• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جوں جوں تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر پابندی کا عرصہ طویل ہوتا جا رہا ہے، توں توں ہر سطح پر اور ہر شعبے میں قیادتیں زوال پذیر ہیں۔ اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، علی گڑھ یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج پشاور اور لاہور کے طلبہ کا پاکستان کی تشکیل میں کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ پاکستان بن جانے کے بعد تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی صورت میں طلبہ کی منتخب حکومتیں وجود میں آتی، طلبہ کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتی اور انہیں جمہوریت اور تہذیب کے آداب سکھاتی رہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی چند تنظیمیں تعلیمی اداروں میں طاقت پکڑتی گئیں۔ ان میں اسلامی جمعیت طلبہ اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن قابلِ ذکر تھیں۔ ستّر اور اسّی کی دہائیوں میں ان کے اندر تشدد کا عنصر پرورش پانے لگا اور جنرل ضیاء الحق نے ان پر پابندی عائد کر دی۔ تب سے بیشتر تعلیمی اداروں میں بظاہر امن قائم ہے، مگر تخلیقی اور قائدانہ جوہر ناپید ہوتا جا رہا ہے اور مجھے اپنا ہی شعر یاد آ گیا ہے ؎
قحطِ آشفتہ سراں ہے یارو
شہر میں امن و اماں ہے یارو
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 2008ء میں منصب کا حلف اُٹھاتے ہی طلبہ یونینز سے پابندی اُٹھانے کا اعلان کیا، مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔ اب سینیٹ میں طلبہ یونین کی بحالی کے سلسلے میں ایک پرائیویٹ بل پیش کیا گیا ہے، چنانچہ اس اہم قومی ایشو پر آزادانہ تبادلۂ خیال کے لیے پائنا نے سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری کی صدارت میں سیمینار کا اہتمام کیا جس میں تعلیمی اداروں کے نمائندے، طلبہ کے نامور لیڈر اور میڈیا اور سول سوسائٹی کی معروف شخصیتیں شامل ہوئیں۔ پنجاب یونیورسٹی لا کالج کے پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
احمد بلال محبوب جو مایہ ناز ادارے پلڈاٹ کے سربراہ ہیں اور طلبہ سیاست میں بہت فعال رہے ہیں، انہوں نے طلبہ یونین سے منسلک رہنے کے فوائد بیان کیے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے وہاں جو کچھ سیکھا، وہ میری زندگی میں بہت کام آیا ہے۔ اس زمانے کے تعلقات آج بھی تقویت کا باعث ہیں۔ اپنے کلیدی مقالے میں انہوں نے وضاحت کی کہ سپریم کورٹ نے 1993ء میں ایک رولنگ دی تھی جس میں تعلیمی ادارے کے سربراہ کو بحالی کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا تھا اور سیاسی جماعتوں کے اثرات سے محفوظ رہنے کے اقدامات تجویز کیے تھے۔ اس کے بعد 2008ء میں پلڈاٹ نے ایک ریسرچ پیپر تیار کیا جس میں ضابطہ اخلاق کا پورا سانچہ تجویز کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک قانون کے ذریعے پبلک اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو طلبہ یونین قائم کرنے کا بھی پابند بنانا ہوگا۔
سید تنویر عباس تابش جو اپنے عہد کے بہت بڑے ڈیبیٹر اور شاعر ہیں اور طلبہ سیاست میں بہت سرگرم رہے تھے، انہوں نے بتایا کہ طلبہ یونینز نے بڑے قدآور لوگ پیدا کیے اور نظریاتی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کا سلیقہ سکھایا۔ میں اور جہانگیر بدر جیل کے ایک چھوٹے سے سیل میں آٹھ ماہ اکٹھے رہے۔ نظریات کے ساتھ گہری وابستگی کے باوجود ہم جمہوری روایات کو فروغ دیتے تھے۔ احسن اقبال، مخدوم جاوید ہاشمی، میاں رضا ربانی اور حفیظ اللہ نیازی اسی عمل کی پیداوار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما غلام عباس طلبہ یونین میں بڑے نمایاں تھے، انہوں نے اس امر کی نشان دہی کی کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی لگنے کے بعد تشدد نے غلبہ حاصل کر لیا تھا، کیونکہ انتخابی عمل میں طلبہ یونینز بالعموم رواداری اور کمال ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہیں اور ان کی بحالی سے جمہوری اور تہذیبی عمل کو زبردست تقویت حاصل ہو گی۔ یہ عمل پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں شروع ہونا چاہیے۔
بریگیڈئیر (ر) ریاض احمد طور جو افراد کی تربیت کے مختلف پروگراموں میں حصہ لیتے رہے ہیں، اُن کے خیال میں طلبہ یونینز ایک ایسا فورم فراہم کرتی ہیں جس میں نوجوانوں کو معاملات کو سمجھنے، گتھیاں سلجھانے، مذاکرات کے کلچر کو فروغ دینے اور بروقت فیصلہ سازی کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس ادارے کو جلد سے جلد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے طلبہ یونینز کے ماضی پر شدید تنقید کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ طلبہ کو ماضی کی فاش غلطیاں دہرانے کے بجائے اخلاق وضوابط کا پابند کرنا ہو گا۔ آل پاکستان پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر حافظ عبدالخالق ندیم نے کہا کہ اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ طلبہ یونینز معاشرے کی ذہنی ترقی اور جمہوری ارتقا کے لیے ناگزیر ہیں، تاہم ان کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مدِنظر رکھنا ہو گا۔ سابق طلبہ لیڈر حفیظ اللہ خاں نیازی اور رؤف طاہر نے طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں نہایت مؤثر دلائل دیتے ہوئے میڈیا کو اپنی یہ اہم ذمہ داری یاد دلائی کہ اسے طلبہ یونین کی اہمیت اور افادیت اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنا ہوگی۔
معروف دانش ور سجاد میر نے اپنے تجزیے میں کہا کہ طلبہ یونینز ثقافتی، علمی اور تخلیقی عمل کو فروغ دینے میں سب سے موثر ذریعہ تھیں اور انہوں نے جمہوریت کے استحکام اور فکری ارتقا میں زبردست کردار ادا کیا ہے۔ میں وہ تاریخ ساز لمحات فراموش نہیں کر سکتا جن میں مجیب الرحمٰن شامی نے ساہیوال کالج اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کی حیثیت سے محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے دوران قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح ہمارے حفیظ اللہ خاں نیازی قائداعظم یونیورسٹی میں فاشسٹ وائس چانسلر کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔
مجیب الرحمٰن شامی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ ماضی میں طلبہ یونینز سیاسی جرائم کا ارتکاب کرتی رہی ہیں۔ وہ طلبہ کو شائستگی، میانہ روی اور برداشت کی تربیت دینے کے بجائے ٹریڈ یونین کے طور پر کام کرتی اور یونیورسٹیوں میں ایسے افراد کا استاد کے طور پر تقرر کراتی رہیں جو پرائمری اسکولوں میں پڑھانے کے بھی اہل نہیں تھے۔ وہ اچھا زمانہ تھا جب انٹر کالجیٹ اور انٹر یونیورسٹیز تقریری مقابلے ہوتے اور اُن کے ذریعے قومی سطح کے مقرر پیدا ہوتے رہے اور پورے ملک میں دوستی کے رشتے استوار ہوتے تھے۔ وہ زریں عہد لوٹ آنا چاہیے، اس کے لیے طلبہ یونینز کی بحالی کے ساتھ ساتھ ایک ہمہ پہلو ضابطۂ اخلاق نافذ کرنا ہو گا۔
مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ میں اسکول کے دنوں سے طلبہ یونین میں سرگرم رہا اور بالآخر پنجاب یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کا صدر منتخب ہوا اَور زندگی کے حقائق کا سامنا کرنا سیکھا۔ سیاست میں آنے کے بعد گیارہ بار قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا جو ایک ریکارڈ ہے۔ دراصل جاگیرداروں اور دولت مندوں نے سیاست کا پورا ڈھانچہ تباہ کر دیا ہے اور وہ اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کے بھی خلاف ہیں، مگر پاکستان کا عظیم ترین مفاد یہی ہے کہ ایک ضابطۂ اخلاق کے تحت انہیں بحال کیا جائے تاکہ قیادت سازی کا عمل دوبارہ جاری ہو سکے۔ اب ہمیں ایک قانون کے تحت پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو بھی اسٹوڈنٹس یونین کے قیام کا پابند کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی بقا کے لیے سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے اور سیاسی جماعتوں کو اعلیٰ اقدار کا پابند رکھنے کے لیے اسٹوڈنٹس یونین کا وجود لازم ہے۔ وہ اس بات پر بار بار زور دیتے رہے کہ منتخب حکومت کو اس کی آئینی مدت تک کام کرنے کا پورا موقع دیا جائے تاکہ پُرامن انتقالِ اقتدار کی روایت مستحکم ہوسکے۔
پروفیسر ڈاکٹر اکرم چوہدری نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ سیمینار میں اس امر پر اتفاق پایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کے انتظامات کیے جائیں جن میں پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے اندر بھی اس منتخب ادارے کا قیام شامل ہو ۔



.
تازہ ترین