• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں دنیا کے مختلف ممالک کے شہریوں کے آزادانہ سفر اور پاسپورٹس کی رینکنگ پر مبنی ایک رپورٹ میری نظر سے گزری جو عالمی کنسلٹنٹ فرم ’’ہینڈلے اینڈ پارٹنرز‘‘ نے انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (IATA) کے تعاو ن سے مرتب کی تھی۔ یہ ادارہ 2006ء سے ہر سال دنیا بھر کے ممالک کے پاسپورٹس کی رینکنگ پر مبنی رپورٹ شائع کررہا ہے۔ رپورٹ میں دنیا کے 218ممالک کے پاسپورٹس کو مختلف درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں سے 10سرفہرست بہترین پاسپورٹس میں جرمنی، سوئیڈن، فن لینڈ، فرانس، اٹلی، ڈنمارک، اسپین، سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ جیسے ممالک شامل ہیں۔ رواں سال بہترین پاسپورٹ کی فہرست میں جرمنی پہلے نمبر پر ہے جس کے پاسپورٹ کے حامل افراد 177ممالک کا سفر بغیر ویزا کرسکتے ہیں جبکہ سوئیڈن دوسرے نمبر پر ہے جس کے پاسپورٹ پر 176ملکوں کا سفر بغیر ویزا کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح فن لینڈ، فرانس، اٹلی، اسپین اور برطانیہ کا پاسپورٹ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ امریکہ، بلجیم، ڈنمارک اور نیدر لینڈ چوتھے، جاپان اور جنوبی کوریا پانچویں اور چھٹے نمبر پر ہیں۔ رپورٹ میں دنیا کے بدترین پاسپورٹس کی فہرست بھی شامل ہے جس میں افغانستان سب سے آخری یعنی 104نمبر، پاکستان محض ایک درجہ اوپر 103، عراق 102 اور صومالیہ 101نمبر پر ہیں، دیگر بدترین پاسپورٹس کے حامل ممالک میں لائبیریا، برونڈی، شمالی کوریا، میانمار (برما)، ری پبلک آف کانگو، کوسووو، سوڈان، یمن، ایریٹیریا، ایتھوپیا، نیپال، شام اور لیبیا شامل ہیں جبکہ فہرست میں بھارت 78ویں نمبر پر ہے۔
ویزا کی شرائط کسی بھی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات کی عکاسی کرتی ہیں اور کسی بھی ملک کے شہریوں کو دوسرے ملک میں ویزا فری رسائی، اُس ملک کے ساتھ سفارتی، تجارتی و باہمی تعلقات، سیکورٹی اور ویزا شرائط پر منحصر ہوتی ہے۔ رپورٹ میں پاکستانی پاسپورٹ کی انتہائی نچلے درجے پر رینکنگ دیکھ کر بہت صدمہ ہوا کیونکہ 70ء کی دہائی تک پاکستانی گرین پاسپورٹ پر امریکہ اور یورپ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کا سفر بغیر ویزا کیا جاسکتا تھا مگر آج صورتحال بالکل برعکس ہے اور اب یہ سہولت محدود ہوکر صرف دنیا کے پسماندہ ترین 36ممالک جن میں اکثریت افریقی ممالک کی ہے، تک رہ گئی ہے جہاں سفر سے قبل پاکستانیوں کو ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی بیورو کریسی نے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے کئی ممالک جن میں مراکش، ترکی، فلپائن اور سری لنکا وغیرہ شامل ہیں، کی حکومتوں سے ایسے معاہدے کررکھے ہیں جن کی رو سے اعلیٰ سرکاری حکام کو جاری کئے گئے آفیشل بلیو پاسپورٹ اور سفارتکاروں کو جاری کئے گئے ڈپلومیٹک ریڈ پاسپورٹ کے حامل افراد ان ممالک کے ویزوں کی پابندی سے مستثنیٰ ہیں اور وہ 36پسماندہ ترین ممالک کے علاوہ 32ترقی یافتہ ممالک کا سفر بھی بغیر ویزا کرسکتے ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں ایسے بے شمار لوگوں اور اُن کی فیملیوں کو آفیشل بلیو پاسپورٹ جاری کئے گئے جو اس پاسپورٹ کے اہل نہیں تھے تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ نے وہ تمام آفیشل پاسپورٹس منسوخ کردیئے ہیں۔
پاکستانی گرین پاسپورٹ کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے جو شروع ہی سے اندرونی تنازعات کا آئینہ دار رہا ہے جس کا عکس پاکستانی پاسپورٹ میں آنے والی تبدیلیوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1947ء کے اواخر میں جاری ہونے والے پاکستان کے پہلے پاسپورٹ کی جلد کا رنگ بڑی حد تک ہلکا بادامی اور جزوی طور پر سبز تھا جس پر انگریزی، اردو اور بنگالی زبان میں ’’پاکستان پاسپورٹ‘‘ لکھا تھا۔ پاسپورٹ پر پاکستان کے دو پرچم بنے تھے جن میں سے ایک پرچم ملک کے مغربی حصے (مغربی پاکستان) اور دوسرا پرچم ملک کے مشرقی حصے (مشرقی پاکستان) کی ترجمانی کرتا تھا۔ اُس دور میں پاکستانیوں کو دنیا کے بیشتر ممالک کے سفر کیلئے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ 1970ء کے بعد امریکہ نے پاکستانیوں کی آمد پر ویزا دینے کی پالیسی ختم کردی لیکن پاکستانی بیشتر یورپی ممالک کا سفر بغیر ویزا کرسکتے تھے۔ 1974ء میں پاکستانی پاسپورٹ کا رنگ نیلگوں سبز ہوگیا اور بنگالی زبان میں تحریر حذف کردی گئی جس کی وجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی تھی۔ 1983ء میں برطانیہ سمیت دیگر بڑے یورپی ممالک نے پاکستانیوں کو اپنے ایئرپورٹس پر ویزا دینے کی سہولت ختم کردی جس میں روز بروز سختی آتی جارہی ہے۔
حالیہ فہرست میں پاکستان کو آخری درجے یعنی افغانستان سے محض ایک درجہ اوپر اور بنگلہ دیش سے بھی نیچے صومالیہ کے ساتھ کھڑا دیکھ کر انتہائی افسوس ہوا۔ پاکستانی پاسپورٹ کی ساکھ کو سب سے زیادہ نقصان سوویت افغان جنگ کے بعد پہنچا جب پاکستان میں پناہ لینے والے لاکھوں افغان پناہ گزینوں نے رشوت کے عوض پاکستانی پاسپورٹس اور شناختی کارڈز حاصل کئے۔ اسی طرح پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں جن میں بنگلہ دیشی اور برمی باشندے بھی شامل ہیں، نے یہی طرز عمل اختیار کیا جو غیر قانونی طور پر بیرون ملک جاتے ہوئے پکڑے گئے تو اُنہیں پاکستانی تصور کیا گیا جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستانی پاسپورٹ کی بدنامی بھی ہوئی جبکہ رہی سہی کسر غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں نے نکال دی جن کے بیرون ملک پکڑے جانے پر پاکستانی پاسپورٹ کی مزید تضحیک ہوئی۔ حالیہ دنوں میں ایسی خبریں سامنے آنے کے بعد کہ ’’داعش جنگجوئوں میں پاکستانی بھی شامل ہیں‘‘ پاکستانی شہریوں کو امریکہ، کینیڈا اور یورپی ممالک کے ویزے کے حصول میں مزید سختیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جنہیں بیشتر ممالک کے سفارتخانے اپنے ملک سے کلیئرنس حاصل کرنے کے بعد ویزا جار ی کرتے ہیں جبکہ سری لنکا، بنگلہ دیش، فلپائن اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کے ویزے کے حصول کیلئے بھی پاکستانیوں کو ایک ایک ماہ انتظار کرنا پڑرہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستانیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ وائٹ ہائوس نے عندیہ دیا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کو بھی امیگریشن پابندی والے ممالک میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ نے سخت اقدامات کرتے ہوئے بڑی تعداد میں جعلی شناختی کارڈز اور پاسپورٹس منسوخ کئے ہیں لیکن اس گھنائونے کام میں ملوث نادرا اور متعلقہ اداروں کے اہلکاروں کے خلاف کوئی سخت کارروائی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے درخواست ہے کہ چند سکوں کے عوض ملکی سلامتی سے کھیلنے والے ملوث اہلکاروں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کوئی غیر ملکی، جعلی پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرکے ملک کی بدنامی اور تضحیک کا سبب نہ بن سکے۔ حالیہ پاسپورٹس رینکنگ میں گرین پاسپورٹ کی تنزلی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم قائداعظم کا فرمان بھلا کر اپنی عزت، مرتبہ اور پاسپورٹ کا مقام گنوا بیٹھے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ایک دن ضرور پاکستانی گرین پاسپورٹ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے گا۔
نوٹ:میرے گزشتہ کالم ’’انسانی اسمگلنگ میں تشویشناک حد تک اضافہ‘‘ پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے دفتر سے مجھے ٹیلیفون کال موصول ہوئی جس میں کالم کو سراہتے ہوئے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے مجھ سے تجویز مانگی گئی اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے سخت اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی کرائی گئی جس پر میں اُن کا مشکور ہوں۔




.
تازہ ترین