• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں وزیراعلیٰ پنجاب عرف خادم اعلیٰ کا بیک وقت مداح بھی ہوں اور ناقد بھی۔ اس لئے کبھی تعریف کرتا ہوں تو کبھی تنقید۔ ایک بات جو بہت عرصہ سے کہنا چاہ رہا تھا اور موضوعات کی بھیڑکے باعث کہہ نہیں پا رہا تھا وہ انہوں نے چند ماہ قبل خود ہی کہہ دی۔ ان کی سربراہی میں شعبہ صحت سے متعلق اعلیٰ سطح کا اجلاس جاری تھا، جب یہ انکشاف ہوا کہ کانگو وائرس سے بچائو کے لئے کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی گئی تو وہ غصے سے تلملا اٹھے اور جوش جذبات میں کہہ بیٹھے کہ ’’ہر کام مجھے ہی کرنا ہے تو متعلقہ اداروں کا کیا کردار ہے؟‘‘ سچ تو یہ ہے کہ خادم اعلیٰ نے بذات خود ہی یہ طرز حکمرانی متعارف کروایا ہے۔ عوام نے انہیں وزیراعلیٰ منتخب کیا ہے لیکن کبھی وہ آئی جی پنجاب کے اختیارات مستعار لیکر پولیس افسروں کو معطل کرنے نکل پڑتے ہیں، کبھی خو د کو سیکریٹری ہیلتھ سمجھ کر اسپتالوں کا دورہ کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور کبھی ڈی سی اوبن کر اتوار بازاروں کا معائنہ کر رہے ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کسی واقعہ کا نوٹس لینے کے بعد سخت ترین کارروائی کرتے ہوئے خادم اعلیٰ پنجاب متعلقہ افسر کو معطل کرنے کا حکم جاری کرتے ہیں تو چند ماہ بعد ہی انکوائری ٹھپ ہو جاتی ہے اور وہ افسر کسی اور اہم ترین عہدے پر تعینات کر دیا جاتا ہے۔ اگر ان کو اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے کچھ وقت میسر آئے تو ایک فہرست مرتب کروائیں کہ 8جون 2008ء کو وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھانے کے بعد اب تک انہوں نے جتنے افراد کو معطل کیا، کیا ان میں سے کسی ایک کے خلاف بھی کارروائی ہوئی؟ شاید ان کے پاس اتنا وقت نہ ہو اس لئے میں نے اپنے تئیں تھوڑی بہت تحقیق کر کے کچھ معلومات جمع کی ہیں۔ جولائی 2016ء کے آخری عشرے میں انکشاف ہوا کہ مسلم لیگ یوتھ ونگ کے ایک رہنما نے رحیم یار خان میں نجی ٹارچر سیل بنا رکھا تھا۔ جب لوگوں کو برہنہ کر کے تشدد کرنے کی ویڈیوز ٹی وی چینلز پر نشر ہوئیں تو وزیراعلیٰ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تھانہ بی ڈویژن کے پورے عملے کو معطل کر دیا۔ اس سخت ترین کارروائی پر مجھے یاد آیا کہ تین سال پہلے یعنی جولائی 2013ء میں اوکاڑہ کے تھانہ صدر دیپالپور کی حوالات میں انسانیت سوز واقعہ ہوا۔ باپ بیٹے کو برہنہ کر کے بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اصولاًتو اس کا نوٹس آئی جی پنجاب کو لینا چاہئے تھا لیکن واقعہ کی خبرعام ہونے پر خادم اعلیٰ پنجاب کی رگِ عدل پھڑکی اور انہوں نے ڈی پی اواوکاڑہ اورایس پی ا نویسٹی کو او ایس ڈی بنا دیا جبکہ ڈی ایس پی سمیت تھانہ صدر دیپالپور کے پورے عملے کو معطل کر دیا۔ چند ماہ بعد ہی افسر بکار خاص بنائے جانے والے راجہ بشارت کو ڈی پی او منڈی بہائوالدین لگا دیا گیا، بعد ازاں وہ لاہور میں ایس پی سی آئی اے تعینات رہے اور مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہوگئے۔ اس واقعہ کی پاداش میں کسی ایک فرد کو بھی سزا نہیں ہوئی اور سب پرانی تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں۔ جب ڈی ایس پی سے ڈی پی او تک ہر پوسٹنگ وزیراعلیٰ ہائوس میں انٹرویو کے بعد ہو گی اور آئی جی کو سینٹرل پولیس آفس کے کسی کونے میں چپ چاپ دہی کھانے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں ہو گا تو پھر ہر کام خادم اعلیٰ کو خود ہی کرنا پڑے گا۔ اس وقت بھی پنجاب میں ایس پی رینک کی 27پوسٹیں اس لئے خالی پڑی ہیں کہ خادم اعلیٰ پنجاب کو اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے وقت میسر آئے اور وہ منظوری دیں تو تعیناتیاں کی جائیں۔
یادش بخیر چند ماہ قبل خادم اعلیٰ کا جی چاہا کہ وہ سیکریٹری ہیلتھ بن کر دیکھیںتو وہ جنرل اسپتال لاہور کا دورہ کرنے جا پہنچے۔ وہاں آپریشنز میں تاخیر، صفائی کے ناقص انتظامات اور واش رومز کی خستہ حالی پر ایم ایس، ڈیوٹی اے ایم ایس اور ایک ڈاکٹر کو معطل کر دیا۔ چند روز بعد ویڈیو لنک پر ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے بہاول وکٹوریہ اسپتال بہاولپور کے ایم ایس اور قائد اعظم میڈیکل کالج کے پرنسپل کو اس لئے معطل کر دیا کہ کانگو وائرس سے متاثرہ نرس اور اسکا علاج کرنے والے ڈاکٹر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے پہلے 28جولائی 2015ء کو نوازشریف اسپتال لیہ کا دورہ کرتے ہوئے خادم اعلیٰ نے ایم ایس، ڈی ایم ایس، اے ایم ایس اور ای ڈی او ہیلتھ کو معطل کر دیا تھا۔ 7مئی 2016ء کو خادم اعلیٰ پنجاب نے ڈی ایچ کیو لیہ کے ایم ایس کو اس لئے معطل کر دیاکہ زہریلی دوائی کھانے سے 30افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 27جون 2016ء کو خادم اعلیٰ پنجاب نے ننکانہ صاحب ڈی ایچ کیو کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ ایئر کنڈیشنر نہیں چل رہے جس پر انہوں نے ڈی سی او، ای ڈی او ہیلتھ اور ایم ایس کو معطل کرد یا۔ سوال یہ ہے کہ اگراسپتالوں کا دورہ کرنا، صفائی کے انتظامات کا جائزہ لینا اور متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کرنا خادم اعلیٰ پنجاب کے فرائض میں شامل ہے تو پھر سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری ہیلتھ یا پھر ڈی جی ہیلتھ، پنجاب بھر کے ای ڈی اوز ہیلتھ بلکہ پوری ہیلتھ منسٹری کے سینکڑوں افسران اور ہزاروں ملازمین کس مرض کی دوا ہیں؟کیوں نہ سول سیکریٹریٹ میں بیٹھے سب افسران کو گھر بھیج دیا جائے تاکہ قومی خزانے اور وسائل کا ضیاع نہ ہو۔ اور اس سے بھی کہیں زیادہ اہم ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ اگر خادم اعلیٰ پنجاب نے 36اضلاع کے ڈی پی اوز، ڈی سی اوز، ای ڈی اوز اور دیگر افسران کے فرائض کا بوجھ اپنے بھاری بھرکم کندھوں پر اٹھا رکھا ہے تو وزیراعلیٰ کی ذمہ داریاں اور فرائض کون ادا کر رہا ہے؟
خادم اعلیٰ کی درویشی اور سادگی دیکھ کر مجھے وہ خاتون یاد آتی ہے جس کا ذکر قدرت اللہ شہاب نے کیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے اسے فوری طور پر فرد ملکیت بنوا دی تو اس نے دعا دی، جا بیٹا! اللہ تجھے ترقی دے اور پٹواری بنا دے۔ شاید خادم اعلیٰ پر بھی ایسی ہی کسی دعا کا اثر ہے کوئی انہیں بتائے، ارے صاحب! آپ وزیراعلیٰ ہیں، صوبے کے مختار کل۔

.
تازہ ترین