• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گمشدہ ’’بلاگرز‘‘ میں سے تین واپس گھر پہنچ گئے بلکہ ان میں سے دو تو ملک سے باہر بھی روانہ ہو گئے لیکن نہ حکومت نے بتایا نہ کسی اور نے کہ اُن پر الزامات کیا تھے، انہیں کیوں پکڑا گیا اور پھر کس وجہ سے چھوڑا گیا۔ فوج کے ترجمان نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ فوج کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ منگل کے روز چند اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ گمشدہ ’’بلاگرز‘‘ کے خلاف ایف آئی اے نے blasphemyکے قانون کے تحت ایف آئی آردرج کر لی لیکن اس بارے میں بھی کنفیوژن رہی کہ آیا ایسا ہوا بھی ہے کہ نہیں ۔ اسی دوران وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ان خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بغیر تفتیش کے ایف آئی اے نے یہ ایف آئی آر کیسے درج کر لی۔ چوہدری نثارکا کہنا تھا ’’بلاگرز‘‘ اور اُن کے خاندان کے لوگ پہلے ہی مشکل صورتحال سے گزر رہے تھے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کس نے ایف آئی اے کو اختیار دیا کہ وہ ان کی پریشانی میں اضافہ کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تعین کیا جائے کہ ایف آئی اےاس مسئلہ میں کیوں ’’غیر ضروری‘‘ طور پر مستعد اور فعال ہوئی۔ مہربانی ہو گی اگر وزیر داخلہ صاحب خود اس معاملے سے متعلق کنفیوژن کلیئر کر دیں۔ سب سے اہم اور بنیادی بات حکومت کو جو کلیئر کرنی ہے وہ اُن الزامات کے متعلق ہے جو ان گمشدہ افراد کے متعلق میڈیا اور سوشل میڈیا میں لگائے گئے۔ اگر یہ الزامات جھوٹے تھے تو حکومت کو اس بات کا باقاعدہ اعلان کرنا چاہیے اور اگر لگائے گئے الزامات درست تھے تو حکومت بتائے کہ اُس نے مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کیوں نہ کی۔ Blasphemy سے متعلق الزامات کا معاملہ سنگین نوعیت کا ہے۔ ایسے الزامات اگر کسی بے قصور فرد پر لگیں اور اُس معاملہ میں ریاست خاموش رہے تو ایسی صورتحال متعلقہ افراد اور اُن کے خاندانوں کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف اگر ایسے الزامات کسی فرد کے خلاف تحقیقات میں درست پائے جائیں اور اس کے باوجود اُسے چھوڑ دیا یا ملک سے بھگا دیا جائے تو یہ معاملہ بھی کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتاکیوں کہ ایسے افراد کو عدالت کے سامنے پیش کر کے نشان عبرت بنایا جانا چاہیے۔ گویا نہ تو کسی معصوم پر یہ سنگین الزام لگایا جائے اور نہ ہی گستاخی کے جرم میں ملوث کسی ملزم سے کوئی رعایت برتی جائے۔ اسی اصول کے تحت حکومت اور وزیر داخلہ کو اس پورے معاملہ میں اپنی خاموشی توڑنی چاہیے اور واضح انداز میں میڈیا کے ذریعے بتائیں کہ یہ سارا معاملہ کیا تھا۔ کیا گمشدہ افراد واقعی ’’بلاگرز‘‘ تھے ؟؟؟ کیا ان میں سے کسی کا بلواسطہ یا بلاواسطہ سوشل میڈیا کے اُس مواد سے تعلق تھا جوگستاخانہ نوعیت کا تھا اور جسے ان کے ساتھ جوڑا گیاتھا؟؟’’بھینسا، روشنی اور موچی نامی فیس بک پیج یا ٹویٹر اکائونٹس کا کس سے تعلق تھا اور ان میں سے کون واقعی گستاخانہ مواد سوشل میڈیا میں شیئر کرتا رہا؟؟؟ یا ان گمشدہ افراد کو اس لیے اُٹھایا گیا تھا کیوں کہ انہوں نے مبینہ طور پر کوئی ملکی مفاد کے خلاف کام کیا؟؟ فوج نے تو کہہ دیا کہ اُس کا اس معاملہ سےکوئی تعلق نہیں تو پھر وزیر داخلہ یہ بھی بتا دیں کہ کس نے ان افراد کو گمشدہ کیا۔یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے حکومت کو دینے چاہیں۔ایسے معاملات میں کنفیوژن کے غلط نتائج نکل سکتے ہیں۔ چونکہ’’بلاگرز‘‘ کی گمشدگی کے معاملے کومیڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بہت اچھالا گیا، ایک طرف اُن کے حق میں باتیں کی گئیں تو دوسری طرف اُن کے متعلق سنگین الزامات بھی لگائے گئے تو اس صوتحال میں بہتر یہ ہو گا کہ حکومت اس معاملہ کے پورے حقائق کو عوام کے سامنے کھول کر رکھ دے۔ یہاں میں حکومت، وزیر اعظم ، وزیر داخلہ، سینیٹ چیئرمین، کچھ دوسرے سیاستدان ، سول سوسائٹی اور میڈیا سے بھی ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا وجہ ہےکہ آپ تمام لوگوں نے جو دلچسپی ان پانچ گمشدہ ’’بلاگرز‘‘ کی واپسی کے لیے دکھائی اُس کا مظاہرہ اُن سیکڑوں گمشدہ افراد کے لیے کبھی نہ کیا جو سالہاسال سے گمشدہ ہیں۔ گمشدہ گمشدہ میں یہ فرق کیسا اور کیوں۔

.
تازہ ترین