• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے خودساختہ مجبوری کے تحت 1980میں پہلی بار ملک سے باہر قدم رکھا اور پھر چل سو چل کہ وہاں بھی جانکلے جہاں کوئی مفت جانے سے بھی معذرت کرلے کہ ماشا اللہ کئی ملک اتنے ہی ’’منحوس‘‘ تھے لیکن میں نے آج تک کسی ملک کے کسی باشندے کو کرنسی نوٹ کھاتے چباتے نہیں دیکھا۔ میں نے بیشمار قسم کی قومیتوں کے ساتھ انٹرایکٹ، انٹرفیس بھی کیا لیکن کبھی کسی کو ڈالر، جرمن مارک، پائونڈ، ین، بھات، روپیہ، درہم، لیرا، ریال، دینار، روبل، ٹکا وغیرہ نوش جان فرماتے نہیں دیکھا۔ حلفاً عرض کروں کہ اگر سفرنامے لکھنے کا شوق ہوتا تو اب تک بیس تیس کلو دلچسپ ردّی تو میں بھی پیش کر ہی چکا ہوتا لیکن برا ہو میرے مستنصرحسین تارڑ کا جس نے اس کام میں کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ سفر کو امر کر دیا۔ تو گزارش صرف اتنی ہے کہ میں نے دنیا بھر میں کبھی کسی کو کرنسی نوٹ تناول فرماتے نہیں دیکھا تو اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے کہ کرنسی خود کوئی شے نہیں، کرنسی خود کوئی منزل یا Endنہ ہوتی ہے نہ ہوسکتی ہے کہ یہ تو صرف مختلف ’’منزلوں‘‘ تک پہنچنے کا ایک ’’ذریعہ‘‘ ہوتی ہے۔ دولت بنانے کمانے والا دراصل دولت کے ذریعے عزت، آبرو، سکون، تحفظ، پہچان، سکھ ، آسودگی، انا کی تسکین وغیرہ کا متمنی ہوتا ہے یا اپنی چند نسلوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانا چاہتا ہے ورنہ نہ فورڈ کی چھت سونے کی تھی نہ راک فیلر کا فرش پلاٹینم کا تھا نہ بل گیٹس کے فرائیڈ انڈے کی زردی سونے کی ہوتی ہے نہ کبھی کوئی چاندی کی ڈبل روٹی پر مریخ کا شہد اور چاند کا پنیر لگا کر کھا سکا اور تو اور قارون کے خزانے بھی اسے زیرزمین جانے سے نہ روک سکے۔ میں دولت کی اہمیت سے ہرگز ہرگز انکار نہیں کر رہا صر ف یہ بتانے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں کہ دولت بہت کچھ ہے..... سب کچھ ہرگز نہیں۔ آپ اس سے قیمتی ترین بستر خرید سکتے ہو پرسکو ن نیند نہیں، آپ اس سے حسن و جمال کے شہکار خرید سکتے ہو وفا نہیں، کتابیں خرید سکتے ہو علم نہیں، لباس خرید سکتے ہو سترپوشی نہیں کہ کچھ لوگ قیمتی ترین لباس میں بھی ننگے ہوتے ہیں، آپ اعلیٰ ترین خوراک خرید سکتے ہو ہاضمہ نہیں، نظارے خرید سکتے ہو  نظر نہیں، منصب خرید سکتے ہو عزت نہیں، چمچے خرید سکتے ہو جینوئن چاہت نہیں لیکن ان شاعرانہ باتوں کو چھوڑیں اور صرف اتناسوچیں کہ اگر دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بکھری دولت کے ڈھیروں کے باوجود آپ کی عزت، آبرو، سکون، احترام پر سوالیہ نشان لگ جائیں تو یہ کیسا سودا ہے؟ یہ تجارت نفع میں گئی یا نقصان میں؟ اور نقصان بھی ایسا جو نسلوں تک پیچھا نہیں چھوڑتا اور سائے کی مانند نسل در نسل آپ کے ساتھ چلتا ہے۔ یہاں میں ایک ذاتی تجربہ اور دلچسپ کہانی آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔ میں لائل پور (حال فیصل آباد) میں چھٹی یا شاید ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا جب پورے شہر میں ’’حاجی بلیکئے‘‘ کا نام گونجنے لگا۔ یہ صاحب جو کوئی بھی تھے اس سے پہلے ’’حاجی جیرے‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے لیکن ’’حاجی بلیکیا‘‘ بنتے ہی ان کی شہرت کو پر لگ گئے، نام کے ڈنکے بجنے لگے۔ ان کی وجۂ شہرت یا وجۂ بدنامی جو یاد آرہی ہے کا تعلق راشن ڈپوز پر آٹا چینی کی بلیک تھی جس سے انہوں نے خوب مال بنایا اور خاصے متمول ہوگئے۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ میں انٹرمیڈیٹ کے بعد بطور انڈر گریجویٹ نیوکیمپس لاہور آگیا اور اس نام ’’حاجی بلیکیا‘‘ پر اس کے کارناموں سمیت پچاس پچپن سال کی گرد جم گئی لیکن ابھی چندہفتے پہلے لائل پور سے ہمارے ایک صوبائی وزیر کا کسی مقامی بڑے کاروباری گروپ کے ساتھ پھڈا پڑ گیا تو پچاس پچپن سال بعداچانک ایک بارپھر ’’حاجی جیرا‘‘، ’’حاجی بلیکیا‘‘ کے نام کی گونج سنائی دی تو میرے اندر کا ناسٹیلجیا پوری طرح بیدار ہوگیا۔تب میں نے لائل پور فون کرکے بچپن کے ایک دوست سے پوچھا تو اس نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ہمارے وزیرکا جس ’’گروپ آف انڈسٹریز‘‘کے مالکان سے جھگڑا ہوا وہ حاجی صاحب مرحوم کی اولادہے۔ میں سن ہو کر رہ گیااور دیر تک سوچتا رہا کہ شہرت یا بدنامی پچپن سال بعد بھی اس گھرانے کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی حالانکہ اس وقت یہ سب معززین بچے ہی ہوں گے۔ دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ ان زمانوں میں راشن ڈپوز کا کام تھا ہی ایسا کہ کوئی نیک نام بھی یہ کام کرتا تو بدنام ہو جاتا۔ عرض کرنےکامقصد یہ کہ دولت اچھی چیز ہے لیکن کس قیمت پر!وہ لوگ بدنصیب ہوتے ہیں جو کوئی بھی شے کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا چاہتے ہیں "At every cost" پر کوئی بھی ٹارگٹ حاصل کرنے کا یہ رویہ احمقانہ بلکہ مجنونانہ ہے۔ بہت سی بے عزتی کے بدلے تھوڑی سی عزت سراسر نقصان کا سودا ہے۔ اسی طرح آبرو اور وقار کے عوض ملنے والی دولت بھی لعنت سے کیا کم ہے جو نسل در نسل کسی کے شجرہ ٔ نسب کا حصہ بن جائے لیکن لوگ پھر بھی باز نہیںآتے۔ Publius Syrus نے کہا تھا"No good man became suddenly rich."Robert Ingersoll نے تو قصہ ہی تمام کردیا۔"Few rich men own their own property, the property owns them."اور سبحان اللہ کیا جملہ ہے۔"Make no mistake, my friened, it takes more than money to make men rich."واقعی دولت مندہونے کے لئے دولت کے علاوہ بھی بہت کچھ درکار ہے مثلاً عزت، احترام، نیک نام، زندہ ضمیر، دیانت، ساکھ اور صاف ستھرا امیج لیکن کچھ لوگ دولت کے لئے کوئی بھی قیمت چکا سکتے ہیں۔



.
تازہ ترین