• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاوا جب پکتا ہے تو اسے بالآخر ابلنا ہی ہوتا ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد سے جو آتش فشاں دہک رہا تھا اور سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے دوران تین ماہ سے اسے جو مہمیز مل رہی تھی اسے بہرحال پھٹنا ہی تھا۔ پاناما پیپرز کے مقدمے کی ہر سماعت کے بعد سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر زبانوں سے اگلتے شعلوں نے جلد یا بدیر پارلیمنٹ کو اپنی لپیٹ میں لینا ہی تھا کیوں کہ جہاں ہوش پر جوش غالب آ جائے، جہاں اقدار کی بجائے اقتدار کی سیاست ترجیح ہو اور جہاں قواعد و ضوابط کی بجائے نظریہ ضرروت مقدم ہو وہاں ہاتھ گریبانوں تک پہنچ ہی جایا کرتے ہیں اور پھر یہ تمیز بھی ختم ہو جاتی ہے کہ دنگل کا مقام کوئی جلسہ گاہ ہے یا پارلیمنٹ۔ گزشتہ جمعرات کو قومی اسمبلی میں برپا ہونے والے ہنگامے کے باعث پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں جس سیاہ باب کا اضافہ ہوا اس میں کوئی اچھنبے کی بات اس لئے نہیں ہے کہ جب سڑکوں، چوراہوں، ریلیوں، جلسوں، پریس کانفرنسوں، ٹی وی پروگراموں حتی کہ عدالت عظمیٰ کے احاطے میں کھڑے ہو کر ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہوئے تمام اخلاقی حدیں عبور کر جائیں گے، سیاسی اختلافات کو ایک دوسرے کی کردار کشی میں تبدیل کر دیں گے، آزادی اظہار کو دوسرے کی تضحیک کے لئے بطور ہتھیار استعمال کریں گے، بچوں کی طرح ایک دوسرے کے نام بگاڑ کر خود کو تسکین پہنچائیں گے، ایک دوسرے کو چور کہہ کر پکاریں گے، کیچڑ اچھالتے ہوئے فخر محسوس کریں گے، خود کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا قرار دیں گے، خود مدعی اور خود ہی منصف بن جائیں گے تو یقیناً وہی کچھ ہوگا جو قومی اسمبلی میں ہوا۔ پھر کیسی ندامت، کون سی مذمت، کہاں کا افسوس۔
اب تو حال یہ ہے کہ اخلاقیات کا درس دینے والوں میں وہ بھی نمایاں ہیں جو خود اپنے ارکان کو تمام حدیں پھلانگنے کی شہ دیتے رہے۔ سانپ گزرنے پر اب لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ۔ اسپیکر صاحب پارلیمانی رہنماؤں سے مشاورت کر رہے ہیں کہ ایک ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے تاکہ دوبارہ ایسی نوبت نہ آئے لیکن کیا کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی پارلیمانی رہنما انہیں اس امر کی ضمانت دے سکتا ہے کہ جن قانون بنانے والوں نے آئین اور اسمبلی کے قواعد و ضوابط کو پامال کرتے ہوئے رتی برابر پروا نہیں کی ان کے نزدیک ضابط اخلاق کس چڑیا کا نام ہو گا۔ زور آوروں کا اور کسی پر بس نہیں چلا تو موبائل فون کے ذریعے فوٹیج بنانے پر پابندی عائد کر دی یعنی اپنی شبیہ کو ٹھیک کرنے کی بجائے آئینہ ہی توڑ دو۔ اسپیکر کی طرف سے ہنگامہ آرائی کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے بھی تحقیقات جاری ہیں لیکن سوال یہ نہیں ہے کہ کون کس کی نشست کی طرف گیا، کس نے کس کو دھکا دیا، کس نے پہلے گالی دی، کس نے نازیبا اشارے کئے، کس نے کس کے گریبان پر ہاتھ ڈالا، کس نے تھپڑ مارا یا کس نے مکا جڑا۔ اگر جواب ڈھونڈنا ہے تو اس پر عرق ریزی کی جائے کہ نوبت یہاں تک کیوں پہنچی، تحقیقات کرنی ہی ہیں تو یہ کی جائیں کہ صبر کا دامن ہاتھ سے کیوں چھوٹا، مشاورت کرنی ہے تو اس پر سر جوڑ کہ بیٹھا جائے عدم برداشت کی وجوہات کیا ہیں کیوں کہ بقول شاعر؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
کیا اسپیکر صاحب نہیں جانتے کہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان باہر جاری تلخی ایوان کے اندر پہنچ چکی ہے، کیا اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ ناواقف ہیں کہ جو کچھ نوے کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان ہوتا تھا اب تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان برپا ہے اور تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ کیا شاہ محمود قریشی لاعلم ہیں کہ لہجوں کی تلخی رویوں میں ڈھل رہی ہے، کیا خواجہ آصف کو ادراک نہیں کہ سیاسی اختلافات جب ذاتیات پر انگلی اٹھانے تک پہنچ جائیں تو خمیازہ جمہوریت کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کیا مولانا فضل الرحمان کو کوئی شک ہے کہ جب سڑکوں پر سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں تو ایوانوں کے اندر بھی دستار محفوظ نہیں رہتی۔ کیا ڈاکٹر فاروق ستار کو معلوم نہیں کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ کیا حاجی غلام بلور بھول سکتے ہیں کہ جب سیاسی مخالفین کے ذاتی عیبوں سے پردہ ہٹایا جاتا ہے تو ستر پوشی اپنی بھی ممکن نہیں رہتی، کیا صاحبزادہ طارق اللہ انجان ہیں کہ کیچڑ میں پتھر مارا جائے تو چھینٹے خود پر بھی پڑتے ہیں۔ کیا آفتاب شیر پاؤ کو اندازہ نہیں کہ ایک انگلی کسی کی طرف اٹھائی جائے تو چار کا رخ اپنی طرف ہی ہوتا ہے۔ کیا محمود خان اچکزئی کو یقین نہیں ہے کہ ایوان کے باہر زبانیں زہر اگلیں گی تو ایوان کے اندر بھی لہجوں میں مٹھاس ختم ہو جائے گی۔ کیا شیخ رشید اتنی بصیرت نہیں رکھتے کہ جب سڑکوں پر ایک دوسرے کو مطعون کیا جائے تو ایوان کے اندر بھی ایک دوسرے سے نظریں ملانا ناممکن ہو جاتا ہے۔
یہ سب بخوبی جانتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ جو کچھ سڑکوں اور چوراہوں میں بو رہی تھی اسے وہی پارلیمنٹ کے اندر کاٹنا پڑتا تھا۔ اگر پاکستان پیپلزپارٹی نے صدر غلام اسحٰق خان کے خلاف گو بابا گو کے نعرے لگوائے تو فاروق لغاری کے بطور صدر پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران مسلم لیگ ن کے ارکان نے چور لغاری چور کے نعروں سے احتراز نہیں برتا۔ نصرت بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کی تصاویر کو تبدیل کر کے جہازوں سے گرائے جانے کی بدنام زمانہ مہم ہو یا قومی احتساب بیورو کے ذریعے پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف انتقامی کاروائیاں، ایک دوسرے کا راستہ روکنے کے لئے جھوٹے مقدمات قائم کرنا ہو یا ایک دوسرے کو سیکورٹی رسک قرار دینا، پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے سیاسی مخالفت میں تمام حدیں پار کرکے دیکھ لیں اور نتیجے کے طور پر آمروں کی سختیاں سہنے کے بعد میثاق جمہوریت کی صورت میں طے کر لیا کہ ریڈ لائنز کبھی عبور نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں نے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے تک سنے لیکن ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے گریز کیا۔ گزشتہ عام انتخابات کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے پہلے دھاندلی اور اب پاناما پیپرز کے معاملے پرجاری حکومت مخالف احتجاج نے ملک میں نوے کی دہائی کی سیاست کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکمراں جماعت ماضی کے تجربے اور حاصل کئے گئے سبق کی روشنی میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے سے گریز کرتی لیکن جماعت اور قیادت کی نظر میں جگہ بنانے کی کوشش کرنے والے نوجوان ارکان کے ساتھ اہم وزارتوں پر فائز انتہائی زیرک اور جہاندیدہ لیگی رہنما بھی اسی رنگ میں رنگے گئے ہیں۔ پاناما پیپرز کے ضمن میں لگائے جانے والے الزامات کے دفاع میں وہ بھی اس حد تک چلے گئے ہیں جو انہیں کسی طور زیب نہیں دیتا۔ اس صورتحال میں جب عدالت عظمیٰ میں پاناما کے مقدمے کی سماعت کے بعد فریقین میڈیا کے سامنے اپنی عدالت لگاتے ہوئے ہر اخلاقی حد عبور کر جاتے ہیں، اسپیکر کی طرف سے ایوان کے ماحول کو کشیدگی سے بچانے کے لئے ضابطہ اخلاق کی تیاری کیسے کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ پارلیمنٹ سے چند قدم کے فاصلے پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے والے ایوان میں داخلے کے ساتھ ہی تہذیب کے دائرے میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں۔
اپنے الفاظ سے مخالفین کے کانوں میں سیسہ انڈیلنے والے اسپیکر کے سامنے حریفوں کے کانوں میں رس گھولنے والے میٹھے الفاظ کیسے بول سکتے ہیں۔ لہجوں کی کرختگی پارلیمنٹ کا جنگلا پار کرتے ہی محبتوں میں کیسے ڈھل سکتی ہے۔ پارلیمنٹ کے تقدس کو برقرار رکھنے اور 26جنوری جیسے کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان میثاق جمہوریت کی طرز پر اب تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک نیا میثاق جمہوریت طے کیا جائے۔ جب تک پارلیمنٹ کے باہر کا سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لئے کسی نئے میثاق جمہوریت پر اتفاق نہیں کیا جاتا تب تک اس کی حدت کو کسی ضابطہ اخلاق کے ذریعے ایوان کے اندر پہنچنے سے نہیں ر وکا جا سکتا۔ ببول کے درخت پر کبھی گلاب نہیں اگا کرتے۔

.
تازہ ترین