• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات میں دھاندلی عوامی حاکمیت اور جمہوریت کے تصور کو دھندلا دیتی ہے۔ ہمارے ہاں انتخابی دھاندلی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ ایسی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں جہاں جیتنے والے امیدواروں کو ہرا دیا جاتا ہے اور پھر اسمبلیوں کی مدت پوری ہو جاتی ہے لیکن انہیں انصاف نہیں ملتا ۔فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک(فافین) نے چند روز پہلے انتخابی اصلاحات کے مسودہ بل 2017کے حوالے سے کانفرنس کا اہتمام کیا جسمیں ایسی چھوٹی اور نئی پارٹیوں کو مدعو کیا جنکا انتخابی نظام سے مفاد تو وابستہ ہے لیکن انہیں مسودہ الیکشن بل2017کی تیاری میں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔اس کانفرنس میں فافین کے سرور باری اور مدثر رضوی،بلوچ قوم پرست رہنمائوں عبدالحئی بلوچ اور جہانزیب جمالدینی، بائیں بازو کی نئی ابھرتی جماعت عوامی ورکرز پارٹی کے فاروق طارق، پیپلز ورکرز پارٹی کے صفدر عباسی ، عوامی تحریک کے خرم نواز گنڈا پور سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کی آرا سننے کا موقع ملا۔فافین نے اس مسودہ بل کا بغور مطالعہ کر کے اس کی خوبیاں اور خامیاں بیان کی ہیں اور اس مسودہ کی مزید بہتری کیلئے تجاویز بھی تیار کی ہیں۔ چونکہ پاکستان میں پہلاپُرامن سیاسی انتقالِ اقتدار وقوع پذیر ہو چکا ہے اور غیر جمہوری قوتوں کی انتخابی عمل میں دخل اندازی بھی کچھ کم ہوئی ہے اسلئے انتخابات کے معیار کو بہتر بنانے کی طرف توجہ شروع ہو ئی ہے جو خوش آئند ہے۔
نئے مسودہ بل میں بہت سی مثبت تبدیلیاں پیش کی گئی ہیںمثلاًملک کے تمام انتخابی قوانین کو یکجا کر دیاگیا ہے، الیکشن کمیشن کے اختیارات، خواتین کی سیاسی و انتخابی عمل میں شرکت، انتخابی شکایات اور نتائج پر کی گئی عذرداریوں کو نمٹانے، نگران حکومت، سیاسی جماعتوں، امیدواروںاور منتخب نمائندوںکی جانب سے جمع کرائے جانے والے حلفیہ بیانات، مقامی حکومتوں کے انتخابات اور انتخابات کی مشاہدہ کاری کے حوالے سے نمایاں اصلاحات شامل کی گئی ہیں۔مردم شماری ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر ہر دس سال بعد نئی حلقہ بندیوں کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
لیکن ان مثبت تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اس مسودہ بل میں چند ایسی رجعت پسندانہ تجاویز بھی شامل ہیں جو انتخابی معیار کو بہتر بنانے کی بجائے مزید خراب کر سکتی ہیں۔ مثلاًالیکشن کمیشن کی خودمختاری پر ضرب لگانے کیلئے اسکے بنائے گئے قواعد کو حکومتی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے۔پہلے ان قواعد کیلئے صدر پاکستان کی منظوری ضروری تھی ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صدر کی منظوری کی شرط بھی ختم کی جاتی لیکن اب الٹا حکومت کی منظوری کی شرط ڈال دی گئی ہے۔اسی طرح مجوزہ قانون کے اطلاق میں دشواری کی صورت میں الیکشن کمیشن کو حکومت کی منظوری کا محتاج بنا دیا گیا ہے حالانکہ الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں مکمل خودمختاری دی جانی چاہیے تھی۔ضابطہ اخلاق کی دو بار خلاف ورزی کرنے اور خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی صورت میں کسی رکن کو نا اہل قرار دینے کی تجویز خوش آئند ہے لیکن انتخابی اخراجات اور اثاثوں کی تفصیلات میں غلط بیانی پر نااہل نہیں کیا جا سکے گا۔اسی طرح ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کو تو الیکشن کمیشن کی ہدایات اور نگرانی کا ماتحت بنایا گیا ہے لیکن ریٹرننگ افسران اور ان سے آزاد بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ دھاندلی شکایات ریٹرننگ افسر کی سطح پر ہوتی ہیں، انکی من مانی ختم کرنے کیلئے انہیں سخت قواعد و ضوابط کی پابندی کے ماتحت لانا از حد ضروری ہے۔معلومات تک رسائی پر قدغن لگانے کیلئے کئی ایک اقدامات تجویز کئے گئے ہیں مثلاً’’خلافِ قانون ــ‘‘معلومات کی اشاعت و ترسیل پر پچاس لاکھ تک جرمانہ اور قید کی سزا ہو سکے گی۔ پاکستان کے قوانین میں سخت ترین جرائم کیلئے بھی پچاس لاکھ کی سزا نہیں ہے لیکن یہاں اتنی سخت سزا تجویز کرنے کا کیا مقصد ہے؟اسی طرح کمیشن کے کسی غیر مجاز عہدیدار کی جانب سے معلومات کی اشاعت و ترسیل پر بھی سخت سزا تجویز کی گئی ہے۔ انتخابی معلومات تک رسائی کو یقینی بنانے کیلئے معلومات کی اشاعت و ترسیل سے متعلق سزائیں انتخابی ضابطوں کی خلاف ورزی اور دھاندلی سے کہیں زیاد ہ سخت رکھنے کا مطلب معلومات تک رسائی محددو کرنے کے علاوہ اور کیا ہے؟ان غیر متوازن سزائوں کا ہدف دراصل انتخابی مشاہدہ کار، صحافی، اور ضمیر کی آواز پر معلومات مہیا کرنے والے(whistle blowers)لوگ ہونگے۔امیدواروں کی جانچ پڑتال کے مرحلے سے میڈیا، مشاہدہ کاروں اور شہریوں کی شرکت پر قدغن سے انتخابی عمل شفاف اور بہتر ہونے کی بجائے مزید دھاندلی زدہ ہو گا۔اسی طرح الیکشن کمیشن کے اجلاسوں ، اراکین کی ووٹنگ کی تفصیلات اور اجلاسوں کے اہم نکات تک میڈیا کو رسائی دینے کی کوئی شق شامل نہیں کی گئی۔الیکشن سے متعلق دستاویزات مثلاً کاغذات نامزدگی، انتخابی اخراجات کے گوشوارے، انتخابی نتائج کی تفصیلات(پولنگ اسٹیشن گنتی فارم، بیلٹ پیپر اکائونٹ، حتمی نتیجہ)، امیداروں کے اثاثوں کی تفصیلات اور سیاسی جماعتوں کے مجموعی حسابات کی تفصیلات، کو مخصوص اوقات کے اندر ویب سائٹ پر ڈالنے سے شفافیت کے عمل کو بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن اس ضمن میں کوئی تجویز شامل نہیں کی گئی۔ اسی طرح معاشرے کے کمزور طبقات بشمول مذہبی اقلیتوں، معذور افراد اور خواجہ سرائوں کی انتخابی و سیاسی عمل میں شرکت کو یقینی بنانے کیلئے کوئی اقدامات یا تو تجویز نہیں کئے گئے یا پھر ناکافی ہیں۔
فافین نے انتخابی عمل کو بہتر بنانے کیلئے جو تجاویز دی ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔سیاسی جماعتوں پر چند خاندانوں کی اجارہ داری کمزور کرنے کی شقیں شامل کی جائیں، سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی آمریت کم کرنے کیلئے سینیٹ میں بالواسطہ انتخابات کے طریقہ کار کو ختم کرنا چاہئے، نگران حکومت کے قیام میں شفافیت لانے کیلئے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ہونے والے میٹنگ کے نکات عام کئے جانے چاہئیں۔انتخابات کے عمل کیلئے وقف عملے کے علاوہ دیگر افسران خصوصاً انتظامی اور پولیس افسران کے تبادلے کے اختیارات بھی الیکشن کمیشن کے سپرد ہونے چاہئیں۔الیکشن پروگرام کے اجراء سے قبل کسی بھی وقت حلقہ بندی کی اجاز ت سے آخری وقت پر حلقہ بندیوں کے اختیار کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، اسکے لئے مناسب قانون سازی ہونی چاہئے۔خواتین کیلئے مختص نشستوں کی منصفانہ تقسیم کار کا نظام ہونا چاہئے تاکہ غیر ترقی یافتہ اور دور دراز علاقوں کی خواتین نظر انداز نہ ہوں، حلقہ بندی سے متاثرہ ووٹر کو اپیل کا حق ہونا چاہئے، انتخابی عملے پر عائد ہونے والی پابندیوں کا نفاذ ان کے تقرر کی تاریخ کی بجائے الیکشن پروگرام کے اعلان کی تاریخ سے ہونا چاہئے،الیکشن کمیشن کو الیکشن کیلئے مستعار لئے گئے عملے کیخلاف انضباطی کارروائی کا اختیارہونا چاہئے اور مقامی حکومتوںپر مخصوص نشستوں اور خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کیلئے مخصوص وقت مقرر ہونا چاہئے۔



.
تازہ ترین