوس کے معاملے نے زرداری حکومت اور امریکی انتظامیہ کے درمیان رخنہ ڈالاتو سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد نیٹو سپلائی روکنے نے جلتی پر تیل گرا دیا۔داخلی طورپر پی پی پی حکومت نے آئی ایس آئی کے چیف، لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا اورآرمی چیف، جنرل اشفاق پرویز کیانی کو مدت ِ ملازمت میں توسیع دے کر کچھ رعایت حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ تاہم اس کے باوجود پی پی پی نے اپنے ایک وزیر ِاعظم، یوسف رضا گیلانی کو کھودیا، جبکہ دوسرے وزیر ِاعظم، راجہ پرویز اشرف بمشکل ہی اپنا بچائو کرنے میں کامیاب ہوئے، یہاں تک کہ نئے عام انتخابات کا نقارہ بج اٹھا۔
وزیر ِاعظم ، نواز شریف بھی اسی صورت ِ حال سے دوچار دکھائی دئیے ۔ خطے میں امن ،معاشی ترقی اور عوام کی فلاح کے اُن کے تصور کوروز ِاوّل سے ہی ناکام بنانے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔کابل کو ’’اچھے طالبان ؍برے طالبان‘‘ کی مشکوک پالیسی نے، جبکہ انڈیا کو مبینہ پراکسی جنگجوئوں نے زچ کیے رکھا۔ چنانچہ ان دونوں ممالک اور پاکستان کے درمیان سردمہری اور تنائو کی کیفیت برقرار رہی۔ اس کے بعد 2013 ء میں ایک غیر سیاسی اور پیشہ ور سپاہی، جنرل راحیل شریف کی آمد کے ساتھ بندھنے والی امید جلد ہی اسلام آباد میں عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں کے دوران ’’تھرڈ امپائر ‘‘ کے نعروں کی گونج میں دم توڑ گئی ۔تاثر ہےکہ جنرل راحیل شریف کو مدت ِ ملازمت میں توسیع نہ دینے کی پاداش میں ’’ڈان لیکس ‘‘سامنے آئیں اور ایک وفاقی وزیر ، پرویز رشید کو گھر جانا پڑا۔
وزیر ِاعظم کی طرف سے جنرل قمر باجوہ کی سلیکشن بھی پرسکون ماحول میں نہیں ہوئی ۔ سب سے پہلے تو اُن کے عقیدےکے بارے میں ناروا بحث چھیڑ دی گئی تاکہ وزیر ِاعظم یہ فیصلہ کرنے سے گریز کریں۔ اس کے بعد دی ٹائمز آف لندن کی رپورٹ سامنے آئی جس کے مطابق آرمی چیف پرکچھ حلقوں کا مبینہ طور پر دبائو ہے کہ وہ حکومت کی منشا کے مطابق نہ چلیں۔ اس پر کسی کو یاد نہ رہا کہ اگر ڈان لیکس کی بجلی سویلینز پر گری تھی تو ٹائمز لیک مقتدر ادارےکی اتھارٹی کو زک پہنچارہی تھی کیونکہ اس سے تاثر گیا کہ اس ادارے کی اپنی صفوں میں عدم اتفاق پایا جاتا ہے ۔ افسوس، ہمارے ہاں جو بات ایک کے لئے درست ہے ، دوسرے کے لئے غلط ہے ۔ متوقع آرمی چیف کے خلاف عقیدے کی بنیاد پر انتہائی منفی مہم چلانے والے سازشی عناصر سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی گئی ۔
اب ہم سنتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کو کچھ اسلامی ممالک کے الائنس سے بننے والی فوج میں انتہائی پرکشش عہدے پر فائز کیا جارہا ہے ۔اس کا جوبھی نام ہو، یہ بہرحال سنی ریاستوں کی فوج ہے جس کا مقصد یمن کے حوثی قبیلے ، ایران اور علوی شام کے خلاف لشکر میدان میں اتارنا ہے ۔پاکستانی سیکورٹی کے مفادات کو دیکھتے ہوئے یہ طرز ِعمل اتنا ہی قابل ِ اعتراض ہے جتنا کچھ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا یواے ای حکومت میں بطور مشیر فرائض سرانجام دینا، یا کچھ سابق آرمی چیفس کا عرب بھائیوںکے ہاں پرکشش مشاہرے پر کام کرنا۔ بات یہ ہے کہ جب سویلین رہنما لندن ، یو اے ای یا جدہ کی مدد لیتے ہیں تو اُن کی مذمت کی جاتی ہے لیکن یہی بات سابق افسران کے لئے درست سمجھی جاتی ہے، بلکہ کوئی اس کا ذکرتک نہیں کرتا۔
اس وقت جنرل باجوہ کے دور میں کچھ بلاگرز ’’غائب‘‘ ہوگئے ہیں(اطلاعات کے مطابق کچھ بلاگرز گھر واپس آگئے ہیں)۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ اُنہیں حساس اداروں نے اٹھایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بلاگرز اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ سیاسی کردار پر تنقید کررہے تھے۔ سویلین حکومت اس معاملے میں بے بس دکھائی دیتی ہے کیونکہ مسلح افواج پر غیر ذمہ دارانہ تنقید کی آئین اجازت نہیں دیتا۔ لیکن پھر اس طرح تو قانون نفرت انگیز تقاریر اور تشدد پر ابھارنے کی بھی اجازت نہیں دیتا ، لیکن غائب ہونے والے کے خلاف بعض عناصر اشتعال انگیز تقاریر کررہے ہیں۔ اس ملک کا مسئلہ یہی ہے۔ جو چیز ایک کے لئے غلط ہے، وہ دوسرے کے لئے درست سمجھی جاتی ہے۔


.
تازہ ترین