• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہد کی مکھی تو یقیناً آپ نے دیکھی ہو گی، یہ مکھیاں جہاں اپنا چھتا بناتی ہیں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پھولوں کا مقام اس سے کئی میل دور ہوتا ہے۔ ایک پھول میں بہت تھوڑی مقدار میں رس ہوتا ہے اس لئے بھی اس کو بہت دور تک جانا پڑتا ہے کہ بہت سے پھولوں کا رس چوس کر اپنی مقدار حاصل کرسکے۔ شہد جمع کرنے والی مکھی سارا دن اڑانیں بھرتی ہے تاکہ وہ ایک پھول کا رس نکالے اور اس کو لاکر اپنے چھتے میں جمع کرے۔ مشاہدہ بتاتا ہےکہ شہد کی مکھی صبح جب اپنے پہلے سفر پر نکلتی ہے تو اندھیرے میں روانہ ہوتی ہے مگر شام کو جب پھولوں کے مقام سے وہ اپنی آخری باری کیلئے چلتی ہے تو اس کایہ سفر نسبتاً اجالے میں ہوتا ہے، پہلی بار کیلئے اندھیرے میں چلنا اور آخری باری کیلئے اجالے میں سفر شروع کرنا کیوں لازم ہوتا ہے اس کی وجہ دونوں وقتوں کا فرق ہے۔ صبح کے وقت سفر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اندھیرے سے اجالے کی طرف بڑھ رہی ہے جبکہ شام کے سفر کا مطلب اجالے سے اندھیرے کی طرف جاتا ہے۔ شہد کی مکھی وقت کے اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھتی ہے اور اس کی پوری رعایت کرتی ہے۔ شہد کی مکھی اپنے طویل سفر کو چونکہ سورج کی روشنی ہی میں صبح صبح انجام دے سکتی ہے۔ اندھیرے میں اس کا امکان رہتا ہے کہ وہ بھٹک جائے اور اپنی منزل پر نہ پہنچے۔ اس لئے صبح کو وہ اپنی پہلی باری اندھیرے میں شروع کرتی ہے کہ وہ جانتی ہے اگلے لمحات اجالے کے لمحات ہوں گے۔ اس کے برعکس شام کو اپنی آخری باری کیلئے وہ اجالا رہتے ہوئے چل پڑتی ہے کہ وہ جانتی ہے کہ جتنی دیر ہوگی اتنا ہی اندھیرا بڑھتا چلا جائےگا۔ یہی حال قوموں، ملکوں، اداروں اور معاشروں کا ہے۔ زندگی میں ہمارا ہر قدم حقائق کی بنیاد پر اٹھنا چاہئے نہ کہ خوش فہمیوں اور موہوم امیدوں کی بنیاد پر آنے والے لمحات کبھی ’’اندھیرے‘‘ کے لمحات ہوتے ہیں اورکبھی اجالے کے لمحات۔ اگر اس فرق کی رعایت نہ کی جائے اور آنے والے لمحات کا لحاظ کئے بغیر بے خبری میں سفر شروع کردیا جائے تو آنے والا لمحہ ہماری رعایت نہیں کرے گا وہ اپنے نظام کے تحت آئے گا نہ کہ ہماری خوش فہمیوں کے تحت نتیجہ یہ ہوگا کہ کبھی ہم یہ سمجھیں گے کہ ہم روشن مستقبل اور شاندار انجام کی طرف بڑھ رہے حالانکہ اگلا لمحہ جب آئے گا تو معلوم ہوگا کہ ہم صرف اندھیروں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ آج ملک عزیز میں جس گھٹا ٹوپ اندھیرے کا ذکر بار بار ہورہا ہے وہاں ہر آدمی کسی نہ کسی مصنوعی فخر، ناز یا برتے پر جی رہا ہے کسی کو یہ ناز ہےکہ اس کے ۚپاس اقتدارہے کوئی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ کسی کو یہ ناز ہے کہ اس کے پاس مذہب کا ہتھیار ہے جیسے چاہے اسے استعمال کرے کسی کو یہ ناز ہے کہ اس کے پاس مال و دولت کے انبار ہیں اس کا کوئی کام اٹکا ہوا نہیں رہ سکتا کسی کو یہ ناز ہے کہ اس کا اپنا حلقہ و برادری ہے جو ہر موقع پراس کی مدد کیلئے کافی ہے کوئی کسی جماعت سے وابستہ ہے اور کوئی کسی ادارہ سے۔ کوئی عوامی قافلہ میں شریک ہے تو کوئی سرکاری قافلہ میں۔ غرض ہر ایک خود کو کسی نہ کسی سہارے پر کھڑا کئے ہوئے ہے۔ اور اس کے سہارے پر جی رہا ہے۔ یہی ناز اسے صحیح بات سمجھنے سے روکتا ہے جب کوئی کھلے دلائل کے ساتھ اس سے بحث و مباحثہ کرتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ ان دلائل کا کوئی حقیقی جواب اس کے پاس نہیں ہے مگر اس کے باوجود وہ اس کو نہیں مانتا اس کا غرور اس کو جھوٹے بھروسے کی نفسیات میں مبتلا رکھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں اس کے دلائل کو نہ مانوں گا تو میرا کچھ بگڑنے والا نہیں۔ دلائل کے اعتبار سے خالی ہوکر بھی وہ اپنے جھوٹے سہارے کو مضبوطی سے تھامے رہتا ہے مگر جب سر پر پڑےگی تو معلوم ہوگا کہ یہ سارے ’’سہارے‘‘ بالکل بے حقیقت تھے۔ جھوٹے سہاروں پر جینے والے آخر میں بالکل بے سہارا ہو کر رہ جائیں گے۔ حقائق سے آنکھیں چرانے والوں پر بربادی ٹوٹ پڑے گی اور کوئی بھی چیز نہ ہوگی جو ان کو اس سے بچانے والی ثابت ہو۔ بالٹی کے پیندے میں سوراخ ہو اور اوپر سے آپ اس میں پانی ڈالیں توسارا پانی بہہ نکلے گا اور بالٹی کے اپنے حصے میںکچھ نہیں آئے گا ایسا ہی معاملہ قوموں اور معاشروں کا ہے آدمی کا وہی عمل حقیقتاً عمل ہے جو خود اس کو کچھ دے رہا ہو اگر آدمی بظاہرسرگرمیاں دکھا رہا ہو اور اس کااپنا وجود کچھ پانےسے محروم رہے تو اس کی سرگرمیوں کی کوئی حقیقت نہیں، عمل وہی عمل ہےجس کے دوران آدمی کے ذہن میں شعور کی چنگاری بھڑکے۔ اس کے دل میں سوز و تڑپ کا کوئی لاوا ابلے۔ اس کی روح کے اندر کوئی کیفیاتی ہلچل پیدا ہواس کے اندرون میں کوئی ایسا حادثہ گزرے جو برتر حقیقتوں کی کوئی کھڑکی اس کے لئے کھول دے وہ کسی ایسے طوفان سے آشنا ہو کہ اس کے بحر کی موجوں میں اضطراب پیدا کردے۔ یہی یافت کسی عمل کی کامیابی کا اصل معیار ہے وہی عمل عمل ہے جو آدمی کو اس قسم کے تحفے دے رہا ہو جس عمل سے آدمی کو یہ چیزیں نہ ملیں وہ ایسے ہی جیسے سوراخ دار بالٹی میں پانی گرانا۔ ایک اندھا چلتے چلتے کنویں کے کنارے پہنچ جاے تو ہر آدمی جانتا ہے کہ اس وقت سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اس کو کنویںکے خطرے سے آگاہ کیا جائے مگر کیسی عجیب بات ہے کہ سارا ملک، ساری قوم اس سے بھی زیادہ خطرناک ’’کنویں‘‘ کے کنارے کھڑی ہوئی ہے مگر ہر آدمی دوسرے کاموں میں لگا ہواہے کوئی شخص ’’کنواں کنواں‘‘ پکارنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا حتیٰ کہ اگر کوئی دیوانہ اس قسم کی پکار بلند کرے تو لوگوں کی طرف سے جواب ملتا ہے۔ ’’یہ شخص قوم کو بزدلی کی نیند سلانا چاہتا ہے، وہ حقیقی مسئلہ سے لوگوں کو ہٹانا چاہتا ہے وہ غازی اور شہید کے راستوں سےبھٹکانا چاہتاہے۔ وہ مایوسی اور بے ہمتی کا سبق دے رہا ہے‘‘۔
لوگ کنویں کے کنارے کھڑے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ محفوظ مکان میں ہیں لوگ موت کی طرف بڑھ رہے ہیں مگرخوش ہیں کہ وہ زندگی کا سفر طے کررہے ہیں۔




.
تازہ ترین