• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کے بلاوے پرلاہور کے پنج تارہ ہوٹل پہنچا تو یحییٰ مجاہد نے استقبال کیا۔مہمانوں کی آمد کا سلسلہ ابھی شروع نہ ہوا تھا۔میں نے ہنستے ہوئے کہا ـ’’حافظ صاحب! آج اسلئے بروقت آگیا ہوں کہ شاید پھر آپ قابل رسائی نہ رہیں ‘‘محفل برخاست ہوئی تو جانثاروں نے حافظ سعید صاحب کو اپنے حصار میں لیکر بلٹ پروف گاڑی میں بٹھایا،ان کی ذاتی سواری کے پیچھے جیمر والی گاڑی تھی جو اہم شخصیات کے تحفظ کیلئے سیکورٹی کا لازمی جزو سمجھی جاتی ہے۔محض دو گھنٹے بعد ہی حافظ سعید صاحب کی نظر بندی کے احکامات آگئے۔دو دن بعد ان کا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا گیا۔جن کا خیال ہے کہ یہ معمول کی نظر بندی ہے اور چند ماہ بعد حالات کا رُخ تبدیل ہوتے ہی حافظ سعید آزادی سے نقل و حرکت کر سکیں گے اور یہ چمن یونہی رہے گا،وہ کسی غلط فہمی کا شکارہیں۔ ’’بہاریں‘‘ رخصت ہوا چاہتی ہیں کیونکہ اس مرتبہ وہی پتے ہوا دینے لگے ہیں جن پہ تکیہ تھا۔ اثاثے تب تک عزیز ہوتے ہیں جب تک ان کی افادیت و اہمیت برقرار رہتی ہے،جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے،نزع کا عالم ہوتا ہے تو پھر بوجھ اتارا کرتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ جس طرح چند برس قبل مولانا مسعود اظہر کو حفاظتی تحویل میں لیکر میڈیا سے دور کر دیا گیا،اسی طرح حافظ سعید کو بھی نظر بند کر کے ’’انڈر گرائونڈ ــ‘‘ کر دیا جائے اور وہ میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہو جائیں۔
حافظ سعید صاحب ببانگ دہل کہتے رہے ہیں کہ ہمیں ہمارا جرم بتایا جائے اور اب بھی ان کا یہی استدلال ہے کہ پورے پاکستان میں کوئی ایک ایف آئی آر نہیں ہے ہمارے خلاف،عدالتوں نے ہمیں بے قصور قرار دیا ہے تو پھر غیر ملکی دبائو پر ہمارے خلاف کارروائی کیوں کی جاتی ہے؟کسی حد تک ان کا یہ موقف درست ہے اور اب بھی نہ تو ان کے خلاف کوئی مقدمہ چلے گا اور نہ ہی انہیں سزا ہو گی۔کیونکہ جو مقدمہ چلانے والے ہیں وہ تو خود مبینہ فریق ہیں۔کوئی بیوقوف ہی ہو گا جو اپنے خلاف مقدمہ چلائے،گواہ لیکر آئے،شہادتیں جمع کرے اور ملزم سے مجرم قرار پائے۔حافظ سعید اپنے شعبے کے ’’ڈاکٹر عبدالقدیر ‘‘ ہیں جن کے حلقوم پر ریاست کی قربان گاہ میں چھری پھیری جائے گی۔مگر ٹرائل نہیں ہو گا،مقدمہ نہیں چلے گا۔ریاست کو بچانے اور چلانے کے لئے بھینٹ اور قربانی تو دینی پڑتی ہے۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کو پہلے ہی اپنے کنٹرول میں لیا جا چکا ہے،مرید کے مرکز میں بھی ایڈمنسٹریٹر بٹھائے جا چکے ہیں،اب جماعت الدعوۃ پر پابندی لگے گی اور ملکی دفاع کی نجکاری کا نظام لپیٹ دیا جائے گا۔آج یا کل،یہ کڑوا گھونٹ پینا تو تھا ہی مگر خدشہ یہ ہے کہ جماعت الدعوۃ کی مرکزی قیادت کو تو عالمی حالات کے تناظر میں ان اقدامات کے ناگزیر ہونے پر قائل کر لیا جائے گا اور بادل نخواستہ ہی سہی،وہ حالات سے سمجھوتہ بھی کر لیں گے مگر ان کی ایمان افروز تقریریں سن کر جنہوں نے دہلی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کا عزم کر رکھا ہے،جنہیں بتایا گیا ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا،جو جذبہ جہاد اور شوق شہادت کی تمنا لیکر گھروں سے نکلے ہیں،جنہیں یقین ہے کہ کشمیر قرارداد مذمت سے نہیں بھارت کی مرمت سے آزاد ہو گا،جو اپنی زندگیاں وقف کر چکے،جو غازی یا شہید کے علاوہ کوئی مقام اور مرتبہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں،ان کا کیا ہو گا؟انہیں اس راہ سے واپسی پر کیسے مائل کیا جائے گا؟ہو سکتا ہے کسی حکمت عملی کے تحت آپ ان سے بندوقیں چھین لیں،ان کا ’’فنڈ‘‘ بند کردیں مگر ان کو جو سوچ دی گئی ہے،یہ کیونکر واپس ہو گی؟حافظ سعید صاحب کے ساتھ اس نشست میں جناب حفیظ اللہ نیازی صاحب بھی موجود تھے اور انہوں نے ملکی دفاع کی نجکاری کا یہ جواز پیش کیا کہ امریکہ میں بھی تو بلیک واٹر جیسے کرائے کے قاتل ہیں،سی آئی اے سمیت تمام خفیہ ادارے یہ کام کرتے ہیں۔درست فرمایا جناب نے مگر فرق یہ ہے کہ وہاں یہ کام پروفیشنل ازم کی بنیاد پر ہوتا ہے کسی ایمانی یا قرآنی جذبے کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔اسلئے جب پالیسی بدلتی ہے،کنٹریکٹ ختم ہوتا ہے تو کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی مگر ہمارے ہاں لافانی اور آسمانی عقائد کو جذبہ محرکہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اسلئے جب پالیسی بدلتی ہے تو ہماری بندوقیں ہم پر ہی تان لی جاتی ہیں۔
حافظ سعید صاحب کی سوچ اور فکر سے مجھے بیشمار اختلافات ہیں۔متذکرہ بالا نشست میں بھی انہوں نے جو حقائق سامنے رکھے،جو مطالبات پیش کئے،ان سے مجھے جزوی طور پر اختلاف ہے مگر ان کی اس بات سے مکمل طور پر اتفاق ہے کہ ریاست کو اپنی کشمیر پالیسی واضح کرنا چاہئے۔منافقت اور دوغلے پن کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔اگر ہم مجبوریوں،کمزوریوں یا مصلحتوں کی بنیاد پر اس طرح کشمیر میں برملا مداخلت نہیں کر سکتے جس طرح بھارت نے مشرقی پاکستان میں کی تو پھر ’’تراشو،پوجا کرو اورتوڑ دو‘‘ کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے کیونکہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے مقتدر حلقوں نے جو بت تراشے، وہ خو دخدا بن بیٹھے۔
انسانی بنیادوں پر کشمیریوں کی اخلاقی ،سفارتی اور سیاسی تائید و حمایت کا سلسلہ بھلے جاری رہے لیکن مسلح جدوجہد سے لاتعلق ہو جانا چاہئے ۔اور اس کے برعکس اگر ریاست یہ طے کرتی ہے کہ کشمیر بدستور ہماری شہہ رگ ہے اور پاکستان کی بقا و سلامتی کا جزو لاینفک ہے تو پھر بھارت کی طرح آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کو پاکستان کا اٹوٹ انگ بنایا جائے ۔یہ بات بھی واضح کی جائے کہ ــ’’تراشو، پوجا کرو اور توڑ دو ‘‘ کی پالیسی بھی گویا ایک ٹشو پیپر تھی جسے اب وقت کے کوڑا دان میں پھینک دیا گیا ہے۔



.
تازہ ترین