• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہرطرف پانامہ کی آف شور کمپنیوں کا شور ہے۔ عدالت عظمی کی ہر صبح کا آغاز اِسی مقدمے کے کنج ِ لب سے ہوتا ہے۔ اعلیٰ ترین منصفوں کے ریمارکس سرخیوں میں بدلتے جارہے ہیں۔ ہیڈ لائنز بن رہی ہیں۔ سپر لیڈز لگ رہی ہیں۔ وکیلوں کی موشگافیاں بریکنگ نیوز کی شکل دھاررہی ہیں۔ قطری خطوط کی فوٹو کاپیاں گلی کوچوں میں تقسیم کی جارہی ہیں۔ پریس کانفرنس در پریس کانفرنس ہورہی ہیں۔ لیڈروں کے منہ سے جھاگ نکلتی دکھائی دیتی ہے۔ قومی اسمبلی میں عوامی نمائندے آپس میں دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ کروڑوں پاکستانیوں کی رگیں تنی ہوئی ہیں اعصاب کھنچے ہوئے ہیں مگر ابھی میں اِس مقدمہ پر خیال آرائی نہیں کرنا چاہ رہا۔ ابھی میرا موضوع ایک اور مقدمہ ہے ا بھی میں براہ راست وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے مخاطب ہوں۔
حضوروالا! مارچ 2013کاوہ بدبخت دن تو آپ کو یاد ہوگا جب لاہور میں بادامی باغ کے قریب جوزف کالونی پرمشتعل افراد نے حملہ کر کے 178کے قریب مکانات اور دکانیں جلا دی تھیں ایک چرچ کو بھی نذرِ آتش کر دیا تھا۔ بیس کے قریب پولیس اہل کار زخمی ہو گئے تھے۔ کئی دنوں تک گھروں سے دھواں اٹھتا رہا کہ تنگ گلیوں کی وجہ سے آگ بجھانے میں کافی مشکل پیش آئی تھی۔ آپ نے اس معاملے میں خصوصی دلچسپی لی تھی۔ پہلے اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو بھیجا تھا پھر خودجوزف کالونی کادورہ کیا تھا۔ شرپسندوں کے ہاتھوں جلائے گئے مکانات کی تعمیرِ نو کا جائزہ لیاتھااور کہا تھاکہ میں اس واقعہ پرمعافی مانگتا ہوں کہ اس ملک میں مسیحی افراد کے اتنے ہی حقوق ہیں جتنے کسی اور مذہب سے تعلق رکھنےوالے افراد کے ہیں۔ اب پہلے یہ خبر پڑھ لیجئے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سو سے زائد گھروں کو نذر آتش کرنے والے 115ملزمان کو ناکافی شواہد اور گواہیوں کی بنا پر بری کر دیا ہے۔ مقدمے میں ملزمان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا لہٰذا ان افراد کو رہا کیا جائے۔ اگرچہ وکیل استغاثہ کا استدلال تھا کہ اس ضمن میں کافی شواہد فراہم کیے گئے ہیں۔ جناب والا!آپ کی توجہ سے مکانات تو دوبارہ تعمیر ہوگئے تھے۔ چرچ بھی نیا بنا دیا گیا تھا۔ یعنی جوزف کالونی کی آگ مکمل طور پر بجھا دی گئی تھی مگر اس فیصلے کے ساتھ اس کالونی میں پھر سے خوف کا ایک الائو جل اٹھا ہے۔ سو اس سمت آپ کی توجہ مبذول کرانا میں اپنا فرض سمجھتا تھا۔
بے شک پانامہ کیس کے مقابلے میں یہ بہت معمولی سا مقدمہ ہے مگر انصاف کی تلاش میں نکلی ہوئی قوم ہو یا ایک مخصوص کمیونٹی ایک ہی بات ہے۔ پانامہ کیس کےحوالے سےمیرا ذاتی خیال ہے کہ جو منی ٹریلز سامنے آرہی ہیں اس نے وزیر اعظم اور ان کی فیملی کےلئے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔ خاص طور پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اقبالی بیان کے قانونی دستاویز قرار پا جانے سے صورتحال خاصی بگڑ گئی ہے۔ اسحاق ڈار کے وکیل نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ بنے تھے اور اِسی گواہی پر انہیں معاف کیا گیا تھا۔ اگر آج وہ اپنی اِس گواہی سے منحرف ہو جاتے ہیں توان پر دوبارہ ان تمام جرائم کا چارج لگانا ضروری ہو جائے گا۔ بے شک اس وقت وہ اقبالی بیان ان کے اپنے مقدمہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ انہیں معافی مل چکی ہے مگروزیر اعظم اور ان کی فیملی کے خلاف وہ اقبالی بیان پوری منی ٹریل کی تفصیل بیان کرتا ہے۔
اس وقت نون لیگ کےلئے بچائو کا واحد راستہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور ان کی فیملی ہے اور شاید یہی نون لیگ کا مستقبل ہے۔ ممکن ہے عدالتی فیصلہ وزیر اعظم اور انکی فیملی کے مکمل طور پر خلاف نہ آئے مگر عوامی طور پر اس کیس نے وزیر اعظم کو جتنا نقصان پہنچادیا ہے۔ انہیں اس کا اندازہ ابھی نہیں ہورہا کیونکہ ابھی وہ اقتدار میں ہیں اور اقتدارتو جلے ہوئے درخت پر بھی ڈال دیا جائے تو وہ سرسبز و شاداب ہو جاتا ہے۔ اقتدار کیا چیز ہوتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا تھا تو ضمنی الیکشن میں انکےصاحبزادے عبدالقادر گیلانی کامیاب ہو گئے تھے ۔
مگر جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی اور انتخابات ہوئے تو لوگوں نے پیپلز پارٹی کو کتنے ووٹ دئیے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ اور یہ اقتدار کا گھوڑا کیسا ہوتا مگر اکثر سواروں کو یہ بات یاد نہیں رہتی کہ کل تک کوئی اور اس کے گھوڑے پر سوار تھا۔ آج کوئی اور ہے۔ یہ گھوڑا ہمیشہ سےبے وفا ہے۔ زیادہ دیر کسی کو بھی اپنی پیٹھ پر بیٹھنے نہیں دیتا۔ یقیناًکل کسی اور کے ہاتھ باگ پر ہونگےاور پرسوں کسی اور کے پاؤں میں رکاب ہو گی۔ افسوس کہ ماضی حال اور مستقبل کے سارے سوارایک ہی قبیلے کے لوگ ہو تے ہیں۔ زر پرستوں کا یہ قبیلہ نظامِ زر کا نگہبان ہوتا ہے۔ ۔ یہ تمام سوارِاشہبِ دوراں صرف اور صر ف سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لئے سر گرم عمل ہوتے ہیں۔ کیونکہ دنیا میں اقتدار کی کوئی اور صورت ممکن ہی نہیں۔ اگر نوع انسانی کی تاریخ پر غور کیا جائے تو ہمیشہ سے زمین پر قوت وطاقت کا اک عہدِ جلیل کارفرما ہے۔ دیوتاؤں کی حکومت یعنی یہی شر کا اقتداربے کنار ہے۔ دن کے جتنے نظریے بھی اِس ظلمتِ شب کے مقابل آئے ہیں۔ زندگانی کے سفر میں اُن کی عمرایک ساعت ہےایک لمحہ ہے ایک پل ہے۔ تمام مذاہب یہودیت سے اسلام تک، اس نظام سے بغاوت کی تمام تحریکیں مزدکیت سے اشتراکیت تک طویل ترین انسانی تاریخ میں ان کی حیثیت چند لمحوں کے ہی برابر ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا جیسے سچ یہی ہے کہ
موت آتی ہی نہیں ہے اس نظامِ ظلم پر
ہے قرارِ دائمی شاید مقامِ ظلم پر




.
تازہ ترین