• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوریت ایسا طرز حکومت ہے جو دنیا کے بیشتر ممالک میں کامیابی سے چل رہا ہے ۔ترقی یافتہ قوموں کا یہ پختہ یقین ہے کہ ان کے ملکوں میں جمہوری طرز حکومت ہی ان کے ممالک اور اس کے عوام کے لئے بہترین ہے۔ کہتے ہیں کہ غلطیوں اور کوتاہیوںکا اعتراف کرنادرست سمت کی جانب بڑھنے کے لئے پہلا قدم ہوتا ہے ۔ ہمیں اپنی جمہوریت کو بہتر بنانے کے لئے بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔جمہوری عمل میں الیکشن ایک اہم ترین جز ضرور ہے لیکن اہم ترین قابل توجہ مسائل میں سے چند ایک کا ذکر کہ ان میں بہتری سے جمہوریت کے معیار میں فرق آئے گا ۔ قومی اسمبلی کی 272نشستوں جن پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے ۔ان میں 17حلقے ایسے ہیں جہاں کی 95 فی صد خواتین نے 2013کے عام انتخابات میں ووٹ کاسٹ نہیں کیا ۔ان 17میں سے 5 حلقے ایسے ہیں جہاں ایک فی صد سے بھی کم خواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 33اپر دیر میں خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ اڑتیس ہزار سے زائد ہے وہاں صرف ایک خاتون نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ این 34لوئر دیر میں صرف 0.11 فی صد خواتین نے ووٹ ڈالا۔یعنی 206,566میں سے صرف 231 خواتین ووٹرز نے اپنے ووٹ کاسٹ کئے۔این اے 37 کرم ایجنسی میں کل 156,811 سے صرف 0.29 فی صد یعنی 459خواتین نے ووٹ کا حق استعمال کیا ۔این اے 34باجوڑ ایجنسی میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آوٹ 0.02اور این اے46 خیبرایجنسی میں 0.2فی صد رہا ۔ان حلقوں میں روایات کچھ ایسی ہیں کہ خواتین کے ووٹ ڈالنے کودرست نہیں سمجھا جاتا ۔ لیکن غور طلب پہلو یہ ہے کہ ایساصرف قبائلی علاقوں میں نہیں ہے ۔پنجاب کے کئی حلقوں میں بھی خواتین ووٹرز کا ٹرن آوٹ افسوس ناک حد تک کم تھا ۔این اے 152 ملتان میں 1.92 این اے 178مظفر گڑھ 2.13 این اے 177 مظفر گڑھ 2.24این اے 175راجن پور 2.34،این ۱ے 174راجن پور2.71جبکہ اوکاڑہ کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 145 یہ ٹرن آئوٹ صرف 2.82تھا ۔اسی طرح چکوال کے این اے 61 میں صرف 4.42اورسر گودھا کے این اے 64میں 9.52فی صد خواتین نے اپنے ووٹ دینے کاحق استعمال کیا ۔ قبائلی حلقوں کو فلحال چھوڑ بھی دیا جائے تو پنجاب کہ ان حلقوں میں جیتنے یا ہارنے والے امیدواروں یا سیاسی جماعتوں نے خواتین ووٹرز کو انتخابی دھارے میں لانے میں کیا کردار ادا کیا ہے ؟ دلچسپ امر یہ ہے کہ خواتین میں ووٹ ڈالنے کا شعور پنجاب کے کئی شہروں میں مردوں کے مقابلے میں ہے بلکہ معمولی حد تک ہی سہی لیکن زیادہ بھی ہے ۔جیسے اسلام آباد کے حلقہ این اے 148میں خواتین نے مردوں سے زیادہ ووٹ کاسٹ کئے ۔ الیکشن کمیشن نے 26000 ایسے سینسیس بلاک کی نشاندہی کی ہے جہاں خواتیں ووٹرز کی تعداد کل ووٹوں کے 40فی صد سے بھی کم ہے ۔اب ایک اور قابل توجہ امر یہ کہ ان میں 10440بلاک صرف پنجاب میں اور لاہور 872بلاکس کے ساتھ سر فہرست ہے ۔سندھ میں ایسے بلاکس جہاں خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن 40فی صد سے کم ہے کی تعداد 5779،خیبر پختونخوا میں 3782، بلوچستان میں یہ تعداد 3539 جبکہ قبائلی علاقوں میں 2410ہے ۔مزید حیران کن حقیقت یہ ہے جس ملک میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے(تصور اس لئے کہ مردم شماری ہوئے 18سال بیت گئے ہیں) وہاں خواتین اور مرد ووٹرز میں فرق کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ جمہوریت کے لئے بہتر تو یہ تھا کہ 2013کے عام انتخابات کے بعد حالات میں بہتری آتی اور خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن کےرجحان میںاضافہ ہوتا لیکن مرد اور خواتین ووٹرز میں فرق جو2013میں ایک کروڑ نو لاکھ ستر ہزار کے قریب تھامقامی حکومتوں کے انتخابات میں بڑھ کر ایک کروڑ گیارہ لاکھ پینسٹھ ہزار کے قریب ہو گیا ہے ۔ اب ایک اور نکتہ کی طرف بڑھتے ہیں ۔پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں الیکشن میں ٹرن آئوٹ سب سے کم ہوتا ہے ۔بلکہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان دنیاکے169 ملکوں میں سے 164 ویں نمبر پر آتا ہے ۔یعنی خواتین تو الیکشن پراسیس سے قدرے دور ہیں لیکن مرد حضرات کی دلچسپی بھی انتہائی کم ہے ۔پچھلےچھ انتخابات کے ٹرن آئوٹ پر نظر ڈالیں تو 1988میں ٹرن آئوٹ 43.07 ، 1990میں 45.06 ، 1993 میں 40.28 ، 1997 میں 35.42 ،2002 میں 41.08 2008 ,میں 44.25 جبکہ2013 کے عام انتخابات میں ٹرن آئوٹ 55 صد سے کچھ زیادہ تھا . ٹرن آوٹ میں اتار چڑھائو آتا رہا ۔لیکن 2013کے الیکشن میں یہ سب سے زیادہ تھا۔اگر لوگوں کا الیکشن کے عمل پر اعتماد زیادہ ہو گا ۔تو ٹرن آئوٹ بڑھے گا بصورت دیگر کم ہو گا ۔2013 میں زیادہ ٹرن آئوٹ کا کریڈٹ تحریک انصاف لیتی ہے اور یہ بات درست بھی ہو گی ۔ مگر سوال یہ ہے کہ پچھلے تین سے چار سالوں میں لوگوں کاا لیکشن کے پراسیس پر اعتماد زیادہ ہوا ہے یا کم ہوا ہے ۔توسپریم کورٹ کی طرف سے بھی انتخابی عمل میں کچھ خامیوں کی نشاندہی ، انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پرتحریک انصاف کے احتجاج میں عوامی دلچسپی اور پھر تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایسے بیانات کے الیکشن کے عمل میں خامیاں پائی جاتی ہیں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن پر اسس پر اعتماد میں شاید کمی آئی ہو گی ۔اب سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتوں یا حکومت نے اس اعتماد کو بڑھانے کے لئے اب تک کیا اقدامات کئے ہیں؟ انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کی فائنل تجاویز کب تک آجائیں گی اور ان پر کب تک عمل درآمد ہوجائے گا ؟ دنیا کے بیشتر ممالک میں جہاں ٹرن آئوٹ 90فی صد یا اس سے زیادہ ہوتا ہے ان میں سے بہت سے ممالک میں ووٹ دینا لازمی ہے ۔ ضروری ہے کہ بیلٹ پیپر پر امیدواروں کے اندراج کے ساتھ ایک خانہ یہ بھی ہو کہ میں تمام امیدواروں کو مسترد کرتا ہوں اور پاکستان میں بھی ووٹ دینے کو لازمی قرار دیا جائے ۔ووٹنگ مشینیں دنیابھر میں استعمال ہو رہی ہیں تو ہمارے ملک کیوں نہیں؟ جمہوریت اسی وقت بہتر ہوگی اور اس کےثمرات عوام تک پہنچیں گے جب دیگر اجزا کے ساتھ ساتھ الیکشن کے عمل کو اس قدر شفاف بنایا جائے کہ لوگ اس پر انگلی نہ اٹھا سکیں ، خواتین کو باہر رکھ کر کیسے انتخابات کو شفاف کہا جا سکتا ہے ؟



.
تازہ ترین