• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خوبصورت چہرے اور کمزور مالک کی قیمتی زمین کو سنبھال کے رکھنا ہوتا ہے کہ اس پر ہر ایرے غیرے کی نظر اٹھتی ہے اور کوئی بو الہوس جھپٹ بھی لیتا ہے، اسلام آباد یونیورسٹی کی اس قیمتی زمین کی بھی کیا قسمت ہے۔ 1996ء میں راقم جب سینیٹ کا ممبر بنا تو اس نے یہ چھ سو ایکڑ بھیڑیوں کے منہ سے چھینے تھے، جسے آج گدھ نوچ اور آوارہ کتے بھنبھوڑ رہے ہیں۔ ہوا یہ کہ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم تھیں، غالباً امین فہیم ان کی کابینہ میں ہائوسنگ کے وزیر تھے، تب وزیراعظم نے یونیورسٹی کو چھ سو ایکڑ سے دستبرداری کیلئے کہا، وہ یہاں پر ممبران پارلیمنٹ کو رہائشی پلاٹ دینا چاہتی تھیں، حکومت اور اپوزیشن ایسے کاموں میں کبھی اختلاف نہیں کرتے، عمران خان کی تحریک انصاف نئی نئی وجو دمیں آئی تھی اور ان کے ساتھ سرحد (خیبر پختونخوا)کے دورے پر جانا ہوا، واپسی پر ٹیکسلا میں جلسہ عام تھا، اس جلسے میں ان چھ سو ایکڑ پر تقریر کرتے ہوئے کہا ’’پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع ہو کر کامیابی سے مکمل ہونے تک چھ ارب روپے خرچ ہوئے، ان چھ ارب کی لاگت نے پاکستان کو ہمیشہ کیلئے دشمنوں کے مقابلے میں محفوظ بنا دیا، وزیراعظم بے نظیر بھٹو ممبران پارلیمنٹ کو خوش کرنے کیلئے یونیورسٹی کی زمین ہتھیا کر سستے داموں ممبران کو الاٹ کریں گی، اس کے نتیجے میں ممبران کو ٹھیک چھ ارب کا فائدہ پہنچے گا، ممبران کو یہ چھ ارب کے فوائد کس کھاتے میں بانٹے جا رہے ہیں۔‘‘ خوش قسمتی سے ان دنوں اپنی ’’نیوز ویلیو،، عروج پر تھی، چنانچہ اخبارات نے نمایاں خبریں چھاپیں اور اسلام آباد کی فضا اس کے خلاف بنتی چلی گئی۔ اگلے دن مصطفیٰ جتوئی صاحب کے گھر میں رات کے کھانے میں نوابزادہ نصر اللہ خان، مولانا فضل الرحمٰن، غلام مصطفیٰ کھر سمیت بہت سے سیاستدان مدعو تھے، نوبزادہ صاحب نے راقم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’چوہدری صاحب! پہلی دفعہ ہم نے بھی سوچا اسلام آباد میں ایک ’’کٹیا‘‘ بنائیں گے، آپ نے اس کو بھی بننے نہیں دیا۔
پچھلے ہفتے ایک ہی دن دو خبریں ٹیلی وژن کے نیوز بلیٹن میں نمودار ہوئیں لیکن ایک دو بلیٹن کے بعد پھر ان کا تذکرہ سننے میں نہیں آیا اور قومی اخبارات نے تو ان خبروں کو سنگل کالم ایک سطر کی اہمیت بھی نہیں دی، حالانکہ یہ دونوں خبریں ’’ٹاک شو‘‘ کیلئے جاندار موضوع ہو سکتی تھیں، یہ خبریں ہماری حکومتوں کی کارکردگی، ترجیحات اور عوام کی نظر میں ان کی ساکھ کا بہترین نمونہ ہیں، پہلی خبر کراچی سے تھی جہاں فوج کے سپہ سالار قمر جاوید باجوہ ایک روزہ دورے پر تشریف لائے تھے، کراچی کے تاجروں، صنعتکاروں کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی جس میں صوبائی حکومت کے خلاف شکایات کا ’’پنڈورا‘‘ کھول دیا اور فوج کے سربراہ سے درخواست کی گئی کہ کراچی کے امن کو واپس لانے اور برقرار رکھنے میں فوج اپنا کردار ادا کرتی رہے اور رینجرز کو کسی صورت کراچی سے نہ ہٹایا جائے۔ خیال رہے کہ ان دنوں رینجرز کے اختیارات کی مدت ختم ہو چکی تھی، بہت دنوں کے لیت و لعل کے بعد عین اسی دن صوبائی حکومت نے اختیارات میں تین ماہ کی توسیع منظور کی تھی۔ صوبائی حکومت کو اس چیز کا پور اعلم ہے کہ وہ رینجرز کی مدد کے بغیر ایک دن بھی صوبے میں امن قائم نہیں رکھ سکتی۔ نہ ہی حکومت کا اختیار (رٹ) باقی رہتا ہے، اس کے باوجود رینجرز کے اختیار کو ہر تین ماہ کے بعد اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل کیلئے لیور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری خبر مرکزی دارالحکومت اسلام آباد کے بارے میں تھی، جہاں اسلام آباد یونیورسٹی کی انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار سے ملاقات کر کے یونیورسٹی کی 600 (چھ سو ) ایکڑ زمین کو ناجائز قابضین سے واگزار کرانے کی درخواست کی، یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ قبضہ مافیا نے آہستہ آہستہ یونیورسٹی کی 1700ایکڑ زمین سے چھ سو ایکڑ پر قبضہ کر لیا ہے اور قابضین کو بعض بااثر افراد اور طاقتور سیاستدانوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ چنانچہ چیف جسٹس نے اس مسئلے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا۔ ان دو مختصر خبروں کے اندر غور و فکر بلکہ حیرت کا جہاں آباد ہے کہ کس طرح پاکستان کے سیاسی اور انتظامی ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کی وجہ سے عوام میں اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ اب لوگ اپنی ذاتی حفاظت اور حقوق کے تحفظ کیلئے متعلقہ اداروں سے رجوع کرنے کی بجائے، فوج کی طرف دیکھتے ہیں یا سپریم کورٹ جانے پر مجبور ہیں، کیا یہ دو آئینی ادارے پوری ریاست کے سارے اداروں کی ناکردہ کاری بلکہ مجرمانہ غفلت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا سکتے ہیں؟ اگر چیف جسٹس یا فوج کے سربراہ، ان درخواستوں کے جواب میں کہہ دیتے کہ حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہے اور اپنے بوجھ ہمارے گلے ڈالتی ہے (جو کہ امر واقع ہے) تو پارلیمنٹ کے ایوانوں، کابینہ کے بالاخانوں میں طوفان اٹھ گیا ہوتا اور میڈیا کے سارے ’’بھونپو‘‘ پانامہ کا ہنگامہ بھول کر اس بیان کو لے اڑتے اور وہ دھول اڑتی کہ بس ’’اللہ دے اور بندہ لے‘‘۔ انہوں نے یہ بات کہی نہیں مگر سوچی تو ہوگی۔
ان خبروں کے اندر غور و فکر بلکہ عبرت اور حیرت کا ایک جہاں آباد ہے، وہ ناقدین جو دن رات راگ الاپتے ہیں کہ عدلیہ حد سے بڑھ رہی ہے یا فوج اپنے اختیارات بڑھاتی جا رہی ہے، وہ یہ بھی فرمائیں کہ ’’کیا یہ اختیار ہتھیانے کا مسئلہ ہے یا ذمہ داریوں سے فرار کا؟‘‘ حکمرانوں کیلئے جہاں ذاتی مفادات کیلئے اختیار کا استعمال ہو تو وہ کافی ہوشیار اور مستعد ہیں لیکن جب دقت طلب ذمہ داریوں سے واسطہ پڑے تو ناجائز اولاد کی طرح کچرے کے ڈھیر پر، پھر اسے کتے نوچ کھائیں یا کوئی مہربان ایدھی اپنا لے۔ فوج کو خارجہ وزارت اور اس کے اختیار پر بطور خاص مطعون کیا جاتا ہے، حالانکہ ہماری وزارت خارجہ اندھے اور لنگڑے کی کہانی ہے، گائوں میں آگ لگ گئی تو گائوں کے سارے باسی جان بچا کر بھاگ نکلے لیکن ایک لنگڑا اور اندھا اپنی معذوری کے باعث آگ کے شعلوں میں پھنس گئے، تب لنگڑے نے اندھے کو آواز دی کہ آئو مجھے کندھے پر بٹھا کر لے چلو، میں تمہیں راستہ بتائوں گا، اس طرح دونوں کی جان بچ گئی، وہ خوش قسمت تھے کہ ایک ہی گلی میں ہمسایہ تھے جو بچ نکلے، ہماری وزارت خارجہ کے اندھے، لنگڑے الگ الگ محلوں کے باسی ہیں، فوری ضرورت کے وقت ایک دوسرے کو مل ہی نہیں سکتے، اگر خوش قسمتی سے سامنا ہو جائے تو آپس کی نفرت کا یہ عالم ہے کہ کوئی دوسرے کو کندھے پہ اٹھانے اور رہنمائی کیلئے تیار نہیں ہوگا۔ اختیارات اور ذمہ داریاں پوری ہونے کیلئے طویل انتظار نہیں کرتے، باپ بوڑھا ہو، بیمار پڑ جائے، معذور ہو یا غیرذمہ دار تو پھر گھر کی خواتین بروئے کار آتی ہیں یا بچے اپنے ننھے ہاتھوں خاندان کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اہل خانہ کو بھوک سے مرنے نہیں دیتے، مگر ہمارے دو ریاستی ادارے ابھی گبرو جوان ہیں، حکومت کے ادارے دستکش ہوتے جائیں گے تو انہیں انکروچمنٹ کی ضرورت نہیں، دست برداری(سرنڈر) ان کی ذمہ داریوں کو بڑھائے گی تو اختیارات خود ساتھ چلے آئیں گے۔
گزشتہ روز سعودی عرب سے خبر آئی کہ اسکول کی پچاس بچیوں کو ایک پاکستانی ڈرائیور بس پر لے جا رہا تھا کہ چلتی بس میں نیند سے مغلوب ہو کر اس کی آنکھ لگ گئی، ایک جواں ہمت بچی نے آگے بڑھ کے بس کا اسٹیرنگ سنبھالا اور بس کو حادثے سے بچا لے گئی۔ اس خبر میں ان ممالک کیلئے سبق ہے، جنہوں نے اپنی خواتین پر ڈرائیونگ کی پابندی لگا رکھی ہے، عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت دیں تاکہ کم از کم حادثاتی لمحوں میں وہ بروئے کار آ سکیں۔ اس میں پاکستانیوں کیلئے بھی بڑے سبق ہیں کہ وہ اپنے جلد سو جانے اور سوتے ہی رہنے والے ڈرائیوروں سے خود بھی بچیں اور انہیں ایکسپورٹ کرنے سے بھی اجتناب کریں۔

.
تازہ ترین