• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے اپنی صدارت کے ایک ہفتے کی مدت میں جو اکھاڑ پچھاڑ کی ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ صدر ٹرمپ کا الیکشن کا نعرہ تھا کہ ہم امریکہ کو ایک مرتبہ پھر سے عظیم تر بنائیں گے۔ امریکہ میں اس نعرے کی بازگشت پسماندہ ریاستوں اور دیہی علاقوں میں سنی گئی۔ شہری اور ترقی یافتہ ریاستوں میں اس نعرے کو نسل پرستی سے تعبیر کیا گیا اور اسے رجعت پرستی کا مظہر کہا گیا۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانا ہو یا مسلمان ملکوں سے آنے والے تارکین وطن پر پابندی لگانا ہو، صدر ٹرمپ ایک تنگ نظر امریکی قوم پرستی کا پرچار کر رہے ہیں۔ ان کا امریکہ فرسٹ کا نعرہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ صدر ٹرمپ نہ صرف امریکی قوم پرستی کو ہوا دینا چاہتے ہیں بلکہ یورپ میں بھی اسی طرح کی انتہا پسندانہ قوم پرست تحریکوں کو ابھارنا چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے تصور میں عظیم تر امریکہ بیسویں صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائی کا امریکہ ہے۔ تب دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں یورپ اور جاپان برباد ہو چکے تھے اور وہ صنعتی ترقی کے لئے امریکہ کے دست نگر تھے۔ چین پسماندہ اور زرعی ملک تھا۔ روس ایک حد تک ترقی کر چکا تھا لیکن وہ صارفین کے لئے بنانے والی مصنوعات میں ابھی تک پسماندہ تھا چنانچہ وہ دنیا کی منڈیوں میں امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ امریکہ کا دنیا میں چار سو بول بالا تھا اور اس کا مکمل غلبہ تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب امریکی صنعت اپنے عروج پر پہنچی اور امریکہ کا بڑا درمیانہ طبقہ پیدا ہوا۔ معیشت دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس دور میں مزدور یونینوں نے درمیانے طبقے کو پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
آبادی کے لحاظ سے امریکہ بہت حد تک سفید فام ملک تھا: امریکہ میں کالے غلاموں کی اقلیت کے علاوہ دوسری نسلی اور لسانی اقلیتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ سیاہ فام امریکیوں کے خلاف طرح طرح کی پابندیاں زیر عمل تھیں اور ابھی تک ان کو برابر کے شہری تصور نہیں کیا گیا تھا۔ غیر اعلانیہ سفید فاموں میں نسلی برتری کا تصور بہت پختہ تھا۔ لیکن چھٹی دہائی میں جو سیاسی اور سماجی تحریکیں چلیں ان کے نتیجے میں سیاہ فام اقلیت کے علاوہ خواتین کو بھی نئے انسانی حقوق حاصل ہوئے۔ چھٹی دہائی کی سیاسی اور سماجی تحریکوں کے نتیجے میں امریکہ میں آزاد انہ فکر نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔
تیسری دہائی کے عظیم معاشی بحران (گریٹ ڈپریشن) اور دوسری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں امریکی ریاست نے ٖفلاحی پروگرام شروع کئے۔ بڑھاپے کی پنشن اور صحت کے پروگرام نافذ کئے گئے۔ آج کی ریپبلکن پارٹی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس طرح کے پروگرام شروع کرکے امریکی ریاست نے آزاد منڈیوں کے اصولوں کی نفی کی ہے۔ صدر ٹرمپ اور ان کے حامی اسی لئے یورپی ویلفیئر نظام کے خلاف ہیں اور رجعت پسند قوم پرستوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس پہلو سے وہ دنیا کو دوسری جنگ عظیم سے پیشتر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں: کئی پہلوئوں سے وہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے پائے جانے والے نوآبادیاتی نظام کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو دوسری جنگ عظیم کے بعد ابھرنے والی سامراجی طاقتوں پر بھی بھروسہ نہیں ہے۔
آج کی دنیا بدل چکی ہے اور اس بدلے ہوئے عالمی نظام میں نوآبادیاتی طاقتیں ابھر کر دنیا کے مختلف ملکوں پر قبضہ نہیں کر سکتیں۔ صدر ٹرمپ جس طرح عراق کے تیل پر امریکی قبضے کے واضح اشارے دے رہے ہیں وہ ممکن نہیں ہے۔ نو آبادیاتی نظام ایک مختلف دور کا پیدا کردہ تھا جس میں عسکری لحاظ سے طاقت ور قومیں دنیا کے ملکوں پر قبضہ کر لیتی تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ہو گیا اور مختلف ممالک آزاد ہو گئے۔ تب آج کا سرمایہ دارانہ سامراجی نظام پیدا ہوا جس میں غریب ملکوں کا بالواسطہ استحصال شروع ہوا۔ یہ طریق واردات ابھی تک جاری ہے اگرچہ اس کے انداز بدل گئے ہیں۔ سرد جنگ کے بعد گلوبلائزیشن نے دنیا کا نقشہ یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ اب سرمایہ آزادی سے مختلف ملکوں میں منتقل ہوتا ہے اور منافع بڑھانے کے لئے قومی سرحدوں کی پروا نہیں کرتا۔
آج کا امریکہ بھی بہت بدلا ہوا ہے:آبادی کے لحاظ سے اب اقلیتوں کی تعداد 35فیصد ہے اور مستقبل میں سفید اکثریت اقلیت میں بدل سکتی ہے۔ یہی وہ خوف ہے جس کے تحت میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنائی جا رہی ہے۔ بہت سے ماہرین میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس طرح کی دیوار سے تارکین وطن کو روکا نہیں جا سکتا۔ اسی طرح سے سرمایہ کاروں کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنا سرمایہ امریکہ میں ہی لگائیں:سرمائے کا بہاؤ اسی طرف ہوتا ہے جہاں اسے سب سے زیادہ منافع ملے۔ ٹرمپ انتظامیہ دنیا کے تمام تجارتی معاہدوں کو ترک بھی کردے تو اجڑی ہوئی امریکی صنعتیں دوبارہ بحال نہیں ہو سکتیں۔ جس مزدور طبقے نے صدر ٹرمپ کو اس لئے ووٹ دئیے ہیں کہ وہ اچھی تنخواہوں والی نوکریاں دینے والی صنعتوں کو امریکہ واپس لے آئیں گے محض خوابوں کی دنیا میں زندہ ہیں۔ اب امریکی مزدور کا مقابلہ غریب ملکوں کے کم اجرت پر کام کرنے والے مزدور سے زیادہ روبوٹوں سے ہے جو ہر آنے والے دن کے ساتھ انسانوں کی جگہ لے رہے ہیں۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ امریکی مزدور کو درمیانے طبقے میں مزدور یونینوں نے داخل کیا تھا۔ مزدور یونینوں کو صدر ریگن کے زمانے میں ہی تباہ کردیا گیا تھا اور صدر ٹرمپ کے ارب پتی ساتھی مزدور یونینوں کو کبھی بحال نہیں ہونے دیں گے۔
گلوبلائزیشن کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں صنعتی انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ کچھ پہلوئوں سے چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکاہے۔ دنیا میں نئی معاشی طاقتوں کے ابھار کے نتیجے میں امریکہ کی عالمی سیاسی اجارہ داری خاتمے کے قریب ہے۔ پچھلی صدی کی چھٹی دہائی میں پائی جانے والی امریکی اجارہ داری دوبارہ بحال نہیں ہو سکتی۔ نہ ہی امریکہ کے نئے سماجی نقشے کو بدلا جا سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے امریکہ کو عظیم تر بنانے کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں، جو ٹوٹ گیا وہ ٹوٹ گیا‘‘۔



.
تازہ ترین