• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسان کا ایک چہرہ خارجی ہوتا ہے اور دوسرا داخلی یا باطنی..... خارجی چہرہ ہمہ وقت نگاہوں کے سامنے رہتا ہے لیکن باطنی چہرہ نظر نہیں آتا۔ باطنی چہرہ خود کو کسی بحران، مشکل یا امتحان کے وقت بے نقاب کرتا ہے اور یہ عام طور پر ظاہری چہرے سے مختلف ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان جو نظر آتا ہے ضروری نہیں کہ وہ اصل میں یعنی اپنی فطرت میں بھی ویسا ہی ہو۔ بات طویل ہے لیکن میں اسے مختصر الفاظ میں سمونے کی کوشش کر رہا ہوں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ظاہر نظر کا دھوکہ ہوسکتا ہے لیکن باطن نہیں..... انسانوں کی مانند انسانی معاشروں کے بھی دو چہرے ہوتے ہیں، ایک ظاہری چہرہ اور دوسرا باطنی چہرہ..... باطنی چہرہ اس وقت نظر آتا ہے یا بے نقاب ہوتا ہے جب معاشرے کو کوئی کڑا امتحان، بڑا مسئلہ یا آزمائش درپیش ہو۔ میرے نزدیک کسی انسان یا معاشرے کا اصل چہرہ باطنی چہرہ ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ ’’اصل‘‘ ہوتا ہے، سچا ہوتا ہے اور فطرت کی غمازی کرتا ہے۔ مثلاً میں نے اکثر دیکھا ہے کہ بعض ظاہری چہرے بڑے غصیلے اور نفرت انگیز ہوتے ہیں لیکن اگر ان کے اندر جھانکو یعنی ان کے قریب آئو تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے باطن ہمدردی اور محبت کی خوشبو سے معطر ہیں۔ کوئی مشکل آن پڑے تو وہ سب کچھ بھلا کر ہاتھ پکڑ لیتے ہیں اور کبھی کبھی آپ کی مصیبت اپنے سر مول لے لیتے ہیں۔
گزشتہ رمضان میں مجھے لندن سے ایک بچپن کے دوست کا فون آیا۔ اس سے میرا تعلق چھ دہائیوں پر محیط ہے، کہنے لگے کہ مجھے اس بار ایک بہت بڑی حیرت سے گزرنا پڑا۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ میں جس مسجد میں نماز اور تراویح کے لئے جاتا ہوں اسے کچھ گورے فسادیوں کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔ خطرہ تھا کہ نمازِ تراویح کے دوران نمازیوں پر دہشت گردی کا حملہ کیا جائے گا۔ امام مسجد نے ناصرف پولیس کو اطلاع کر دی بلکہ نمازیوں کو بھی ہوشیار کر دیا۔ بات پھیل گئی۔ میں پہلے روزے کی تراویح کے لئے مسجد گیا تو یہ دیکھ کر حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ کچھ رضاکار بڑی تعداد میں موجود تھے جنہوں نے مسجد کو اپنے حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا اور وہ مشکوک حضرات کی جامع تلاشی بھی لے رہے تھے۔ یہ رضاکار اس آبادی میں رہنے والے سکھ اور کچھ انگریز تھے، جنہوں نے ’’تھریٹ‘‘ (Threat) کی خبر سن کر اور خطرہ مول لے کر اپنے آپ کو مسجد کی حفاظت کے لئے پیش کر دیا تھا۔ وہ ہر نمازی سے کہہ رہے تھے آپ خشوع و خضوع سے نماز ادا کریں، تراویح پڑھیں ہم آپ کی حفاظت کریں گے۔ بظاہر ہم اخبارات میں اکثر انگریز لونڈوں کے ایشیائی باشندوں اور خاص طور پر مسلمانوں پر حملوں کی خبریں پڑھتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کو دہشت گردی کا الزام بھی سننا پڑتا ہے اور حجاب پہننے والی خواتین پر فقرے بھی کسے جاتے ہیں لیکن جب حملے کی دھمکی ملی، عبادت میں دخل دینے اور فساد پھیلانے کی خبر پھیلی تو وہیں رہنے والے مسجد کی حفاظت کی خاطر اپنے آرام کو قربان کرکے باہر نکل آئے..... اس معاشرے کا ایک ظاہری چہرہ تھا اور دوسرا داخلی یا باطنی چہرہ.....
امریکی صدر ٹرمپ نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کیلئے اسلامی دہشت گردی کا نعرہ لگا کر سا ت مسلمان ممالک کی امریکہ یاترا پر پابندی لگا دی۔ ٹرمپ کے ظاہری چہرے پر بھی سختی اور کچھ نفرت کے آثار نظر آتے ہیں اور اس کا باطنی چہرہ بھی ویسا ہی ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے۔ طنز نگار کہیں گے کہ ٹرمپ منافق نہیں۔ اندر باہر سے ایک جیسا ہے۔ درست لیکن اگر اندر محبت، انصاف اور انسانی ہمدردی سے منور ہو تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے ورنہ محبت، انصاف اور انسانی قدروں سے محروم باطن ایک سزا ہوتے ہیں، ایک لعنت ہوتے ہیں اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی..... اب آپ نے دیکھ لیا کہ ٹرمپ کا چہرہ امریکہ کا اصلی یا باطنی چہرہ نہیں ہے۔ مجھےذاتی طور پر علم ہے کہ 9/11کے بعد امریکی مسلمانوں سے ہوشیار رہتے ہیں، دل میں مسلمانوں سے خدشے کی چبھن چھپائے ہوتے ہیں۔ امریکہ، انگلستان، بلجیم، فرانس اور کئی دوسرے ممالک میں مسلمان نوجوانوں کے خودکش حملوں اور دہشت گردی نے امریکہ اور یورپی ممالک کو نفرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ آئے دن امریکہ کے اندرونی ہوائی سفروں میں مسلمانوں کو جہازوں سے اتارنے کی خبریں موصول ہوتی ہیں۔ تمام تر روشن خیالی اور وسیع النظری کے باوجود حجاب پہننے والی عورتوں پر حملوں اور فقرے بازی کی اطلاعات ملتی ہیں لیکن یہ ہے امریکی معاشرے کا ظاہری چہرہ جسے مسلمانوں نے اپنے اعمال اور حرکات سے مشکوک بنایا ہے۔ اب آپ نے دیکھ لیا کہ مسلمان ممالک پر پابندی لگانے کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج بھی امریکہ، انگلستان اور دوسرے یورپی ممالک میں ہی ہو رہا ہے جبکہ مسلمان ممالک، مسلم امہ، میں ایران کے علاوہ ٹرمپ کے خلاف کہیں سے ردعمل نہیں آیا۔ کچھ عرب ملکوں نے ٹرمپ کے اقدام کی حمایت کی ہے اور دوسرے ممالک اپنی نام نہاد عزت بچائے ہوئے ہیں۔ امریکی معاشرے کا انسانی قدروں، انصاف اور مذہبی رواداری اور برداشت پر اس قدر یقین ہے کہ امریکی قوم کی اکثریت نے اپنے ہی صدر کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔ 14ریاستوں نے ٹرمپ کا حکم نامہ ماننے سے انکار کر دیا ہے، بہت سی عدالتوں نے صدارتی فیصلے کو غیرآئینی قرار دے دیا ہے، وکیلوں کی بڑی تعداد امریکی ہوائی اڈوں پر پھنسے مسلمانوں کی قانونی مدد کر رہی ہے، اسٹار بکس کافی امریکہ کی بہت بڑی کمپنی ہے ،اس کا مالک یہودی ہے اور سالانہ 21ارب ڈالر کا کاروبار کرتا ہے۔ اس نے اپنی کمپنی میں مسلمانوں کو دس ہزار ملازمتیں دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ کئی امریکی عورتوں نے حجاب پہننے کا اعلان کر دیا ہے، بہت سے امریکی یہ پلے کارڈ پکڑے سڑکوں پر کھڑے ہیں کہ ہمارا پڑوسی مسلمان ہے، ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی جھلک ہے امریکہ کے باطنی چہرے کی..... جوں جوں ٹرمپ پابندیوں کی زنجیریں لہرائے گا یہ باطنی چہرہ کھلتا چلا جائے گا۔ آج امریکی ریاستیں ہی نہیں کینیڈا جیسا وسیع ملک بھی مسلمان مہاجرین کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔ شام کے سب سے زیادہ مہاجرین کو کسی مسلمان ملک نہیں بلکہ جرمنی نے اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔ امریکہ کا ایک چہرہ وہ ہے جس نے شام، عراق، لیبیا، افغانستان جیسے ممالک پر بے تحاشا بمباری کر کے لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں، جس نے اسلامی دنیا کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے اور جس کے ڈرون حملے ہمارے لئے ڈرائونا خواب ہیں۔ یہ امریکہ کے حکمرانوں کے کارنامے ہیں اور یہ امریکہ کا ظاہری یا خارجی چہرہ ہے۔ یہ امریکہ کا باطنی یا اندرونی چہرہ نہیں۔ یاد رکھئے کہ کسی قوم یا معاشرے کی اصلی طاقت باطنی چہرہ ہوتا ہے جو قوم کو ہر صورت یکجا رکھتا، محبت کادرس دیتا، انسانی قدروں کو زندہ رکھتا اور ترقی و عروج کی راہیں کھولتا ہے جبکہ ظاہری چہرہ بدلتا رہتا ہے۔ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ امریکہ کو توڑ دے گا، امریکی اتحاد میں شگاف ڈال دے گا لیکن میں جب امریکہ کا باطنی چہرہ دیکھتا ہوں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ امریکی قوم امریکہ کو ٹوٹنے نہیں دے گی، اس کا باطن اس کے اتحاد کا سب سے بڑا ذریعہ (Source) ہے۔




.
تازہ ترین