جنگ اور جیو نیوز کے کارکنوں نے ملتان میں’’پاک فوج زندہ باد‘‘ ریلی نکال کر یہ پیغام دیا ہے کہ ان دونوں اداروں میں کام کرنے والے لوگ محب وطن ہیں۔ جنگ ،جیو کو ایسی ریلیوں کا اہتمام لاہور، کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد، راولپنڈی میں بھی کرنا چاہئے۔ پاک فوج نے اس ملک کی خاطر بہت قربانیاں دی ہیں جب بھی ملک پر کوئی آفت آتی ہے یا زلزلہ آتا ہے تو پاک فوج متحرک ہوجاتی ہے۔ ایسے عمدہ کردار کو سلام۔ اب ساتھ ہی تذکرہ جنرل راحیل شریف کا ہوجائے، آپ کو یاد ہوگا کہ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے اس ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ انہوں نے ہی دہشت گردی اور دولت کے کھیل کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔ آپ کو بھی یاد ہوگا کہ انہوں نے اپنے مہنگے اور قیمتی پلاٹ کو فروخت کرکے سا ری رقم شہداء فنڈ میں جمع کروادی تھی۔ انہیں قانون کے مطابق کچھ زرعی زمین بھی ملی تھی انہوں نے وہ زرعی زمین خود رکھی مگر اپنی مہنگی زمین شہداء کے نام کردی حالانکہ انہیں ایسا کرنے کے لئے کسی نے مجبور نہیں کیا تھا جو لوگ جنرل راحیل شریف کے خلاف باتیں کررہے ہیں انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ انہوں نے کبھی اس ملک یا اس ملک کے لئے شہید ہونے والوں کے لئے کچھ دیا ہے، بدقسمتی سے تنقید کرنے والوں کے حصے میں’’ناں‘‘ آئے گی۔ یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ1965میں میجر عزیز بھٹی اور پاک فوج کے دیگر لڑنے والوں نے بھارتی فوج کو بی آر بی نہر کراس نہیں کرنے دی تھی بلکہ بھارتی فوج اپنے ٹینک اور اسلحہ چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔ یہ کہنا صاف جھوٹ ہے کہ بھارتی فوج جم خانہ کلب لاہور میں داخل ہوئی تھی جو لوگوں نے حالیہ دنوں میں بھارتی فوجیوں کے ویڈیو کلپس دیکھے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بھارتی فوج کے حالات کیا ہیں؟ میں یہاں برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ بھارتی فوج کے اندر افسران کی ہزاروں اسامیاں خالی ہیں کیونکہ ہندوستانی نوجوان فوج کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اسی طرح ہزاروں جوانوں کی اسامیاں بھی خالی ہیں کیونکہ بھارت کے غریب نوجوان ا پنی فوج کے جوان نہیں بننا چاہتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ فوج میں شامل ہو کر انہیں ڈھنگ کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔
دو روز پہلے سری لنکا سے واپس آیا ہوں مگر یہاں ایسا ہنگامہ برپا ہے کہ سری لنکا پر لکھنا ملتوی کررہا ہوں۔ اتوار کے روز گجرات اور گوجرانوالہ میں پھرتا رہا، سارا دن میل ملاقاتوں اور شادی کی تقریبات میں مصروف رہا۔ رات کو گوجرانوالہ سے قومی اسمبلی کی رکن شازیہ سہیل میر نے عشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا، انہوں نے گوجرانوالہ کے چنیدہ صحافیوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ میں حقیقی سیاسی کارکنوں کی بہت عزت کرتا ہوں ، خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، مجھے فصلی بٹیرے کبھی بھی اچھے نہیں لگے۔ میرے لئے منور انجم اور غلام عباس اس لئے قابل احترام ہیں کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کو کبھی نہیں چھوڑا۔ جہانگیر بدر بھی اسی لئے نمایاں رہا کہ وہ نظریاتی آدمی تھا، نوید چوہدری سے دوستی ہے مگر نوید چودھری نے بھی کبھی پیپلز پارٹی سے تعلق نہیں توڑا۔ مجھے پی ٹی آئی کے فیصل جاوید خان اور سلونی بخاری اس لئے اچھے لگتے ہیں کہ دونوں نظریاتی ہیں۔ مجھے تنزیلہ عمران، سعدیہ سہیل، فاطمہ چدھڑ اور شہزادی اورنگزیب کا جذبہ اسلئے پسند ہے کہ یہ سب نظریاتی کارکن ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ن میں نجمہ حمید، عشرت اشرف سمیت شکیل اعوان اور انجم عقیل اس لئے پیارے لگتے ہیں کہ ان کی پارٹی سے وابستگی حالات سے بالاتر ہے۔ قومی اسمبلی میں تہمینہ دولتانہ، عارفہ خالد اور شازیہ سہیل میر ایسی خواتین ہیں جو دل سے مسلم لیگی ہیں انہیں حالات یا عہدے نہیں بدل سکے۔
اپنے اپنے سیاسی نظریات پر عمل پیرا رہنا اور دل سے کام کرنا نہایت ہی عمدہ فعل ہے۔ گوجرانوالہ میں کوئی ایسا دفتر نہیں تھا جہاں لوگوں کی بات سنی جاتی، جہاں مسلم لیگی کارکن اپنی بات کرسکتے، گوجرانوالہ کے لوگوں اور مسلم لیگی کارکنوں کے لئے یہ کام شازیہ سہیل میر نے کردیا ہے۔ یہ خاتون کام کی دھنی ہے، صبح سویرے سے رات تک اس کے سر پر مسلم لیگ سوار رہتی ہے، اسے مسلم لیگ سے جنون کی حد تک عشق ہے۔ میں اس عشق کے لئے دعا ہی کرسکتا ہوں۔اتوار کو عمران خان نے ساہیوال میں بڑا جلسہ کیا جسے مائزہ حمید جلسی قرار دے رہی ہیں، لگتا ہے پرویز رشید کے بعد کرسیاں گننے کی ڈیوٹی مائزہ حمید کے پاس ہے، انہیں اپنے جلسوں کی ’’خالی کرسیاں‘‘ بھی گن لینے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے ساہیوال میں امریکیوں سے کہہ دیا کہ ہم بھی امریکیوں کے ویزے بند کردیں گے۔ عمران خان کے اندر بھی مائوزے تنگ کی طرح بہت بڑا نیشنلسٹ ہے، پکا پاکستانی ہے، اسی لئے تو کہہ رہا ہے کہ جب پاکستان میں پاکستان کیلئے جینے مرنے والی حکومت آگئی تو ہمیں کسی کی ضرورت نہیں رہے گی۔
ایک طرف حکومت پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس بڑھانے کی تجویز پر غور کررہی ہے یعنی مہنگائی کا بم گرانے کی تیاری ہورہی ہے تو دوسری طرف پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال ارشاد فرما رہے ہیں کہ ’’.... 2018ء کا انتظار نہیں کرسکتے، حکومت 30دن کے اندر مسائل حل کرے .... ‘‘۔ مصطفیٰ کمال کیسی بات کیسے ماحول میں کررہے ہیں یہاں تو 30 دن میں کسی کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا، مسائل کیسے حل ہوں گے۔
پاناما، ہنگامہ پر شور برپا ہے، اسحاق ڈار کے اعترافی بیان پر بیان بازیاں ہورہی ہیں، ڈار صاحب کی ترجمانی کے لئے انوشہ رحمٰن میدان میں آئی ہیں۔ چودھری اعتزاز احسن نے لاہور میں بڑی شاندار باتیں کی ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ ’’..... قطری خط اوپن منی لانڈرنگ کا اعتراف ہے.....‘‘ میں سپریم کورٹ میں جاری مقدمے کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا ،البتہ اتنا ضرور ہے کہ کچھ لوگ پھنستے جارہے ہیں ، سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ضرور ہوگا۔ ایسے ہی ہنگامہ برپا نہیں ہے۔ ایسے ماحول میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بالکل درست کہا ہے کہ ’’.....کرپشن اور ظلم کے خاتمے کیلئے، پانچ چھ ہزار لوگوں کی قربانی دینا پڑے تو سودا مہنگا نہیں، میرا ایک ہی مطالبہ ہے کہ چور اور لٹیرا چاہے اپوزیشن میں ہو یا حکومت میں، اس کا احتساب ہو، اسی لئے میرے خلاف چوروں کا محاذ کھڑا ہوگیا ہے....‘‘۔
آپ کو مبار ک ہو بلکہ لطیف کھوسہ سمیت کچھ اور لوگوں کو زیادہ مبارک ہو کہ ایان علی کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کا حکم سامنے آگیا ہے۔ سارے کھیل میں مجھے تو سرور ارمان کا شعر رہ رہ کر یاد آتا ہے کہ؎
بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن
تب ہمارے نام یہ جاگیر کردی جائے گی
.