• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فن خطابت میں پانچ اصولوں کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ پہلی خصوصیت ’’برہان‘‘ جس کا استعمال عموماً حکمت و فلسفہ کی بحثوں میں کیا جاتا ہے۔ دوسری خصوصیت ’’جدل‘‘ جس کی مدد سے دلائل کو مضبوط بنایا جاتا ہے۔ تیسری خصوصیت ’’سفسطہ‘‘ جس کے ذریعے مغالطوں یا غلطیوں کی مختلف صورتوں کو ظاہر کرکےغلطیوں سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ چوتھی خصوصیت ’’خطاب‘‘ یعنی اپنی بات دوسروں سے منوانے کا طریقہ اور پانچویں خصوصیت ’’شعر‘‘ جس کے ذریعے تخیلات اور ذوقیات کے ذریعے نفسِ انسانی پر اثرانداز ہونا ہوتا ہے۔ کسی بھی خطیب کے لئے انسانی نفسیات سمجھنا بے حد ضروری ہے اور ایک خطیب صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے جب اندازِ بیان شگفتہ ہو اور عوام اور خواص دونوں کو متاثر کرسکے۔ کامیاب تقریر کے لئے مقرر کی شخصیت اور خصوصیات بڑا ہم کردار ادا کرتی ہیں اور برجستہ اور فی البدیہہ تقریر صرف اسی صورت میں کامیاب رہتی ہے جب مقرر کو اپنےآپ پر مکمل اعتماد ہو اور ذرہ بھر بھی تذبذب کا شکار نہ ہو۔
جب ہم ان تمام نکات کی جانب توجہ کرتے ہیں تو موجودہ حالات میں ہمیںصرف ایک ہی ایسا رہنما دکھائی دیتا ہے جس نے اپنے عوام کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہو اور اپنی خطابت کے سحر میں مبتلا کر رکھا ہو۔ ایردوان نےاستنبول بلدیہ کے مئیرہونے کےدوران جو اشعار پڑھے تھے،ان اشعار سے نہ صرف تمام ایوانوں کے در و دیوار ہل کر رہ گئے تھے بلکہ پورے ترکی میں بھونچال سا آگیا تھا۔ ان اشعار نے عوام کے جذبات کو آگ لگا دی تھی اور عوام اُس وقت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی) کے بانی رہنما ایردوان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے جوق در جوق آق پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے ترک سیاست کا دھارا ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اُس وقت ترکی کی سیاست میں ابھرتے ہوئے اِس نوجوان رہنما رجب طیب ایردوان کے اشعار جو انہوں نے ترکی کے جنوب مشرقی صوبے ’’سیرت‘‘ میں پڑھے تھے اور جن کی وجہ سے ان کوجیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا تھا،ان میں چند ایک اشعار کا ترجمہ درجہ ذیل ہے۔
گنبد ہماری جنگی ٹوپیاں ہیں
مسجدیں ہماری فوجی چھاؤنیاں ہیں
صالح مسلمان ہمارے سپاہی ہیں
کوئی دنیاوی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی
میرے بھائیو! چاہے وہ توپیں لائے
یا ٹینک سیدھے کرے
کبھی بھی ایمان کے قلعے کو روند نہیں سکے گا
قارئین کے لئے یہ بات قابلِ توجہ ہے کہہ رجب طیب ایردوان نے اپنی تعلیم ترکی کے ایک جدید اور عام اسکول سے ہٹ کر ایک ایسے اسکول سے حاصل کی جس کو ’’امام خطیب‘‘ اسکول کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور اس کی سب سے اہم خصوصیت اس اسکول میں مذہبی تعلیم جس میں قرات،ناظرہ اور تفسیر بھی شامل تھی، کے ساتھ ساتھ ترکی کے عام اسکولوں میں دی جانے والی تمام مضامین کی جدید تعلیم سے بھی بہرہ مند کیا جاتا تھا۔ ترکی کے موجودہ صدر ایردوان نے امام خطیب اسکول کی جانب سے دی جا نے والی ان سہولتوں کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور اپنے فنِ خطابت کو پروان چڑھانا شروع کردیا۔ جب آپ ترکی کی سیاست پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں ترکی کی سیاست میں خطابت کے لحاظ سے عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے اورخطابت کے سحر میں کھینچنے کے لحاظ سے ایسا کوئی لیڈر نظر نہیں آتا ہے جس کا مقابلہ صدر ایردوان سے کیا جاسکتا ہو۔ اگرچہ ترکی کی سیاست میں بڑے بڑے سیاسی رہنما گزرے ہیں (اس کیٹیگری میں جدیدترکی کے بانی غازی مصطفیٰ کمال اتاترک کو شامل نہیں کیا جا رہا ہے) جن میں عصمت انونو، عدنان میندریس، جلال بایار، سلیمان دیمرل، بلنت ایجوت، ترگت اوزال، نجم الدین ایربکان، دینز بائیکال، آلپارستان ترکش اور کمال کلیچدار اولو شامل ہیں،اپنے فنِ خطابت کے لحاظ سے ایردوان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔ ایردوان کو ان تمام رہنماؤں پر اس لئے فوقیت حاصل ہے کہ ایردوان اپنے تمام خطابات میں حالات کے مطابق اشعار پڑھنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ ان کو ہزاروں کی تعداد میں اشعار زبانی یاد ہیں۔ خطابت دراصل لہجے کے اتار چڑھاؤ، آواز کے زیروبم اوراحساسات کے مدوجزرکانام ہےجس سے ایردوان پوری طرح آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مد ِ مقابل تمام رہنما جو خطابت کی نعمت سے محروم ہیں،کو عوام کی جانب سے بھی پذیرائی حاصل نہیں ہو پاتی ہے۔ خطابت کی گوہر فشانیوں جامع ومانع،علمی،فکری اورسائنٹفک خطبات سے اپنے سامعین کووہی محظوظ کرسکتا ہے جونہایت بالغ نظررہنما ہو اور جسے عوام اور اپنے سامعین کے حالات سے پوری پوری آگاہی حاصل ہو۔ترکی کے صدر کھلے میدانوں میں جب عوام سے خطاب کرتے ہیں تو پھر عوام کے اذہان کے بنددریچے کھلتے چلے جاتے ہیں۔وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں عوام اس سے پوری طرح آگا ہ ہو جاتے ہیں اور پھر بہتے سمندر کی طرح ان کے ساتھ بہتے ہی چلے جاتے ہیں اور پھر ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ بننے کی جسارت ہی نہیں کرسکتا۔ایردوان اپنی خطابت میں صوتی آہنگ کابڑا خیال رکھتے ہیں اوراپنی آواز کے اتار چڑھاؤ سے عوام کے جذبات کو ابھارنے، تلاطم برپا کرنے اور پھر ان کو اپنے مقاصد کی جانب مائل کرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ کون سی بات کس لہجے میں کہنی ہےیہ ان ہی کا خاصہ ہے۔ خطابت کی ایک اہم خوبی شائستگی اورشستگی بھی ہوتی ہے۔یہ وہ خوبی ہے جوخطیب کے فکرومزاج کاآئینہ ہوتی ہے۔اس آئینے میں خطیب کی شخصیت کے سارے خدوخال پوری طرح نمایاں ہوجاتے ہیں۔ایردوان عوام کے جذبات کو اپنے جذبات ہی سمجھ کر خطاب کرتے ہیں اور پھر عوام اور سامعین ان کے سحر میں خودبخود اترتے چلے جاتے ہیں۔ ان کو صوتی آہنگ پر اس قدر ملکہ حاصل ہے کہ کہیں دھیمےپن سے اور کہیں گرج دارآواز میں اپنے مخالفین کو پچھاڑ دیتے ہیں۔ ترکی میں مخالفین اور دیگر سیاسی رہنما ؤں کو اس وقت تک اپنی دال گلتی ہوئے دکھائی نہیں دےرہی جب تک ترکی کی سیاست میں رجب طیب ایردوان جیسی ہستی موجود ہے۔ترکی یا پھر دنیا کے کامیاب ترین لوگوں کی فہرست اٹھاکر دیکھ لیں صرف ان ہی رہنماؤں کو پذیرائی حاصل ہوتی ہے جن میں تخلیق کرنے، نیا وژن اجاگر کرنے، علم وفکرکےسمندر میں اترنے اور عوام کو حالات کے مطابق ڈھالنے کی پوری پوری صلاحیت موجود ہو اور اسی صلاحیت سے اللہ تعالیٰ نے رجب طیب ایردوان کو پوری طرح بہرہ ور کررکھا ہے۔ ایردوان کوصرف ترکی ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں موجودہ دور کا عظیم ترین خطیب سمجھا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ملک کی قیادت وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے اندردیگرخوبیوں کے ساتھ ساتھ خطابت کاملکہ بھی ہواسی لئے کہاجا تا ہے کہ قیادت،خطابت کی کنیزہے۔





.
تازہ ترین