• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سماجی طور پر پسماندہ، دروغ گوئی اور منافقت کی ملمع کاری سے بوجھل ایک جامد معاشرے میں اضطراب اور رستخیز ہی تخلیقی رجحان کی صورت پرانے نظام کو برہم کرتے ہوئے نئے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ تمام تر شور شرابے اور ہائو ہو کے درمیان پاکستان اسی مرحلے سے گزر رہا ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ لفظ ’’قطر‘‘ پاکستان کے طول وعرض میں ایسا طربیہ نام بن جائے گا جسے سن کر لوگ ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوجائیں گے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قطر سے آنے والے دو خطوط نے پاناما بحران کی زد میں آئے ہوئے پاکستانی وزیراعظم کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۔ خطوط میں پیش کردہ دفاعی بیانیہ انتہائی سنجیدہ افراد کو بھی قہقہے لگانے پر مجبور کردیتا ہے۔ ایک نئی الف لیلہ رقم ہو رہی ہے۔
بہرحال وزیراعظم اور ان کے وکلاء نے اپنے دفاع کا آخری مورچہ قطری ادب کے انہی نادر صفحات کو قرار دیا ہے، کیونکہ ان کے پاس دفاع کے لئے اسی ’’کاغذی پیراہن‘‘ کی زرہ بکتر ہے۔ کوئی بنک اسٹیٹمنٹ یا رقم کی منتقلی کا دستاویزی ثبوت موجود نہیں، لے دے کے بس قطری شہزادے کے تحریر کردہ الفاظ کی گواہی کہ شریف فیملی کے سربراہ، میاں محمد شریف مرحوم نے یہ رقم دبئی سے قطر منتقل کی اور قطر کے شاہی خاندان، التھانی کے پراپرٹی بزنس میں سرمایہ کاری کی۔ یہ وہ وقت تھا جب قطر ایک پرسکون گائوں تھا جہاں آپ مچھلی پکڑنے تو جاسکتے تھے لیکن جائیداد خریدنے نہیں، اور اُ س وقت کوئی طاقتور دوربین سے بھی اس کے مقدر کے ستارے کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ تاہم آج اسی افسانوی سوت سے ایمانداری کا تانا بانا بنُا جا رہا ہے۔ اگر اس طویل ہوتے ہوئے طربیہ ڈرامے کے مثبت پہلو پر نظر دوڑائیں تو اس وقت پاکستان میں کوئی بھی مکتوب قطری کی ساکھ پر اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں، ایسا قومی اتفاقِ رائے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ مجھے یقین ہے کہ پی ایم ایل (ن) کے اہم رہنما بھی دل سے اس بات کو نہیں مانتے، گو عوامی طور پر مشکلات سے دوچار شریف فیملی کا دفاع کرتے کرتے ہلکان ہوچکے ہیں۔ شاید اس محنت کا کوئی پھل انہیں مل سکے۔
اس دستے میں تازہ ترین اضافہ، ’’جونیئر انفارمیشن منسٹر‘‘ مریم اورنگ زیب ہیں جو بہت تیزی سے دوسروں کو پیچھے چھوڑ کر گیند لے کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ اُن کی والدہ، طاہرہ اورنگ زیب صاحبہ پچھلی قومی اسمبلی میں میری کولیگ تھیں۔ وہ محترمہ مزاح کی گہری حس رکھتی تھیں۔ اب اگر اُن سے کبھی ملنا ہوا تو میں اُن سے اُن کی صاحبزادی کی ’’کارکردگی‘‘ کی شکایت ضرور کروں گا۔ پی پی پی کی بدعنوانی کی مہم ظرافت سے تہی داماں تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پی پی پی کی قیادت نے کبھی بھی دکھاوا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اُنھوں نے جو کرنا تھا، کر رہے تھے۔ تاہم پی ایم ایل (ن) مذاق کا نشانہ اس لئے بن رہی ہے کیونکہ اس کی قیادت خود پارسائی کی دعویدار ہے۔ جب ہر کوئی ان کے راز جانتا ہے، تو اس کے باوجود وہ چہرے پر ایمانداری کے تاثرات ابھارتے دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ عوام کے پاس قہقہے لگانے کے لئے ’’رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے‘‘۔ حقیقت اور دکھاوے کے درمیان فرق ادب میں مزاحیہ طنز کہلاتا ہے، سیاست میں رخصتی کی گھنٹی۔ تاہم وہ ثابت قدمی سے اپنی جگہ پر موجود ہیں۔
اس وقت پوری قوم ایک بات پر متفق ہے کہ اس معاملے میں حکمران خاندان کی صاحبزادی، جنہیں پاناما انکشافات سے پہلے تک بھاری مینڈیٹ کا سیاسی جانشیں قرار دیا جاتا تھا، کا کردار بہت اہم ہے۔ محترمہ کو کبھی ٹرسٹی، کبھی مجاز اتھارٹی، کبھی لندن فلیٹس سے فائدہ اٹھانے والی بتایا جاتا ہے۔ ہر ٹی وی شو میں متضاد بیانات کی پت جھڑ دکھائی دیتی ہے، نت نئے شگوفے پھوٹتے ہیں۔ میڈیا کا لینڈ اسکیپ انہی موسمیاتی تبدیلیوں سے سرد وگرم ہے۔ یقینًا یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔ دن کو سپریم کورٹ میں پیشی اور شام کو ٹی وی چینلوں کی پیشہ ور مہارت بال کی کھال اتار کر قوم کو محو تماشا رکھتی ہے۔ اسی چینی تشدد کا خاتمہ ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی ہے۔ اپنی طویل سیاسی اننگز کھیلنے والی پی ایم ایل (ن) نے اتنے اسکینڈلوں سے اپنا دفاع کیا ہے کہ اگر وہ پی پی پی کے درپے ہوتے تو اس کی کئی ایک حکومتوں کی چھٹی ہو چکی ہوتی۔ تاہم آج پاناما پیرِ تسمہ پا کی طرح ان کی گردن پر سوار، اسے جھٹک کر اتار پھینکنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
اب ایک کھوکھلی قبر سے ایک اور بھوت اٹھ کر سامنے آگیا ہے۔ محترم اسحاق ڈار نے کرہّ ارض کے ہر مزار پر دعا مانگی ہوگی کہ یہ بھوت سرنہ اٹھانے پائے لیکن افسوس بھوت زیادہ تیز نکلا۔ نواز شریف کی منی لانڈرنگ، لندن میں جعلی بنک اکائونٹ کھولنے کے حوالے سے اُن کا اعترافی بیان کسی فائرنگ اسکواڈ کے سامنے نہیں، صرف ایک مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے نیب نے اس کی تفتیش نہیں کی، پی پی پی نے صدر زرداری کی قیادت میں اسے قالین کے نیچے سرکا دیا۔ خیر یہ کوئی راز نہیں کہ آصف زرداری کو اس کیس کی تحقیقات میں دلچسپی کیوں نہ تھی۔ گزشتہ حکومت کے دور میں لاہور ہائی کورٹ میں اس بیان کی تردید کر دی گئی، لیکن موجودہ جج صاحبان نے اس معاملے پر سے گرد ہٹاتے ہوئے اس دھماکہ خیز اعتراف کوسامنے لانے کا حکم دیا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اسحاق ڈار کو کس آزمائش کا سامنا ہوگا۔ اکثر ان کے چہر ے پرسب کچھ عیاں دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے خدوخال اندرونی کشمکش کو چھپانے میں ناکام رہتے ہیں۔ شاید اُنہیں خواب میں بھی توقع نہ تھی کہ وہ دفن کردہ بھوت ایک مرتبہ پھر سر اٹھا لے گا۔
گزشتہ سماعت کے موقع پر پی ایم ایل (ن) کے تمام توپچی، انوشے رحمان، دانیال عزیز، مائزہ حمید اوردیگر اسحاق ڈار کے بیان کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ وہ مشرف آمریت کے دوران گن پوائنٹ پر حاصل کیا گیا۔ افسوس، زیادہ احتجاج بھی حقیقت دکھانے والا آئینہ بن جاتا ہے۔ اس وقت یہ کیس ایسا موڑ مڑ رہا ہے جس کی شاید بہت کم افراد کو توقع تھی۔ فی الحال تفتیش کا لہجہ نرم ہے، لیکن روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی سماعت میں کوئی وقفہ یا نرمی نہیں۔ اس دوران تمام قوم دم سادھے پردہ اٹھنے کی منتظر ہے۔ جب میں چکوال جاتا ہوں تو لوگ پاناما پر بات کررہے ہیں۔ جب میں اپنے گائوں بھگوال جاتا ہوں تو وہاں بھی یہی گفتگو ہو رہی ہوتی ہے۔
لوگ تضادات اور دیومالائی کہانیوں سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے قطر کی شہرت گیس اور قطری شہزادوں کے تلور کے شکار کی کہانیاں ، اور الجزیرہ اور سیف الرحمن تھے ۔ کون کہہ سکتا تھا کہ کبھی قطربھی لکھے گئے خطوط کی وجہ سے شہرت پائے گا؟سپریم کورٹ کے سامنے رکھے گئے خطوط کے سامنے شہرت کی دیگر اصناف ماند پڑ جائیں گی۔
حکمران خاندان کا دفاع کرنے والے تینوں وکلاکا شمار ملک کے بہترین قانون دانوں میں ہوتا ہے ۔ میری ان تینوں، شاہد حامد، مخدوم علی خان اور سلمان راجہ،سے دوستی ہے ۔ جب میرے انتخابی کاغذات مسترد کیے گئے تو سلمان راجہ میری طرف سے بلامعاوضہ، رضاکارانہ طو رپر پیش ہوئے تھے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں ان بہترین وکلا کو اسکاٹ لینڈ کا بہترین مشروب پیش کرتے ہوئے پوچھوں کہ قطر کے ادبی شاہکار کو کون سا انعام ملنا چاہئے ؟سلمان ایک سنجیدہ طبع شخص ہیں، اور اُن کے جوابات بھی مختصر ہوتے ہیں، لیکن شاہد حامد پر لطف اور زندہ دل شخص ہیں۔ پیشہ ور اصول اپنی جگہ پر لیکن تنہائی میں کسی کو قہقہہ لگانے سے کون روک سکتا ہے ۔
جنرل ضیا پی پی پی کو ختم نہ کرسکے ، یہ سعادت آصف زرداری کے نصیب میں لکھی تھی۔ صرف چند ماہ پہلے تک شریف برادران اگلا انتخابی معرکہ جیتنے کے خواب دیکھتے اور صبح تازہ دم اٹھتے تھے ۔لیکن پھر اچانک آسمان سے پاناما نامی برقی کوندا لہرایا، اور تمام خواب بکھرنے لگے۔ عجیب دور ہے ۔ کسی کو بھی بریگزٹ یا ٹرمپ کی کامیابی کی توقع نہ تھی۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ پی پی پی کا پنجاب سے صفایا ہوجائے گا؟اور اب پی ایم ایل (ن) بھی متحیر، انگشت بدنداں، جائے نہ رسیدن۔




.
تازہ ترین