• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی موضوعات پر اتنا لکھا جاتا ہے کہ اس میں اضافے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور یوں بھی سیاست اور سیاستدانوں سے مجھے الرجی سی ہوگئی ہے۔ یہ بات میرے لاشعور میں راسخ ہو چکی کہ ہماری سیاست اور سیاستدان کسی صورت امپرو نہیں کرسکتے۔ یہ اس دُم کی مانند ہیں جو سو سال بھی لوہے کی سیدھی نالی میں رہے تو سیدھی نہیںہوتی اس لئے کوشش میری یہی ہوتی ہے کہ غیر سیاسی موضوعات پر ذرا زیادہ توجہ دوں مثلاً ذرا مندرجہ ذیل چند غیر سیاسی موضوعات پر غور کریں۔ ’’تعلیمی اداروں میں نشے کا رجحان، منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ۔ مبینہ سرپرست پولیس افسروں کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔‘‘ ’’سزائے موت کا قیدی انتقال کے 2سال بعد بری کردیا گیا‘‘’’وزیراعظم پر لکھی گئی کتاب لائبریریوں میں رکھ کر بچوں پر مسلط کرنے کی کوشش۔ عمران خان نے کہا کہ اس کتاب کا عنوان ....’’اربوں روپے لوٹ کر باہر بھیجنے کے طریقے‘‘ ہونا چاہیے۔‘‘’’بدنام زمانہ بابا لاڈلہ 2ساتھیوں سمیت رینجرز سے مقابلہ میں ہلاک۔ سر کی قیمت 25لاکھ تھی۔ ابتدائی زندگی میں بس کلینر تھا۔‘‘یہ ساری خبریں کسی طرح بھی نام نہاد سیاسی خبروں سے کم اہمیت کی حامل نہیں بلکہ شاید زیادہ حساس اور اہم ہیں مثلاً ابھی چند ہفتے قبل لاہور کے ایک مہنگے نامور نجی تعلیمی ادارے کے طالب علم کی ہلاکت والی خبر بہت تکلیف دہ تھی کیونکہ کہا یہ گیا تھا کہ طالب علم نشہ کی زیادتی کے باعث ہلاک ہوا ہے۔ اس معتبر تعلیمی ادارہ کے طلبا، طالبات مجھ سےملنے کے لئے آتے رہتے ہیں اور ان کے بارے میں میرا ذاتی تاثر بہت مثبت اور خوشگوار تھا لیکن اب خبر کے بعد تھوڑا انویسٹی گیٹ کیا تو یہ جان کر ششدر رہ گیا کہ وہاں منشیات کوئی ’’شجر ممنوعہ‘‘ نہیں بلکہ خاصی عام ہیں۔ میرے لئے اتنے ہائی پروفائل تعلیمی ادارے کایہ ’’کلچر‘‘ بہت تکلیف دہ تھا کہ جنہیں ان عمروں میں یہ لت لگ گئی وہ آگے چل کر کیا کریں گے کیونکہ نشہ وحشی ترین گھوڑے کی مانند ہے جس پر سواری بہت ہی ہائی رسک گیم ہے۔ شراب تو پھر کسی حد تک، کسی نہ کسی طرح ہینڈل ہو جاتی ہے اور بندہ مخصوص بدبو کی وجہ سے ’’پکڑا‘‘ بھی جاتا ہے جس کے باعث اسے بتانا سمجھانا آسان ہے لیکن نئی نسل کے بابا لوگ اور ہی قسم کی ڈرگز کے چکر میں ہیں جن کے سامنے شراب کا نشہ بہت ہی معمولی کہا جا سکتا ہے۔ اب حکومت نے نوٹس لے ہی لیا ہے تو اسے چاہیے آخری حد تک جائے اور اس لعنت کو کنٹرول کرنے کے لئے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو بھی نہ صرف اعتماد میں لے بلکہ ذمہ دار بھی ٹھہرائے کیونکہ تعلیمی اداروں کا کام صرف تعلیم دینے تک محدود نہیں، تربیت بھی ان کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ جو بات مجھے سمجھ نہیں آئی، وہ ہے سرپرست پولیس افسروں کے خلاف ’’کارروائی‘‘ اگر میں اوورری ایکٹ نہیں کر رہا تو ’’کارروائی‘‘ کیا ہوئی؟ انہیں عبرت کی مثال بنایا جائے کہ اگر تحفظ کے ذمہ دار ہی تباہ و برباد کرنے پر کمر کس لیں تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً کاموں کا آغاز بہت زور شور، جوش جذبے سے ہوتا اور پھر بعد ازاں سب کچھ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے لیکن اس معاملہ میں ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سوال آئندہ نسلوں کے مستقبل کا ہے جو ملکی مستقبل پر براہ راست اثر انداز ہو گا۔ نچلے درجے اور سرکاری اداروں میں تعلیم کا جو تیاپانچہ ہو رہا ہے ہم سب جانتے ہیں لیکن اگر ہمارے ہائی پروفائل نجی تعلیمی ادارے بھی لگے گیئے تو انجام کا اندازہ خود لگا لیں۔دوسری خبر کہ سزائے موت کے قیدی کو موت کے دو ڈھائی سال بعد بری کردیا گیا، پورے معاشرے کے اجتماعی چہرے پر زناٹے دار تھپڑ سے کم نہیں۔ بھیانک ہوا انجام ان معاشروں کا جنہوں نے انصاف کے ساتھ انصاف نہ کیا۔رہ گئی وزیر اعظم پر لکھی اور پھر لائبریریوں کے ذریعے طلبا پر مسلط کی گئی کتاب اور اس پر عمران خان کا دلچسپ تبصرہ تو خاطر جمع رکھیں، یہ فوڈ سٹریٹوں کا ملک ہے لائبریریوں کا نہیں اور پھر نواز شریف پر لکھی گئی کتاب تو اس سے صرف اور صرف دیمک ہی فیض یاب ہوگی۔آخری خبر کا تعلق کراچی کے ایک گینگسٹر کی ہلاکت سے ہے جو رینجرز کے ساتھ مقابلہ میں مارا گیا کہ عموماً جیسی زندگی، ویسی ہی موت مقدر ہوتی ہے۔ بابا لاڈلہ نامی قاتل کی ہلاکت والی خبر میں دو نکتے قابل غور ہیں۔ پہلا یہ کہ اس کے سر کی قیمت 25لاکھ روپے مقرر تھی یعنی جس سر پر خون سوار ہو وہ تو 25لاکھ کا ہوا لیکن جن سروں پر مختلف قسم کے فنون سمائے ہوں، ان کی بھی کوئی ’’قدر‘‘ یا ’’قیمت‘‘ ہوتی ہے یا نہیں؟بابا لاڈلہ سے متعلق دوسری اطلاع نے مجھے تھوڑا سا اداس کردیا اور وہ یہ کہ اس پیشہ ور قاتل نے عملی زندگی کا آغاز بس کلینر کے طور پر کیا یعنی اس کا پہلا شعوری فیصلہ محنت مزدور ی کرکے رزق حلال کمانا تھا تو پھر وہ کیسے حالات اور ان کا جبر تھا، وہ کیسا ماحول اور اس کا قہر تھا کہ وہ پیشہ ور قاتل بن کر عبرت ناک انجام کا شکار ہوا؟ کوئی ہے اس ملک میں جو اس پہلو پر بھی غور کرے۔ 



.
تازہ ترین