• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے ای میل آئی ’’کیا آپ اس وقت ای میل پر ہیں؟‘‘ نام گوپی چند نارنگ لکھا تھا۔ یہ دیکھ کر میں خوش بھی ہوا اور پریشان بھی۔ خوش اس لئے ہوا کہ کافی عرصے بعد نارنگ صاحب نے یاد کیا تھا۔ اور پریشان یوں ہوا کہ آخر انہیں مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے؟ فوراً جواب لکھا ’’آپ کے لئے ہر وقت حاضر ہوں‘‘۔ اب جو جواب آیا وہ یہ تھا۔ ’’میں کچھ دن کے لئے یوکرین آیا ہوا ہوں۔ نیٹ ورک کی خرابی کی وجہ سے میرا اے ٹی ایم کارڈ کام نہیں کر رہا ہے۔ اس لئے میں رقم ٹرانسفر نہیں کرا سکتا۔ میں نے بینک سے رابطہ کیا ہے مگر میرے اکائونٹ میں رقم آنے میں پانچ سے سات دن لگ سکتے ہیں۔ مجھے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کی ضرورت ہے۔ لیکن فی الحال آپ جتنا بھی دے سکتے ہوں مجھے دے دیجئے۔ میں واپس آکر تین دن کے اندر یہ رقم آپ کو دے دوں گا۔ براہ کرم جتنی جلدی ہو سکے مجھے بتا دیجئے تاکہ میں آپ کو بتائوں کہ یہ رقم مجھ تک کیسے پہنچائی جا سکے گی۔ پلیز، یہ بھی بتا دیجئے کہ کیا میں آپ پر بھروسہ کر سکتا ہوں؟ میں آپ کا ای میل چیک کرتا رہوں گا۔ آپ سے رابطے کا یہی ایک وسیلہ ہے۔‘‘ اس ای میل کے آخر میں، دلی میں گوپی چند نارنگ صاحب کے گھر کا پتہ، ان کا ٹیلی فون نمبر اور ان کے سارے کوائف لکھے ہیں، کہ وہ ہندوستان کی ساہتیہ اکادمی کے سربراہ رہ چکے ہیں اور کن کن یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے ہیں۔ یہ تمام کوائف بالکل صحیح ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس بھی صحیح ہے۔ اسے کہتے ہیں کسی کا ای میل اکائونٹ ہیک کرنا اور اسے اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنا۔ ظاہر ہے یہ شرارت ہے۔ وہ صاحب خود بھی جانتے ہوں گے کہ کوئی بھی ان کی بات کا اعتبار نہیں کرے گا۔ بھلا نارنگ صاحب یوکرین کیوں جائیں گے، اور اس طرح پیسے کیوں مانگیں گے۔ لیکن ان صاحب نے میرے علاوہ کئی اور دوستوں کو بھی یہ لکھ دیا ہو گا۔ اور انہیں بھی پریشان کیا ہوگا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ یہ جو سوشل میڈیا ہے، جہاں اس کے فائدے ہیں وہاں نقصان بھی ہیں۔ وہ صاحب نارنگ صاحب کے ایڈریس سے غلط اور شرمناک باتیں بھی لکھ سکتے ہیں اور لڑائی بھی کرا سکتے ہیں۔اب یہ نارنگ صاحب جانیں کہ وہ اپنا ای میل ایڈریس تبدیل کرتے ہیں یا نہیں۔ بہرحال ان تک یہ بات پہنچا دی گئی ہے۔
ادھر ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر جو تماشا لگا ہوا ہے اس کی ایک مثال ان بلاگرز کی ہے جنہیں حال ہی میں غائب کر دیا گیا تھا اور جواب واپس آگئے ہیں۔ ان کے غائب ہو جانے کے بعد ان کے نام سے سوشل میڈیا پر جو کچھ لکھا گیا وہ انتہائی شرمناک ہے۔ ان کے نام سے مذہب اور چند اداروں کے بارے میں جو کچھ سوشل میڈیا پر نظر آیا یہ نوجوان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہوں گے۔ اب یہ تو سوشل میڈیا کا حال ہے۔ لیکن ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا کچھ حصہ بھی تو اینٹی سوشل بن گیا ہے۔ وہاں بھی تو ایسے لوگ بیٹھے ہیں جو ترقی پسند اور روشن خیال فکر کے دشمن ہیں۔ ان نوجوانوں کے غائب ہونے کے بعد انہوں نے وہ طوفان بدتمیزی اٹھایا ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ ان نوجوانوں کو کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ انہیں پاکستان دشمن، ہندوستان کا ایجنٹ اور اہانت مذہب کا مرتکب تک بنا دیا گیا۔ خاص طور سے ان صاحب نے، جو دینی پروگرام کرتے کرتے، رمضان میں نیلام گھر تک آئے اور اب اینکر بن گئے ہیں، ان نوجوانوں کو واجب القتل تک قرار دے دیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اگر کسی پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا جائے تو پھر اس کی نہیں سنی جاتی، الزام لگانے والے کی ہی سنی جاتی ہے۔ ان صاحب نے ہسٹیریائی انداز میں ان نوجوانوں کے خلاف وہ مقدمہ کھڑا کیا کہ اگر ہمارے وزیر داخلہ ان کی مدد کو نہ آ جاتے تو ابھی تک خدا جانے کیا کچھ ہو گیا ہوتا۔ لیکن اب بھی ان نوجوانوں کو خطرہ ہے۔ یہ صاحب اس سے پہلے بھی ایسا نفرت انگیز پروگرام کر چکے ہیں جس کی وجہ سے ایک انسان کی جان چلی گئی تھی۔ شکر ہے پیمرا نے اس کا نوٹس لیا اور ان صاحب کی زبان بندی کر دی۔ سب جانتے ہیں کہ یہ اظہار کی آزادی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانوں کی جان کو خطرے کا معاملہ ہے۔ یقین ہے کہ عدالت بھی اس معاملے کو اسی طرح دیکھے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ ریٹنگ کی دوڑ میں ہمارے بعض ٹی وی چینل جو منافرت پھیلا رہے ہیں اسطرف ہماری توجہ کیوں نہیں جاتی؟ حکومت تو جانے دیجئے کہ اسکی اپنی مصلحت ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کے سنجیدہ حلقے کیا کر رہے ہیں؟ ان کو بھی تو اس پر توجہ دینا چاہئے۔ پہلے ہی ہمارا معاشرہ کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ اس تقسیم کی خلیج اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ایک فرقہ دوسرے فرقے کی تکفیر کر کے اس کی جان کا دشمن ہو گیا ہے۔ اب یہاں یہ حقیقت بھی تسلیم کر لیجئے کہ اس تقسیم میں بعض ٹی وی چینلز کا ہاتھ بھی ہے۔ ذرا پیچھے مڑ کر دیکھئے جب تک ہمارے ہاں اتنے بہت سے ٹی وی چینل نہیں آئے تھے اس وقت تک فرقوں اور مسلکوں کے اختلافات اتنے واضح نہیں ہوئے تھے۔ بعض ٹی وی چینل اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے ان اختلافات کو زیادہ اچھالتے ہیں اور اگر انہیں مذکورہ اینکر جیسے لوگ مل جائیں تو یہ منافرت دشمنی تک چلی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ ایڈیٹوریل نگرانی کا فقدان ہے۔ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے۔ لیکن اگر کسی چینل کو اس منافرت کے ذریعے ہی اپنی ریٹنگ بڑھانا مقصود ہو تو پھر ایڈیٹوریل نگرانی بھی کیا کریگی۔ اظہار رائے کی آزادی اپنی جگہ لیکن یہ آزادی معاشرے میں افراتفری پھیلانے اور انسانی جانیں خطرے میں ڈالنے کیلئے تو نہیں ہونا چاہئے۔ اب اگر ہمیں اپنے معاشرے کو افراتفری سے بچانا ہے اور ایک دوسرے کیخلاف زہریلی منافرت کو روکنا ہے تو ہمیں بھی ایسا ہی کچھ کرنا پڑے گا۔ معاف کیجئے، میں سوشل میڈیا کی خرابی سے چلا تھا اور اپنے الیکٹرانک میڈیا تک آ گیا۔ لیکن یاد رکھئے، سوشل میڈیا کی لغزش اتنا نقصان نہیں پہنچاتی جتنا یہ بے لگام الیکٹرانک میڈیا نقصان پہنچا رہا ہے۔ سوشل میڈیا تک بہت کم لوگوں کی رسائی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ہر گھر میں گھسا ہوا ہے۔

.
تازہ ترین