• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت سے پیدا ہونے والی پریشانی کے سائے اُن کے چہروں پر گہرے ہورہے ہیں ۔طویل ہوتی ہوئی سماعت اور پوچھے جانے والے تفتیشی سوالات کا ملک کے بہترین وکلا کے پاس بھی تیار جواب نہیں ۔کچھ عرصہ پہلے تک دکھائی دینے والا تفاخر آمیز اعتماد ہوا میں تحلیل ہوچکا ۔ پی ایم ایل (ن) سے وابستگی رکھنے والوں کا تاحال یہی کہنا ہے کہ نواز شریف اس امتحان سے نہ صرف سرخ رو ہوکر نکلیں گے بلکہ اُن کے ووٹ بنک میں بھی اضافہ ہوچکا ہوگا۔ ناقدین اسے آہنی اعتماد سے زیادہ اندھااعتقاد قرار دیتے ہیں۔ یہ خوش فہمی ان طوفان رسیدہ رہنمائوں کے ممکنہ مستقبل کا عقلی احاطہ کرنے سے قاصر ہے ۔
بارہ اکتوبر 1999 ء کے بعد سے ن لیگ اسٹیبلشمنٹ سے کدورت رکھتی تھی ، عدلیہ سے نہیں، لیکن آج وہ پریشان نظروں سے ایوانوں کی طرف گھور رہے ہیں ۔ اُنہیں نہیں پتہ کہ ترازو کا پلڑا کس طرف جھکے گا۔اس دوران کیس کی سماعت ردھم پکڑچکی ، اور جج صاحبان کسی دبائو کے بغیر، آزاد فضا میں کام کررہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اپنی طویل سیاسی تاریخ کے دوران پی ایم ایل (ن) کو ’’دوستانہ تعاون پر آمادہ‘‘عدلیہ سے واسطہ پڑتا رہا ، چنانچہ ایک آزاد بنچ کا سامنا کرنا اس کے رہنمائوں کے لئے ایک نیا تجربہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار وکلا کو تبدیل کررہے ہیں۔ ماضی میں ’’مہربان بنچوں ‘‘ کے سامنے شریف فیملی کے ساتھ طویل وابستگی رکھنے والے وکلا، جیسا کہ اکرام شیخ، سلمان بٹ، اشتر اوصاف، جو موجودہ اٹارنی جنرل ہیں، عدالت میں انصاف یا ’’تعاون‘‘دلانے کے لئے کافی تھے ۔ یہ وکلا ایسے شریف النفس بنچوں کے سامنے قانونی فہم و فراست کے پیکر دکھائی دیتے تھے ۔ لیکن آج صورت ِحال مختلف ہے ۔ تعاون کی برکھا رُت بیت چکی، ایک مختلف بنچ کے سامنے یہی وکلا ناکافی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ میدان ِ جنگ سے باعزت واپسی نہیں، پسپائی کا خطرہ لاحق ہے ۔
حکمران خاندان کے لئے ایک اور درد ِ سر یہ ہے کہ وہ اپنے موجودہ مسائل پر اسٹیبلشمنٹ، خفیہ اداروںیا فوج کے اندر کسی گروپ کومورد ِ الزام نہیں ٹھہر اسکتے۔ اس تمام معاملے میں فوج کسی طور فریق نہیں، تاوقتیکہ اس نے بوئنگ یا لاک ہیڈ (امریکی طیارہ ساز کمپنیاں) سے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی درآمد کرتے ہوئے خفیہ مداخلت کرنے کی مہارت حاصل کرلی ہو۔ پاناما انکشافات ایک بلائے آسمانی ہے، اسے کسی کے خفیہ ہاتھ نے متحرک نہیں کیا۔ اور حکمران خاندان کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس الجھتی ہوئی صورت ِحال کو اپنے حق میں کیسے سلجھائے ۔ 2014 ء کے دھرنوں، جنہوںنے حکومت کو ہلاکررکھ دیا تھا، کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے پیچھے کسی نادیدہ ہاتھ کی کارفرمائی ہے۔ اُس وقت عمران خان اور طاہر القادری کو خفیہ ایجنسیوں کے مہرے قرار دیا گیا۔ لیکن پاناما پیپرز کا الزام کس کے سرجائے؟
تاہم ن لیگ کے سخت جان حامی ابھی بھی خیال کرتے ہیں کہ یہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے ،لیکن ماضی کے برعکس وہ اس ساز ش کا الزام پارٹی کے اندر ہی کسی پر لگارہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پارٹی کے کچھ اہم افراد حکمران خاندان کے دست ِراست بننے کی بجائے نہ صرف اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کررہے ہیں بلکہ حکمران خاندان کے لئے صورت ِحالات مزید مشکل بھی بنا رہے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ جب حکمران خاندان کو ایک کٹھن ابتلا کا سامنا ہے تو کچھ طاقتور وزراا س کے دفاع میں کیوں کچھ نہیں بولتے ؟ کم گوئی یا لب بندی تو ان کا شعار نہ تھا۔ اس وقت دفاعی جنگ نوخیز سیاست دانوں کی کھیپ ہی لڑرہی ہے جن کی قیادت وزیر ِ اعظم کی صاحبزادی کے ہاتھ ہے ۔ محترمہ کے بارے میں تاثر ہے کہ انہیں پارٹی کی سیاسی وارث کے طور پر تیار کیا جارہاہے ۔ آپ کیمروں کے سامنے ان کا بلند ہوتا ہوا لب و لہجہ اور آنکھوں میں تیرنے والی لیڈرانہ چمک ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ اس دستے میں شامل محمد زبیر، جنہیں نوخیر نوجوان تو قرار نہیں دیا جاسکتا، لیکن وہ سندھ کی گورنری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ دیگر شرکائے معرکہ کو بھی اپنی باری کا انتظار رہے گا۔
یہ سال پرسکون سیاسی ماحول میں میگاپروجیکٹس کی فصل کاشت کرنے کا تھا۔ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم ہوجاتا اور اگلے عام انتخابات میں کامیابی کی چمک دکھائی دینے لگتی۔ لیکن حالات اس کے برعکس ہیں۔ پارٹی کی طمانیت کے شیش محل پر پاناما نامی پتھر آن لگا۔ سماعتیں جاری ، نتیجہ ہنوز نامعلوم۔ قسمت کے ناگہانی وار کو بشری آنکھ کیس بھانپ سکتی ہے؟ جنرل مشرف وکلا کی تحریک جیسی کسی انہونی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے ۔ آٹھ مارچ2007ء کو وہ فتح کے نشے میں سرشار ، ایوان ِ صدر میں خواتین کے عالمی دن کی تقریب منارہے تھے ، بیگم صہبا مشرف ایک طرف جبکہ سمیرا ملک دوسری طرف بیٹھی تھیں۔اور اس تقریب کا موضوع خواتین کی ترقی تھا۔ اس خوشگوار ماحول میں وہ نہیں جانتے تھے کہ اگلے دن، یعنی نومارچ کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کے واقعہ کے سنگ وکلا تحریک کی چنگاری پھوٹنے والی ہے ۔ محمد خان جونیجو کو برطرف کرنے کے بعد جنرل ضیا اپنا مستقبل محفوظ سمجھ رہے تھے ، لیکن پھر بہاولپور کی فضائوں میں طیارہ حادثہ ہوا ، جسے آج بھی کچھ ایک عالمی سازش قرار دیتے ہیں۔ 1977 ء کے انتخابات میں بھٹو کا خیال تھا کہ حالات اُن کے کنٹرول میں ہیں، لیکن جب اُنھوں نے کچھ چابکدستی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تو پی این اے کی مہلک تحریک شروع ہوگئی ۔ اس تحریک نے ضیا کے مارشل لاکا راستہ ہموار کردیا۔اکتوبر 1968 ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان Decade of Development کا جشن منارہے تھے جب اُن کے خلاف تحریک کی چنگاری بھڑک اٹھی۔ اس کے چند ماہ بعد اُن کا اقتدار ختم ہوگیا۔
ان مثالوں سے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کررہا کہ آج بھی حالات یہی رخ اختیار کرنے جارہے ہیں۔ ہمیں قیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہئے ، لیکن ن لیگ کے نقطہ نظر سے کچھ خطرناک اشارے ہویدا ہورہے ہیں۔ بلاتعطل سماعت، رات دن ٹی وی پر تبصرے ، بنچ کی طرف سے منی ٹریل کے بارے میں چبھتے ہوئے سوالات ،اور ادھر لے دےکر ہاتھ میں صرف قطر سے درآمد کردہ کاغذی ڈھال۔ یہ تمام معاملہ کس سمت بڑھ رہا ہے ؟ فی الحال پیش گوئی کرنا ناممکن ، اور یہی نامعلوم اس کا سب سے تکلیف دہ پہلو ہے ۔ اس ماحول میں تشویش کی فزوں تر شدت کا اظہار ن لیگ کے وزرا کے مایوس کن بیانات سے ہورہا ہے ۔ جب وہ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے بنچ پر حملہ آور ہوتے ہیں، جیسا کہ حالیہ ورکرز کنونشن میں سعد رفیق نے کیا، تو وہ کس کی گیم کھیل رہے ہیں؟جب وزیر ِ داخلہ مسلسل پی پی پی کو ہدف بنائے ہوئے ہیں تو وہ کیا کرنے کی کوشش میں ہیں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ کم از کم پی پی پی کی طرف سے ن لیگ کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہونی چاہئے ۔ اس سے پہلے بھی چوہدری نثار علی خان نے ایسا ہی کردار ادا کیا تھا جب دھرنوں کے دوران اُنھوں نے اعتزاز احسن پر چڑھائی کردی ، حالانکہ تمام تر تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پی پی پی نواز شریف کے دفاع کے لئے کھڑی تھی ۔ کچھ واقفان ِحال وزیر ِاعظم ہائوس میں چھائی ہوئی خوف کی فضا کی منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب وہاں کچھ وزرا کی وفاداری پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ اس سے پہلے وہاں ایسی باتوں کی کوئی شنوائی نہیں تھی ، لیکن خوف سماعتیں بہترکردیتا ہے ۔ یقینا نواز شریف جذباتی فیصلے کرنے والے انسان نہیں ، لیکن پاناما کی روشنی میں ’’کچھ لوگ پہچانے گئے ۔‘‘
پس ِ تحریر: جس وقت خیال تھا کہ حکمران خاندان کے لئے اس سے بری خبر کوئی اور نہیں ہوگی تو امیر ِقطر کو سرکاری جہاز میں بھجوائے گئے تحفے کی خبر سامنے آگئی ۔ کیا وزیر ِاعظم کا اسٹاف اپنے حواس کھوچکاہے ؟ کیا برکھا رت میں بھی کوئی اپنی چھت ادھیڑتا ہے ؟ پی ٹی آئی کی عندلیب عباس نے وزیر ِاعظم آفس کو جاتی امرا میں وزیر ِاعظم کی نجی رہائش گاہ پراٹھنے والے سرکاری اخراجات کی تفصیل معلوم کرنے کے لئے خط لکھا ہے ۔ یقیناً جب ایک گھوڑالنگڑا ہوتا ہے تو باقی بھی بیمار ہوجاتے ہیں۔



.
تازہ ترین