پچھلے چند روز سے پورے ملک میں اسٹنٹ کے حوالے سے میڈیا میں گرما گرم خبریں چل رہی ہیں اور بعض الیکٹرانک میڈیا پر وہ اینکر پرسن جنہوں نے ہمیشہ سیاسی پروگرام کئے وہ بھی ایک انتہائی ٹیکنیکل موضوع پر اس طرح اظہار خیال کرتے نظر آتے ہیں جیسے وہ ڈاکٹر ہوں یا پھراسٹنٹ بنانے والے انجینئرز،الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں بار بار جعلی اسٹنٹ کا ذکر کیا گیا بلکہ بعض اخبارات نے تو اس پر اداریئے بھی لکھ ڈالے اور لفظ جعلی اسٹنٹ اور دو نمبرا سٹنٹ لکھا۔
پاکستان میں اسٹنٹ بنانے کی ٹیکنالوجی ہےہی نہیں، پورے ملک میں سرکاری سیکٹر یا پرائیویٹ سیکٹر میں کسی جگہ بھی اور کسی کے پاس اسٹنٹ بنانے کی مشینری/کارخانہ / فیکٹری نہیں اور جب اسٹنٹ بنانے کی ٹیکنالوجی نہیں تو پھر جعلی اسٹنٹ بنانے کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ لگتا ہے خوابوں کی دنیا میں رہنے والے بعض تجزیہ نگاروں نے باغبانپورہ لاہور یا پھر لالو کھیت یا پھر باڑہ میں خود کوئی جعلی اسٹنٹ بنانے کی فیکٹری دیکھ رکھی ہے۔ کسی زمانے میں ایک نیم سرکاری ادارے میں اسٹنٹ بنانے کی کوشش کی گئی تھی مگر وہ پروجیکٹ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ ایک بات تو عزیز قارئین ذہن میں رکھنی چاہئے ہمیں غیر رجسٹرڈ اسٹنٹ لگانے کا لفظ استعمال کرنا چاہئے اور پاکستان میں میڈیکل کے شعبے میں ہزاروں آئٹم غیر رجسٹرڈ ہوتے ہیں اور استعمال کئے جاتے ہیں۔ جس ملک میں 2010تک کوئی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی یا ادارہ نہ بنا ہو بلکہ ڈرگز لائسنسنگ کا ادارہ وہ بھی بغیر جدید لیبارٹری اور صرف ایک دو ڈاکٹروں کی مدد سے چل رہا ہو، وہاں پر آج ایک دم یہ شور مچایا جائے کہ اسٹنٹ غیر رجسٹرڈ ڈالے جا رہے ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے پاکستان میں ادارے پہلے بن جاتے ہیں اصول، قواعد و ضوابط اور ان کے لئے دیگر لوازمات بعد میں آتے ہیں مثلاً پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی ایک وزیر کو نوازنے کے لئے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کر دی۔ارے بابا آپ نے ڈیپ تو بنا لیا، تو پہلے اس کے لئے کوئی جدید لیبارٹری تو بناتے۔ اور وہاں پر وہ ماہرین اور ڈاکٹرز لگاتے جو ادویات اور میڈیکل کے حوالے سے دیگر تمام ساز و سامان کے بارے میں مکمل معلومات تو رکھتے۔ ہمارے ہاں محکمے بنانا اور اس کے لئے قیمتی گاڑیاں، مہنگی عمارات خریدنا اور غیر ملکی دورے کرنا صرف ترجیحات میں شامل ہے، خوف خدا اور قبر کا ڈر صرف ہم اپنی تقاریر کو موثر بنانے اور لوگوں کومتاثر کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اگر خوف خدا ہو تا تو آج اس ملک کے حالات ہر شعبے میں بہترہوتے۔
پنجاب کے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق بھی میڈیا کو بتا چکے ہیں کہ ’’دل کے مریضوں کو ڈالے جانے والا اسٹنٹ کبھی بھی جعلی نہیں ہوتا اور نہ ملک میں بنتا ہے۔‘‘ دوسری جانب اس حوالے سے پی آئی سی کے سربراہ ڈاکٹر ندیم حیات ملک کی بھی جس طرح کردار کشی کی گئی ہے اس پر بھی میڈیکل حلقوں خصوصاً ٹیچنگ اسپتالوں کے اساتذہ نے سخت ناگواری کا اظہار کیا ہے اور وزیر صحت نے بھی اس پر کہا کہ ڈاکٹروں کی کردار کشی کی سخت مذمت کرتے ہیں۔‘‘ اس ملک میں پہلے ہی کتنے قابل ڈاکٹرز اور فارن کوالیفائیڈ ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انٹرونیشنل کارڈیولوجسٹ پورے ملک میں صرف 70ہیں۔ انٹرونیشنل کارڈیالوجی انتہائی پیچیدہ اور بڑی خصوصی مہارت والا کام ہے اگر ایک سینٹی میٹر بھی دوران انجیوپلاسٹی کرتے ہوئے ماہر امراض دل کا ہاتھ ادھر ادھر ہو جائے تو انسان موت کے منہ میں جا سکتا ہے اس سارے شور شرابے کے پیچھے بھی کچھ خفیہ ہاتھ ہیں جو جلد بے نقاب ہو جائیں گے اور ان کے مفادات بھی سامنے آ جائیں گے۔
ہمارے ملک میں اس وقت کوئی ایسی ادویات چیک کرنے والی لیبارٹری نہیں جو ادویات کے علاوہ دیگر میڈیکل میں استعمال ہونے والی چیزوں کو چیک کرسکے۔ امریکہ میں ایف ڈی اے ادویات سے لے کر کاسمیٹکس تک کی کوالٹی چیک کرتا ہے اگر آپ ایف ڈی اے کے پروٹوکول پڑھیں اور فوڈ آئٹم، ادویات اور دیگر میڈیکل سے متعلق چیزوں کی فہرست دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ ہمارے ملک میں حکومت الگ الگ ادارے بنانے کی بجائے ایک ہی ادارہ ایف ڈی اے کی طرز پر بنائے اور اس میں انتہائی ذہین اور قابل افراد کو بھرتی کرے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ اسٹنٹ کے مسئلے کو اتنا زیادہ اچھالا گیا کہ بہت سارے اسپتالوں میں اب انجیوگرافی/پلاسٹی وغیرہ نہیں ہو رہی، جس وقت ایک مریض کی انجیو گرافی ہو رہی ہوتی ہے تو اس وقت بے شمار چیزیں درکار ہوتی ہیں اور ضروری نہیں اس وقت تمام چیزیں رجسٹرڈ ہوں اور مریض کے لواحقین کے پاس موجود ہوں چنانچہ اس وقت یہ نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر آپریشن تھیٹر/ انجیو گرافی کے کمرے سے باہرآئے اور مریض کے لواحقین کو کہے کہ فلاں چیز لے کر آئو اور وہ بازار جائے اور تلاش کرے اور اس دوران مریض کی جان چلی جائے۔ ہمارے ملک میں ماضی میں حکومتوں نے کبھی بھی اتنی باریکی سے صحت کے مسائل، سرجری کے معاملات، علاج میں آنے والی مشکلات کا جائزہ نہیں لیا۔ اگر حکومت ایک طرف صحت کے مسائل حل کررہی ہے تو دوسری طرف حکومتی ارباب کا فرض ہے کہ وہ ڈاکٹروں کی کردار کشی کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کریں، کسی کے نجی معاملات میں جانا اور ان کو نمایاں کرنا یہ مناسب نہیں۔ ہمارے سسٹم کو درست کرنے کی بجائے انتہائی سینئر پروفیسروں کو جس طرح معطل کیا جارہا ہے ان کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے وہ بالکل مناسب نہیں۔ دو تین برس قبل بھی ایک سینئر پروفیسر کو سانپ کاٹے کے معاملے میں بڑی دیر تک معطل کئے رکھاحالانکہ ان کا براہ راست اس کیس سے تعلق نہیں تھا۔ آج تک کبھی اس پر کام نہیں ہوا کہ کون سی کمپنیاں اسٹنٹ کا کاروبار کر رہی ہیں ان کی صحیح تعداد کیا ہے؟ باہر سے منگوائے جانے والے اسٹنٹ کا معیار کیا ہے؟ اور ان کی قیمت کیا ہے؟ یہ کہنا کہ پانچ چھ ہزار روپے کا اسٹنٹ ڈیڑھ لاکھ روپے میں فروخت ہو رہا ہے مناسب نہیں۔اب تو نیٹ پرا سٹنٹس کی قیمتیں تک ہیں، ہر ملک کے بارے میں آپ جان سکتے ہیں کہ وہاں پر اسٹنٹس کی قیمت کیا ہے؟وزیر اعلیٰ نے پروفیسر ندیم حیات کو اسٹنٹ کی شکایات پر انکوائری کمیٹی کا ممبر بنایا مگر کمپنیوں کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے ان پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے۔
اس وقت مریضوں میں جو بے چینی پائی جا رہی ہے اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور حکومت کو چاہئے کہ وہ ڈاکٹروں کی حوصلہ شکنی نہ کرے۔ اس طرح اس ملک سے تمام قابل اور لائق ڈاکٹرز چلے جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ کی اسٹنٹ کے مسئلے پر برہمی بالکل سر آنکھوں پر، لیکن جناب والا آپ کو ان تمام واقعات کی تہہ تک جانا چاہئے آخر کس کمپنی کی دلچسپی کن معاملات میں ہے۔ جو باتیں گردش کر رہی ہیں ان کے بارے میں اپنے ذرائع سے ضرور تحقیق کرائیں۔
اس سارے مسئلے میں ڈیپ کا کردار کوئی قابل تعریف نہیں اگر ڈیپ کے پورے سسٹم کو دیکھیں تو وہاں پر جس طرح رشوت کابازار گرم ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ادویات کے معیار کو چیک کرنا، ان کو کس ملک سے منگوانا ہے؟ اور کیا طریقہ کار ہے؟ یہ سب ڈیپ کا کام تھا۔ جس ادارے کے پاس اپنی جدید لیبارٹری نہیں وہ بھلا کیا چیک کیا کرے گا۔
.