• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گجرات کے ادبی میلے میںجاتے ہوئے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس قدر مہذب لوگوں سے خاص طور پر طلبہ سے واسطہ پڑے گا۔ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کی بدنظمی اور طلبا کی بہت بڑی اکثریت خاص طور پر جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے طلبہ اور اساتذہ کی علم سے دوری نے مجھے کافی عرصہ سے کالجوں اوریونیورسٹیوں سے دورکردیا ہوا ہے لیکن جب بلاوا میرے دوست اصغر ندیم سید کاہو تو کافی حد تک یقین ہوتا ہے کہ انہو ںنے بہتر لوگوں کے ساتھ بہتر پلاننگ کی ہوگی۔
پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کامران مجاہد کے خیالات سننے کے بعد گجرات یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاءالحق قیوم کو سننابھی ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ میرے سیشن سے پہلے سیشنز میں انتظار حسین، فیض احمد فیض اور پھرتھیٹر پر گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد بہ زبان قاسمی کی باری آئی۔ سیشنز میں کشور ناہید، اصغر ندیم سید، سلیمہ ہاشمی، ڈاکٹر عارفہ سیدہ، نعیم طاہر، سلمان شاہد اور پھر جناب عطا الحق قاسمی نے سب سے بڑاکام یہ کیا کہ طلبا کو ادب کے چند بڑے لوگوں سے روشناس کروایا۔ لوگ پابلونرودا اور فیض صاحب کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں سے اتنا متاثر تو ضرورہوئے ہوں گے کہ پابلو نرودا اورفیض صاحب کی شاعری کو پڑھیں اور جانیں کہ بڑی شاعری کیونکر لکھی جاتی ہے اور یہ بھی کہ بڑی شاعری سے عامیانہ شاعری اور ادب کو کیسے الگ کیاجاسکتاہے۔
اصل مسئلہ شایدیہی ہے کہ ہمارے طلبہ کی بہت بڑی اکثریت جہاں اچھا ادب پڑھنے سے دورہے وہاں وہ یہ بھی نہیں ادراک رکھتے کہ بڑا ادب بہت بلند ہوتا ہے۔ عامیانہ ادب کو پڑھ کر ہم پڑھے لکھے ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتے اور میرے خیال میں گجرات ادبی میلہ یا اس جیسے میلے یہ کام کرسکتے ہیں کہ لوگوںکو اچھے ادب ، اچھی شاعری، اچھا ناول، اچھے ادیب اور پھراچھی فلم سے روشناس کروائیں۔
میرے سیشن میں سوال وہی تھے کہ میڈیا اتنا زوال زدہ کیوںہے؟ اس میں ، میں اگر اپنے پچھلے ہفتے کے کالم کو شامل کرلوں جس میں، میں نے ادب اور فلم کےرشتے کے حوالے سے کچھ باتیں کی ہیں اور جس کے جواب میں ایک صاحب نے یہ تک کہہ دیا کہ ہمارے ہاں ادب میں کون سا کوئی بڑا کام ہو رہاہے کہ ہم بڑی فلم بنا سکیں۔ تو صاحبو! گزارش ہے کہ اس طر ح کی بات کوئی ایسا لاعلم شخص ہی کرسکتا ہے جو اردو ادب کے بڑے کاموں، ناول نگاروں، افسانہ لکھنے والوںاور نثرنگاروں سے واقف نہ ہو۔ میں نے پچھلے ہفتے جس فلم اور ناول کا حوالہ دیا وہ 70برس پرانی تحریر اورفلم ہے۔ ہم اگر70برس کے دوران لکھے گئے کچھ ناول نگاروںاور ان کی تصانیف کاحوالہ دیں تو کیا کیا شاندارتحریریں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ سب سے پہلے تو ذکر قرۃ العین حیدر کا ہی ہونا چاہئے۔ 1927میں علی گڑھ کے ایک نامور علم دوست خاندان میں پیدا ہونے والی اس خاتون نے لکھنو ٔ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ 13چھوٹے بڑے ناولوں اور درجنوں افسانوں اور خاکوں کی مصنفہ ہیں۔ ان میں سے اکثر پوری اردودنیامیں لازوال شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ ان میں ’’آگ کا دریا‘‘، ’’گردش رنگ ِچمن‘‘، ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ خاص طور پر پڑھنے اور پھر اس سے سبق سیکھنے کے لائق ہیں۔
پھر آپ انتظارحسین، منٹو، ممتاز مفتی، انیس اشفاق، شمس الرحمٰن فاروقی، عزیز احمد، اسد محمد خان، شکیل عادل زادہ، مستنصر حسین تارڑ ایسے ادیبوں کوپڑھنے سے کہانی، کہانی کے اندرموجود اندرونی ڈھانچے، کردار نگاری، کرداروں پر پڑنے والے بیرونی اثرات، مرکزی کردارکے تضاد اور تضاد میں اس کے فیصلے کے کہانی پر پڑنےوالے اثرات غرض کیا کچھ نہیں سیکھتے۔ اردو ادب میں اس سب کا اتنا بڑا خزانہ موجود ہے کہ اس بات کا کوئی گلہ نہیں کرسکتا کہ اس کے لکھنے کو اس کی اپنی زبان میں کچھ نہیں ہے۔ آخر عبداللہ حسین کے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ کے کرداروں پر ہندوستان کی تقسیم اور پھر ہجرت کےاثرات سے آپ کیا کچھ نہیں سیکھ سکتے۔ بانو قدسیہ کا ناول ’’راجہ گدھ‘‘ آپ کو پلاٹ کی متھ (Myth) اور پھر اس کے مرکزی کردار کی متھ کے حوالے سے کئی جہتوں پر روشناس کراتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فرانسس فورڈ کی فلم "The Apoclypse Now" جو کانرڈ کے ناول "The Heart of Darkeness" سے متاثر ہو کر بنائی گئی پلاٹ اور فلم کے مرکزی کردار کی متھ کے حوالے سے مشہور ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ اس سب سے سیکھ کیا رہے ہیں؟ اگر آپ ادب سے روشناس نہیں اور نہ ہی دنیا میں جوبڑی فلم بنائی گئی ہے اس کے فنی محاسن سے آگاہ ہیں تو آپ صرف یہ کہیں گے کہ ہندوستان کی گھٹیا درجے کی فلموں سے متاثر ہو کر تھرڈ کلاس فلمیں اور ڈرامے بنائیں تو اس طرح کی فلموں سے لوگ دور بھاگتے ہیں۔ آپ عوام کو بے شعور نہیں کہہ سکتے۔ عوام نے جہاں ’’وحشی گجر‘‘، ’’دادا بدمعاش‘‘ اور ’’اَن داتا‘‘ جیسی فلموں کو رجیکٹ کیا ہے وہاں وہ ہندوستان کی گھٹیا کاپی فلموں کو بھی رجیکٹ کر رہے ہیں۔ آپ شعیب منصور کی فلموں کو یہ کہہ کر گزارہ نہیں کرسکتے ہیں کہ یہ پروپیگنڈہ فلمیں ہیں۔ ان فلموں نے اصل مسائل پر توجہ دلائی اور پھر یہ کامیاب بھی ہوئیں۔
قرۃ العین حیدر نے عوام کو اچھے ناولوں اور ادیبوں سے روشناس کرانے کے لئے ہنری جیمز ایسے ناول نگاروں کی تصانیف کے ترجمے بھی کئے۔ ان میں ’’ایک خاتون کی تصویر‘‘ نمایاں ہے۔ ان ہی کا مطالعہ کیجئے۔ یہ ناول صحیح معنوں میں اس کی مرکزی کردار عزابل کی طبیعت اور مزاج کا نفسیاتی تجزیہ پیش کرتاہے اور اس کے پس منظر میں انیسویں صدی کے انگلستان اور یورپ کی سوسائٹی کے اعلیٰ طبقے کی منظرکشی کرتاہے۔
اس جیسے ناول پڑھنا اور ان سے سبق سیکھنا اور پھر اسی طرح اگر اپنے ہاں بڑا کام فلم میں نہیں ہورہا تو انگریزی، فرنچ، اٹالین، برازیلین اور بہت سی اور زبانوں کی بڑی فلموں کو دیکھ کر سیکھنا کسی نے منع نہیں کیا۔ صرف یہ بات یاد رہے کہ چھوٹا دماغ بڑی چیز پیدا نہیں کرسکتا۔ تاریخ کا سبق یہی ہے۔



.
تازہ ترین