• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابابیل ایک چھوٹا سا پرندہ ہے جسکا جسم کالا اور سینہ سفید ہوتا ہے اور جسکا ذکر قرآن حکیم کی سورئہ فیل میں آیا ہے کہ خانہ کعبہ کو نقصان پہنچانے کیلئے آنے والے حاکم یمن ابراہہ کے ہاتھیوں پر سوار مسلح افواج کو اللہ کے حکم سے ابابیلوں نے اپنی چونچوں میں دبی کنکریاں پھینک کر بھوسہ بنا ڈالا تھا۔ اِس نام کے میزائل کا تجربہ پاکستان نے 24جنوری 2017ء کو کرکے بھارت کے دفاعی بلیسٹک میزائل کے نظام کو یکسر ناکارہ بنا دیا ہے۔ یہ میزائل2200 کلومیٹر تک کئی دفعہ داخل ہوکر مختلف اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ ابابیل ایک نہیں بلکہ کئی میزائلوں کا حامل نظام ہے جو مختلف اطراف و سمتوں سے دشمن کے اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ بھارت کے بلیسٹک میزائل کے دفاعی نظام کا توڑ ہے، اگرچہ بھارت نے ابابیل جیسے میزائل کا تجربہ تو نہیں کیا مگر اسکے پاس بھی ایسا نظام موجود ضرورہے۔ ابابیل کے تجربےسے پہلے اُس کو اپنے بیلسٹک دفاعی نظام کی وجہ سے قدرے برتری حاصل ہوگئی تھی جس کا اب خاتمہ ہوگیا۔ ابابیل نہ صرف بھارت کے دفاعی نظام کو توڑے گا، راڈار پر نظر نہیں آئے گا، ایک سے زیادہ اہداف پر حملہ کرے گا بلکہ وہ ایٹمی ہتھیار بھی لے جانے کے قابل ہے۔ ابابیل جس نظام کے تحت بنایا ہے اس نظام کو MIRV (Multiple Independently Targetable Reentry Vehide) یعنی آزادانہ طور پر کئی مرتبہ اور کئی اہداف کو نشانہ بنانے والی گاڑی۔ یہ ایک بہت جدیدٹیکنالوجی مانی جاتی ہے جو امریکہ اور روس کے بعد پاکستان کو بھی حاصل ہوگئی ہے۔ ایسے میزائل بنانے کی ضرورت اسلئے پڑی کہ بھارت کی دھاک ختم ہو اور پاکستان کا دفاع مزید مضبوط ہو۔ اس تجربے سے پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان اسٹرٹیجک توازن بگڑ گیا تھا جس پر بہت سے امریکی اور پاکستانی تجزیہ نگاروں نے تشویش کا اظہار کیا تھا کہ اس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم توازن پیدا ہوگیا ہے اور بھارت اپنے دفاعی پروگرام کو جارحانہ، بے قابو اور خوفزدہ کرنے والا بنا رہا ہے، وہ دُنیا کا سب سے بڑا اسلحے کا خریدار بن گیا ہے اور بہت سا اسلحہ خود بھی بنا رہا ہے۔ اِن تجزیہ نگاروں میں مائیکل کریپن، سمیر لالوانی، ٹراویس وہیلر، زچیری کیک، ہانس ایم کریسٹسن، کرسٹوفر کلیری، ویپن نارانگ اور دیگر شامل تھے، کہ اگر پاکستان کے پہلے حملے کا خوف بھارت نے بے اثر کردیا ہے تو پاکستان کے پاس اپنے بچائو کیلئے کچھ نہیں بچے گا، اسطرح بھارت نے نہ صرف روایتی ہتھیاروں بلکہ ایٹمی ہتھیاروں کے معاملے اور اُسکو میزائل کے ذریعے داغنے میں بھی پاکستان پر برتری حاصل کرلی تھی اسلئے پاکستان کو ابابیل میزائل کا تجربہ کرنا پڑا۔ پاکستان کواپنے دفاع میں کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے، بھارت نے مئی 2016ء میں دوسرے ایٹمی حملے کی صلاحیت حاصل کرلی تھی، پاکستان کو اِس صلاحیت کی موجودگی کے اظہار میں 8 ماہ لگے جب 9جنوری 2017ء کو اس نے بابر 3 میزائل کو گہرے سمندر سے زمین پر ہدف پرمار نے کا کامیاب مظاہرہ کیا تھا۔ یاد رہے کہ بابر 3 کروز میزائل جسکی اڑان نیچی اور نظر نہ آنے والی ہے جو اپنے نشانے پر گرتا ہے، بھارت نے اگنی 4 اور اگنی 5 کے تجربات کرکے چین کو دھمکانے کی کوشش کی اور یہ کہا کہ اگنی 4 جوکہ 4500 کلومیٹر تک مار کرنے والا میزائل ہے وہ چین کے شمالی علاقوں کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اگنی 5 ساڑھے پانچ ہزار کلومیٹر تک نشانہ بنانے کا اہل ہے، جس پر چین نے دو اہم باتیں کیں کہ اگنی 5، آٹھ ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والا میزائل ہے جسکی زد میں یورپ بھی آجائیگا اور یہ کہ اگر سلامتی کونسل اور دُنیا نے اس پر توجہ نہیں دی تو وہ پاکستان کو ایسی ٹیکنالوجی دیدے گا۔ پاکستان کو اسکی اس لئے ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان کا کوئی دشمن اتنی دور نہیں رہتا، ہم صرف بھارت سے اپنا بچائو کرنا چاہتے ہیں اور اُسکے جارحانہ عزائم ناکام بناتے رہتے ہیں، جیسے اس نے 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کیا جس کی وہ آزادی کے وقت سے تیاری کررہا تھا تو پاکستان نے 1983ء میں یہ صلاحیت حاصل کرلی اور اسکا اظہار 28مئی 1998ء کو کردیا، پھر بھارت نے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن بنایا تو پاکستان کو محدود پیمانے کی تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیار اور کم فاصلے پرمار کرنے والے میزائل بنا کر اس کا ڈوکرائن فیل کرنا پڑا۔، جس پر کئی تجزیہ کاروں نے لکھا ہے کہ پاکستان کی معیشت پر پہلے اِس وجہ سے کافی بوجھ پڑا ہوا ہے اور اگر بھارت نے یہ سلسلہ جاری رکھا تو پاکستان کو اپنے دفاع کا مزید معاشی بوجھ اٹھانا پڑے گا، پاکستان اپنے دفاع کیلئے ہر وسیلہ اور ہر ذریعہ بروئے کا ر لانے کو تیار ہے، جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ ایٹم بم بنائیں گے چاہے انہیں گھاس ہی کیوں نہ کھانا پڑے۔حال ہی میں سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سیاست ہوتی رہے گی مگر پاکستان کی مسلح افواج کو دفاع کے حصول میں جو کام کرنا ہے وہ کرے گی، چنانچہ پاکستان نے دوسرے ایٹمی حملے کی بھی صلاحیت کروز میزائل کے ذریعے حاصل کرلی اور اب اس نے MIRV کے ذریعے بھارت کے دفاعی نظام کو تتربتر کردیا ہے، جسکا اعتراف خود بھارتی دفاعی تجزیہ نگاروں نے کیاہے۔جسکے بعد بھارت کے دفاعی ریسرچ پروگرام پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں، بھارت کے دفاعی تجزیہ کار بھرت کرناڈنے یہ مانا ہے کہ بھارت کو اپنے میزائل صحیح نشانے پر لگانے کیلئے 3 نہیں 15 تجربات کرنا ضروری ہیں، اسلئے وہ دیریاجلد ایک اور K-4 میزائل کا تجربہ کرنے والا ہے جبکہ روس کے تجزیہ نگاروں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کے میزائل ہدف کو صحیح نشانہ بناتے ہیں۔ جس سے پاکستان کی ٹیکنالوجی میں برتری ثابت ہوجاتی ہے۔ہمیں اِس صورتِ حال میں بھارت سے یہی کہنا ہوگا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور پاکستان نے امن قائم کرنے اور مذاکرات کی جو تجویز دی ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرے۔ عالمی طاقتوں کی کشمکش سے اپنے آپ کو دور رکھے تاکہ یہ خطہ جنگ کا ایندھن نہ بنے، بھارت کے وزیراعظم کو ہٹلر جیسی تکبر اور برتری کی سوچ کی بجائے تحمل، برداشت اور پڑوسیوں کے ساتھ مل کر رہنے پر غور کرنا چاہئے جو وقت کا تقاضا ہے اور جس پر خطے کے امن کا انحصار بھی ہے۔

.
تازہ ترین