• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’سوالوں کے سائے میں بلاول کی قیادت، کے عنوان سے تحریر شدہ کالم، گزشتہ ہفتے کا ’’چیلنج‘‘ کے دوسرے اور اختتامی حصے کی طرف بڑھتے ہیں۔ بات یہاں پر تھی:’’آصف زرداری کی قیادت میں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار قومی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں برسراقتدار منتخب حکومت نے تمام تر آئینی تقاضوں اور کلچرکے مطابق اقتدار منتقل کیا۔ جمہوری پارلیمانی نظام کے مخالف درماندہ حالت میں جبکہ اس نظام کے حامیوں اور ترجمانوں کے طرزِ فکر اور طرزِ عمل میں دبنگ لب و لہجہ کے جمہوری یقین و ایمان کی جھلکیاں ہیں۔ پاکستانی عوام مدتوں بعد اپنے مقدر کے افق پر عزت اور آزادی کا سورج مسلسل طلوع ہوتا دیکھ رہے ہیں۔‘‘
پاکستان کی تقریباً 70برس کی تاریخ میں آصف علی زرداری کے مقدر میں یہ تاریخ ساز سعادت لکھی گئی۔ یاد دہانی کے طور پر خود سے سوال کر لیتے ہیں ’’کونسی تاریخ ساز سعادت‘‘؟ اور خود ہی اپنے آپ کو جواب بھی دے لیتے ہیں ’’پاکستان کے آئین کے تحت اقتدار کی منتقلی عمل میں لانے کی تاریخ ساز سعادت!‘‘ اس شخص کی صدارت سے پہلے یہ سعادت ہم سے چھن گئی یا چھین لی گئی یا اس کی راہ میں بیمار، ادھوری، وقتی اور نفسانی خواہشات و مقاصد کے اسیروں نے پاکستان کی، ووٹ کی حرمت کا، جب چاہا سر نیچے کر دیا۔ پاکستان کی تقدیر میں اس آئینی عمل سے محرومی نے اس کا دو لخت ہونا لکھ دیا، ساتھ ہی اس کی سرزمین میں لہو کی فصل کاشت کرنے کا جبری تخم ڈال دیا، مطلب فرقہ واریت، دہشت گردی اور عدم برداشت نے پاکستان کی دھرتی کو بے گناہوں کے خون سے گلنار کر دیا، یہ انجام، یہ تمام نتیجہ محض اور محض ملکی آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل پامال کرنے کے باعث پاکستانیوں کی زندگیوں کا ناسور بن گیا، وہ کینسر جس کا علاج کسی نہ کسی طرح پاکستان کو جمہوری تسلسل پر ڈالنے سے تھا، اس کی سعادت آصف علی زرداری کے ہاتھ آئی، گو بقول ناقد:’’محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی نے برسراقتدار آ کر اپنی حکومت کی پانچ سالہ مدت تو پوری کر لی لیکن اس کے خمیازہ کے طور پر ایک طویل عرصہ کے لئے سیاست سے ناک آئوٹ ہو گئی، چاروں صوبوں کی زنجیر اور وفاق کی علامت ملک گیر جماعت سندھ کی لوکل پارٹی بن کر رہ گئی۔ اور یہی آصف علی زرداری کی قائدانہ عظمت ہے، انہوں نے جمہوریت کو لاحق کینسر کو دور کیا، ملک کو ’’ووٹ کی حرمت، آئین کی بالادستی اور جمہوری تسلسل‘‘ کی راہ پر ڈالا، اس قومی روگ کا ذہنی اندمال کیا جو پاکستان کے دو لخت ہونے سے آج تک ہماری قومی روح کی بلبلاہٹ ہے، آج پاکستان کے عوام اور جمہوری قوتیں کہیں زیادہ طاقتور نظریاتی پوزیشن میں ہیں، نواز شریف اور ن لیگ سے شدید آئینی اختلافات اور ذاتی تعصبات کے باوجود ملک کی عوامی اور غیر عوامی بہت بڑی اکثریت موجودہ منتخب حکومت کی آئینی مدت میں گڑبڑ کرنے کو قوم دشمنی قرار دے رہی ہے، غیر جمہوری ذہنوں کے لئے اب جمہوری تسلسل کو معطل، مسخ اور منقطع کرنا ناممکن ہو چکا، آصف علی زرداری نے حب الوطنی کا جھنڈا تھاما، پاکستان کے جغرافیے کو بچانے کی بنیاد رکھی، بھلے پارٹی نقصان میں رہی ہو! وطن ہے تو پارٹی ہے، آصف علی زرداری ایسا ہی یادگار سچا اور حقیقی محب پاکستانی ہے! ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ سیاست نہیں تھی، اس کا روحانی نغمہ تھا۔
اب بلاول کی قیادت میں پارٹی پر چھائے دوسرے سوالات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں، یہ حوالہ سب سے بنیادی اور سب سے بڑا سوال پنجاب کی شکل میں سامنے لاتا ہے۔ بلاول بھٹو ایک جرأت مند، تعلیم یافتہ اور بے خوف نوجوان لیڈر ہے، اس میں نظریات کی یکسوئی اور عمل کی مطلوب لگن کا جذبہ دیکھا جا سکتا ہے، ان حقائق، ان خوبیوں کے باوجود، بلاول کے پارٹی چیئرمین شپ سنبھالنے کے باوجود، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پیپلز پارٹی وہیں کھڑی ہے جہاں پارٹی کی قیادت سنبھالنے سے پہلے کھڑی تھی!
بلاول کی رہنمائی میں پیپلز پارٹی میں اٹھان کے آثار بھی یقیناً نظر آئے، ان آثار کی وسعت اور مقدار میں یقیناً اضافہ بھی ہو رہا ہے، لاہور سے فیصل آباد کی ریلی خواہ کتنے ہی ’’ٹوٹوں‘‘ کا شکار ہوئی، اس کے سیاسی وجود سے انکار ممکن نہیں، سوالات کے محرک گو ایک اور بات بھی کہتے ہیں، یہ کہ انہوں نے ’’اپنی منحنی آواز میں مولا جٹ بن کر دھواں دھار انٹری دے ڈالی یہ گھن گرج بلاول کی شخصیت سے کسی طور میچ نہ کر پائی، کمزور اردونامناسب لہجہ اور بے تکی تقریروں میں جذبات کی بھرمار نے ایک تعلیم یافتہ سنجیدہ سیاستدان کی بجائے ایک لا ابالی اور اکھڑے لڑکے کے روپ میں بلاول کی شخصیت کو بری طرح کچل دیا‘‘، اس اظہاریے میں ناقد کی گفتگو کا وہ پہلو جس کا تعلق بلاول کی تقاریر لکھنے یا تیار کرنے کے ذمہ داروں سے ہے، وہ سو فیصد درست ہے، وہ تمام افراد جنہوں نے آج تک منعقدہ بلاول کے جلسوں کی تقاریر رقم یا تجویز کیں، وہ سب اس پورٹ فولیو سے فیصلہ کن پالیسی کے طور پر ہٹا دیئے جائیں، ان کی تقریری تحریروں یا تجویزوں میں ’’نظریاتی جان‘‘ کا ایک ذرہ تک محسوس نہیں ہوتا، لیکن سب سے بڑا سوال اب بھی وہیں ہے ’’وسطی پنجاب آج بھی وہیں ہے جہاں بلاول کی قومی سیاست میں باضابطہ آمد اور پنجاب میں پارٹی کی تنظیم نو کے نعرے سے پہلے تھا‘‘’’ون ملین ڈالر‘‘ جواب کے لئے چند احساسات کو بیرومیٹر بنائیں۔
(1) وسطی پنجاب میں پارٹی کی صدارت پیپلز پارٹی کے نظریاتی اور عوامی قد کاٹھ کی تاریخ ساز جدوجہد اور شخصیات کے مقابلے میں کسی بھی معیار کی حامل ہے؟ ماضی کا معیار ابدی نہیں مگر ایسا یتیم بھی نہیں ہونا چاہئے جیسا پنجاب کے عوام کو پیش کیا گیا۔
(2) پنجاب میں وہ میڈیا مینجمنٹ کس نے کی جس میں بلاول ڈنر دے اور اس میں پارٹی کے ترجمان اخبار جس کی پیشانی پر ’’بانی ذوالفقار علی بھٹو، لکھا ہو، کا ایڈیٹر ہی مدعو نہ کیا جائے، صوبے میں ’’میڈیا سے رابطہ‘‘ نظریاتی اثاثے کے بجائے ’’ذاتی خود سریوں، کے اصولوں پر استوار کیا جائے؟ معروف دانشور نعیم مسعود نے کیا خوب کہا ’’کیا بلاول تک کوئی ترجمان انگریزی ترجمہ یا میڈیا و عوام کی آواز پہنچاتا ہے، (ایک صاحب ہیں مگر نام لینے سے کالم کی غیر جانبداریت متاثر ہوتی ہے۔ سعید اظہر)، کو میڈیا سیل ایسا تردد کرتا ہے؟ (پیپلز پارٹی کے موجودہ میڈیا سیلز ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر، تردد کرنے کا یہ ’’فرض‘‘ پورا کرتے رہتے ہیں۔ سعید اظہر) سوالات باقی ہیں مگر کالم کی گنجائش تمام ہوئی!




.
تازہ ترین