• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک شخص اپنے دوست کو بتا رہا تھا کہ میرے والد صاحب سرکاری ملازم ہیں، وہ رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے جس کی وجہ سے انہیں جیل جانا پڑا، اتنا کہہ کر بات بتانے والا خاموش ہو گیا، سننے والے نے کہا کہ میں نے تو آج خود تمہارے ابا جان کو گلی میں دیکھا ہے اور تم جھوٹ بول رہے ہو کہ وہ جیل میں ہیں ؟ بس یار اباجان رشوت لینے کے جرم میں جیل گئے تھے، لیکن رشوت دے کر جیل سے باہر آگئے۔ اسپین، فرانس، انگلینڈ،بلجیم، ہالینڈ، جرمنی، اٹلی، پرتگال، آسٹریا،ناروے، ڈنمارک، سویڈن اور دوسرے یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی وہاں کوشش کرتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے جگ ہنسائی ہو، پاکستان اور اسلام کا وقار مجروح ہو اور یہاں کے مقامی معاشرے میں اُن کو بری نظر سے دیکھا جائے۔ کچھ ناسمجھ پاکستانی نوجوان کبھی کبھار مقامی روٹس پر چلنے والی بسوں اور میٹرو ٹرین میں اپنا ’’کھلنڈرا پن ــ‘‘ دکھاتے ہوئے بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہیں تو اُن کو یہ خوف رہتا ہے کہ اگر ٹکٹ چیکر نے پکڑ لیا تو جرمانہ ہو گا اور بس یا ٹرین میں سوار تمام مسافر دیکھیں گے کہ ایک پاکستانی بغیر ٹکٹ سفر کرتا پکڑا گیا ہے، یہی خوف اور تذلیل پاکستانیوں کو دوسرے ممالک میں منفی کاموں سے دور رہنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور اُن کے وفد کے دورہ ڈیووس سوئٹرزلینڈ پر بہت خوش تھے، یورپی ممالک سے بہت سے پاکستانی سوئٹرز لینڈ اپنے وزیراعظم کی ایک جھلک دیکھنے پہنچے تھے۔ دورہ ڈیووس کے دوران وزیر اعظم نے ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کرنا تھا لیکن انہیں خطاب نہیں کرنے دیا گیا۔ انہیںخطاب کرنے سے اِس لئے روک دیا گیا کہ اُن پر کرپشن کے الزامات ہیںجن پر تحقیقات ہو رہی ہیں۔ دی ٹائمز کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے دورہ ڈیووس پر اپنی آسائش کے لئے لاکھوں ڈالرز خرچ کئے لیکن نہایت اہم ورلڈ اکنامک فورم کی انتظامیہ نے کرپشن الزامات کی وجہ سے وزیراعظم کوتقریب سے خطاب کی اجازت نہیں دی۔یہ بھی لکھا گیا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے ڈیووس میں محض سری لنکا کے ہم منصب سے ملاقات کی جس کے بعد وہ کسی بھی رہنما سے ملاقات یا کسی اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے۔ وزیر اعظم کے اس دورے کے دوران پاکستان کی جگ ہنسائی ہونے پر پاکستانی عوام کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک میںتارکین وطن پاکستانی بھی شدید غم و غصے کا شکارہیں۔ وزیر اعظم کے وفد میں شامل سابق چیف آف آرمی راحیل شریف نے نہ صرف فورم میں شرکت کی بلکہ انہوں نے کئی تقریبات اور مباحثوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ خطاب بھی کیا۔ ورلڈ اکنامک فورم ہر سال منعقد ہوتا ہے جس میں مختلف ممالک کے سربراہان شرکت کرتے ہیں، اس کے حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ فورم کی انتظامیہ کی طرف سے وزیر اعظم کو کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا تھا لیکن اس کے باوجود وہ لاکھوں ڈالرز خرچ کرکے ڈیووس پہنچ گئے،وفد کے ہمراہ سوئٹزر لینڈ کے فائیو اسٹارہوٹلزمیں قیام پذیر رہے اور صرف صحافیوں سے بات کرکے لندن روانہ ہو گئے۔ وزیر اعظم پاکستان ڈیووس روانہ ہونے سے پہلے اپنی تقریر تیار کروا چکے تھے مگر انہیں وہ دھواں دار تقریر سُنانے کی اجازت نہیں ملی، وقت کی کمی یا کسی اور وجہ سے اجازت نہ ملتی تو کوئی بات نہیں تھی، لیکن وزیر اعظم پر کرپشن کے الزامات ہونے کی وجہ سے تقریر سنانے کا موقع نہیں دیا گیا حالانکہ ان کی ساری تقریر کرپشن کے خلاف تھی، ستم ظریفی یہ کہ وزیر اعظم کے معاون نے بھی دورہ ڈیووس پر بات کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ا سپین اور دوسرے یورپی ممالک کی مقامی کمیونٹی پاکستانیوں سے اُن کے ملکی حالات کے بارے میں سوال و جواب کرتی رہتی ہے، کبھی تو بے نظیر کے قاتلوں کوابھی تک گرفتار نہ کئے جانے کے بارے میں بات ہوتی ہے، کبھی بے نظیر کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو پولیس کی گولیوں سے ماردئیے جانے کےبارے میں پوچھا جاتاہے، کبھی سوال ہوتا ہے کہ’’ مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کو پاکستانی عوام نے ملک کا صدرکیونکر بنا یا تھا۔ دس سال جلا وطن رہنے والی شخصیات پاکستان میں واپس آکراتنی امیر کس طرح بن گئیں، سیاسی پارٹیوں کو کرپشن اور عوام دشمن ہونے جیسے الزامات کے باعث چھوڑ جانے والے واپس اُسی پارٹی کو کس طرح ’’جوائن ‘‘کر لیتے ہیں۔ کبھی ’’ دھرنا ‘‘ دئیے جانے اور کبھی’’ دھرنا ‘‘ کن شرائط یا سودے بازی کے تحت اٹھایا جاتا ہے جیسے سوالات زیر بحث رہتے ہیں۔ یہاں تک پوچھا جاتا ہے کہ جب اسلام آباد کی سڑکوں پر لوگ پولیس کے ڈنڈے کھا رہے تھے تب اُن کا لیڈر اُوپر پہاڑی پر بنے اپنے گھرسے نیچے کیوں نہیں اُترا،کچھ دن قبل پاکستان کی قومی اسمبلی میں جو طوفان بدتمیزی بپا ہوا اُس کا تذکرہ بھی کافی دفعہ شامل گفتگو رہا، مقامی کمیونٹی نے ہمیں تمسخرانہ انداز میں مشورہ دیا کہ پاکستانی عوام کو چاہئے کہ وہ ان پڑھ اور جاہل افراد کی علیحدہ اسمبلی بنا دیں تاکہ وہاں جس کا جی چاہے وہ اپنے ہاتھوں کی طاقت استعمال کر لیا کرے۔ آج کل یورپی مقامی کمیونٹی پاکستانی کمیونٹی سے ’’ چھیڑ چھاڑ ‘‘ کرتے ہوئے دورہ ڈیووس کو زیر بحث لا رہی ہے،کمیونٹی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سابق وزراعظم کے ساتھ ساتھ موجودہ وزیر اعظم بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں،یہ لوگ آئندہ الیکشن میں کیسے عوام سےووٹ مانگیں گے ؟




.
تازہ ترین