• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں جس تیزی سے سماجی، اقتصادی، سائنسی اور سیاسی لحاظ سے تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں اس کی مثال اس سے پہلے کی انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ دنیا کی آبادی جو جنگِ عظیم دوم کے وقت تقریباً چار ارب کے قریب تھی بڑھ کر تقریباً دگنی ہو گئی ہے۔ گویا ابتدائے آفرینش سے لیکرجنگ عظیم دوم تک دنیا میں جتنے لوگ آباد تھے محض ستر سال کے قلیل عرصے میں اتنے مزید لوگ اس دنیا کے باسی بن چکے ہیں۔ دنیا کے نقشے پر کئی نئے ملک نمودار ہوئے ہیں۔ سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی اور انسانوں کے رویّوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔ خصوصاً ذرائع ابلاغ میں حیرت انگیز ایجادات نے صدیوں کے زمینی اور فکری فاصلوں کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ آج ہم دنیا کے ہر گوشے میں رہنے والے انسانوں سے اسی طرح آسان رابطے میں ہیں جیسے کبھی صرف اپنے قریبی ہمسائیوں کے ساتھ ہوتے تھے۔
اسی لئے آج کی دنیا کو گلوبل ویلج سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ جہاں رہنے والے سب لوگ ایک دوسرے کو نہ صرف جانتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے مسائل سے بھی آگاہ ہیں۔ صحت، تعلیم اور دیگر علوم میں سائنسی ترقی نے نہ صرف انسانی عمر، معیار ِ زندگی اور سیاسی بیانئے میں حد درجہ مثبت تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں بلکہ فکر ی لحاظ سے بھی انسان کو ایک دوسرے سے اتنا قریب کردیا ہے جس کا پہلے زمانے میں کوئی تصّور ہی نہیں تھا۔ آج اگر دنیا کے کسی حصّے میں کوئی مثبت یا منفی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اس کا واضح اثر دوسرے حِصّوں میں بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ اور لوگ اپنے مذہبی، علاقائی اور قومی تضادات کے باوجود اسے اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے اس میں شریک ہوتے ہیں۔ اسکی حالیہ مثال امریکی صدارتی انتخابات کے دوران مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم اور بعد میں صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد دیکھنے میں آئی ہے۔ جب دنیا کے سات سو کے قریب شہروں میں ٹرمپ کے خلاف عوامی احتجاج ہوا۔ جس میں مذہبی، قومی اور نسلی انتہا پسندی کے خلاف دنیا کے ہر مذہب، قوم اور نسل سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کی سابق وزیرِ خارجہ میڈلین البرائٹ نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں کے ردعمل میں کہا ہے کہ اگر مسلمانوں کی رجسٹریشن کا قانون پاس کیا گیا تو وہ خود کو مسلمان کہلوانا پسند کریں گی یہ انسانی تہذیب کی اعلیٰ ترین روایت ہے کہ کوئی غیر مذہب والی شخصیت مذہبی امتیاز کے خلاف مظلوم طبقے کے ساتھ اپنی یک جہتی کا اظہار کر رہی ہے۔ ان سب مثبت اور خوش آئند تبدیلیوں کے باوجود دنیا کے ایک بڑے حصّے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مذہبی، قومی اور نسلی انتہا پسندی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے دنیا کے جن علاقوں میں یہ منفی رجحانات جنم لے رہے ہیں اُن میں اکثریت مسلم ممالک کی ہے۔ جو بدترین مذہبی، گروہی اور نسلی تضادات کا شکار ہو رہے ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، سوڈان اور ان جیسے کئی مسلم ممالک سالوں سے خانہ جنگی اور قتل و غارت گری کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ممالک عالمی طاقتوں کے غاصبانہ تسلّط کی وجہ سے احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ لیکن معاشی غلبے کی یہ جنگ کسی مخصوص مذہب، نسل یا خطے کے خلاف نہیں بلکہ اس میں ہر مذہب ملک اور قوم کے افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنے قدرتی وسائل اور علاقائی محّلِ وقوع کی وجہ سے مسلم ممالک زیادہ اس کا شکار بن رہے ہیں لیکن تاریخ ِ عالم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ’’غلبے‘‘ کی یہ جنگ اپنے ہی مذہب، خطّے اور یہاں تک کہ ایک خاندان کے اندر بھی ایک دوسرے کے خلاف جاری رہتی ہے۔ جنگ عظیم اوّل اور دوم میں متحارب طاقتوں میں اکثریت عیسائی مذہب کو ماننے والوں کی تھی۔ اسی طرح مسلمانوں، ہندوئوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے درمیان اندرونی جنگ یا خانہ جنگی کی مثالوں سے بھی تاریخ بھری پڑی ہے۔ لہٰذا ہمارے ہاں جو یہ تصّور پایا جاتا ہے کہ تمام غیر مسلم دنیا مسلمانوں کے خلاف ہے،کلی طور پردرست نہیں۔ اور یہ بھی ایک ایسے وقت میں جب دنیا ایک عالمی گائوں (Global Village)میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو دوسروں کے خلاف نفرت اور انتہا پسندی کے جذبات کو فروغ دیتی ہے۔
نفرت کے یہ جذبات غیر مسلم مذہبی عناصر میں بھی نفرت اور انتہا پسندی کے جذبات پیدا کر رہے ہیں۔ جن کو صدیوں پہلے مہذب دنیا نے رد کر دیا تھا اور وہ اپنے فرسودہ خیالات کے ساتھ خاموش ہو گئے تھے یا زیرِ زمین چلے گئے تھے۔ ہمارا اصل مسئلہ دوسری طاقتوں کے ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کا نہیں بلکہ ہمارے ذہنی اور فکری لحاظ سے نا قابلِ تبدیل ہونے کا ہے۔ کیونکہ اپنی محرومیوں کاا زالہ انتقام اور نفرت سے نہیں بہتر منصوبہ بندی سے کیا جا سکتا ہے اور اس میں بنیادی کردار علم و تحقیق اور سائنس سے روگردانی کا ہے۔ جس کے بغیر انسان فکری اور اخلاقی لحاظ سے ترقی نہیں کر سکتا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سائنسی علوم اور ایجادات میں مسلمانوں کا حصّہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ موجدین میں نہیں صرف صارفین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں زیادہ ممالک میں جمہوریت کی بجائے آمریت کا راج ہے جو عالمی سطح کے لیڈر پیدا کرنے کی بجائے مقامی سطح کے وہ روبوٹ پیدا کررہی ہے جو دوسروں کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور مسلمانوں میں اتحاد کی بجائے نفاق پیدا کر تے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے کئی مسلم ممالک اپنے قدرتی وسائل کی وجہ سے امیر تو ہیں لیکن ’’ترقی یافتہ‘‘ نہیں۔ کیونکہ امارت اور ترقی یافتہ ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔امارت صرف میں جیب بھرتی ہے جبکہ ترقی یافتہ ہونے کے لئے دماغ اور سوچ کی تبدیلی ایک لازمی جزو ہے۔ لہٰذا آج اکیسویں صدی میں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے فکر و نظر میں تبدیلیاں پیدا کریں۔ خود کو دنیا سے الگ تھلگ رکھنے کی بجائے عالمی برادری کا حصّہ بننے کی کوششیں کریں۔ کیونکہ فطرت کے قوانین کسی قوم کے لئے علیحدہ علیحدہ وضع نہیں کئے گئے۔

.
تازہ ترین