• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہتے ہیں، واہ کیا سین ہے۔ ووٹوں میں پچھاڑے جانے کے باوجود، جونہی ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدارت سنبھالی، نکلیں میدان میں دسیوں لاکھ گلابی ٹوپیوں والیاں، یہ دھمکانے کو تمہاری فسطائی نسل پرستی اور گھٹیا پاپولزم نہیں چلے گا۔ اور جونہی اُس نے سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پہ امریکہ میں بندش کا حکم نامہ جاری کیا تو جیسے امریکہ میں کہرام مچ گیا۔ ہزارہا لوگوں نے ہوائی اڈوں پر عوامی یلغار کر دی اور وکلا لوگوں نے وفاقی ججوں سے حکمِ امتناعی لیا، تو وہ تمام مسافر جو ہوائی اڈوں کے اندر روک لئے گئے تھے، امریکی گورے تھے یا رنگدار اُنہیں کندھوں پہ اُٹھا گھروں کو روانہ کر دیا۔ یہ ہوتی ہے عوامی جمہوری مزاحمت، ایک متعصب نسل پرست مسخرے آمر کے خلاف۔ ٹرمپ صدر کیا بنے امریکہ میں سخت احتجاج اور دُنیا میں عجب اضطراب بڑھتا ہے کہ چلا جا رہا ہے۔ جس طرح کی اس ٹیلی وژن ڈھونگی نے انتہائی اشتعال انگیز مہم چلائی تھی، جس میں اُس نے عورتوں کو بخشا، نہ رنگدار لوگوں کو اور اُسی امریکی خواب کا تیاپانچہ کر دیا جو تارکینِ وطن کی مملکت کی جمہوری و آئینی بنیاد ہے۔ معاملہ فقط داخلی سیاست میں گوری بالادست قوم پرستی کا نہ تھا، ٹرمپ نے اُس تمام عالمی نظام جو اتحادیوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد بُنا تھا اور جسے امریکی سپرپاور کی قیادت میں بعد از سرد زمانے میں ایک نئے عالمی انتظام (World Order) کی صورت میں مسلط کیا گیا تھا، ٹرمپ نے آزاد تجارت کی گلوبلائزیشن کے مقابلے میں قومی سرمایہ داری کی دیوار کھڑی کرنے کے عزائم سے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO)، ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، نافٹا، بحرالکاہل کے تعاون اور اٹلانٹک کے پار یورپی معاشی یونین (EU) سب کو اُلٹنے پلٹنے کا عندیہ دے دیا۔ یہی نہیں اُس نے تمام مغربی فوجی اتحادوں، بشمول نیٹو (NATO)، جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ دفاعی بندھنوں کے خرچے اُٹھانے سے ہاتھ کھینچنے کا اعلان کر دیا۔ غرض واشنگٹن میں بنے آزاد منڈی اور لبرل اقدار کے اتفاقِ رائے (Washington Consensus) کی چھٹی کرا دی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
امریکہ کے بانیوں نے دُنیا کے سب سے جمہوری آئینی نظام کی بنیاد رکھتے ہوئے، بہت سے احتیاطی اقدامات اور پابندیاں (Checks and Balances) لگائے تھے کہ کوئی عوامی فسطائی (Fascist Populist) اقتدار پر اگر قبضہ بھی کرلے تو جمہوریت اور آزادیوں کو پامال نہ کر پائے۔ اپنے پہلے دو ہفتوں ہی میں ٹرمپ نے دیکھ لیا کہ وہ دُنیا کا طاقتور ترین مقتدر شخص ہوتے ہوئے بھی آئینی حدود اور حقوق و آزادیوں کو پامال نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ مہم پر امریکہ کی تمام ریاستوں، کینیڈا، جرمنی، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن حیران ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کہ کسی مسلم ملک میں احتجاج ہوا نہ مذمت ہوئی۔ برادر عرب ملک نے تو اسے خوش آمدید کہا جبکہ ہماری وزارتِ خارجہ کی سٹی گم ہو کر رہ گئی۔ البتہ کسی نے للکارا بھی تو عراق کی پارلیمنٹ اور ایرانی حکومت نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ اب تو چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ ایران کے نیوکلیئر پروگرام پہ جو سمجھوتہ ہوا تھا، وہ بھی کھٹائی میں پڑتا نظر آ رہا ہے۔ اب ہونا یہ ہے کہ نئی فوجی طاقتیں، جیسے جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا سامنے آئیں گی اور نئی عالمی صف بندیاں ہوں گی اور ایک سپرپاور کا کنٹرول دھڑام سے گرے گا تو سہی، لیکن دوسری نہایت خوفناک صورتوں میں سامنے آئے گا۔ ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کو ڈونلڈ ٹرمپ نے کرۂ ارض سے پاک کرنے کا جو اعلان کیا ہے، وہ کیا کیا تباہیاں لائے گا، اس کے بارے میں ابھی صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ گندم سے زیادہ جو (یعنی عام مسلمان) بھی کہیں پس کر نہ رہ جائیں۔ پہلے ہی قیامت کے مناظر ہم شام، عراق، لیبیا اور یمن میں دیکھ چکے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کی جُڑی پٹی میں کیا ہونا ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ ’’دکھاؤ کچھ، کرو کچھ‘‘، کچھ کو مارو، کچھ کو سنبھالو والی دہری پالیسی چلنے کو رہی۔ سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ نمائشی لیپاپوتی سے کام نہیں چلے گا اورا سٹرٹیجک مہروں کو ٹھکانے لگائے بغیر کام چلنے والا نہیں۔ کالعدم تنظیموں کو خیرباد کہنے اور پاکستان کی سرزمین کو کسی بھی طرح کی دہشت گردی سے پاک کرنے کا کام جو جنرل راحیل شریف نے آگے بڑھایا تھا، اُسے جنرل باجوہ کی جانب سے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے جس عزم و استقلال کا عہد کیا گیا ہے، اُسے جلد پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی تیز تر کوششیں کرنی ہوں گی۔ ورنہ اللہ حافظ ہے یا پھر اللہ حامی و ناصر ہو۔
ماہرینِ نفسیات جس شخص کو خود پسند نرگسی اور پُرفریب دروغی (Malignant Narcissist) قرار دے رہے ہیں جو حقیقت کو نہیں دیکھ سکتا اور جسے اپنی لن ترانی کے سوا کوئی دلیل کوئی منطق نہیں بھاتی۔ ایسے شخص کا دُنیا کے طاقتور ترین عہدے پہ براجمان ہونا امریکہ سمیت تمام دُنیا کے لئے کسی بڑے خطرے سے خالی نہیں۔ انسانی حقوق، جمہوری و شہری آزادیوں، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق، ماحولیاتی تحفظ، ترک اسلحہ اور ایک عالمی منصفانہ نظام کے لئے دہائیوں سے کی گئی کوششوں اور حاصلات داؤ پر لگ گئے ہیں۔ وہائٹ ہاؤس کے شیشے کے گھر میں ایک بدمست ہاتھی جس کے ہاتھ میں نیوکلیئر اسلحہ کے تمام تر بٹن ہیں سے اللہ اس کرۂ ارض اور ارضِ پاک کو محفوظ رکھے۔ کہتے ہیں کہ ایک بدمست ہاتھی کے سامنے نہ آنے میں ہی بچت ہے۔ ٹرمپ نے دوست کیا، اتحادی کیا، سب کے ناک میں دم کرنا ہے۔ اور ہم تو پہلے ہی ناکوں چنے چبا رہے ہیں۔ ٹرمپ نے ہندوستان سے معاملہ سیدھا کر کے چین کی مشکیں کسنے کے ساتھ ساتھ، کچھ ہماری بھی طنابیں کھینچنی ہیں۔ بس تیار رہنے اور حفظِ ماتقدم کے طور پر کچھ نئی پالیسیاں اپنانے اور اُنہیں عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔
سوال ہے کہ کیا ٹرمپ عالمی سرمایہ داری اور جمہوری اقدار کیلئے گورکن ثابت ہوں گے۔ لگتا کچھ ایسے ہی ہے، وہ سرمایہ داری کے بحران کو نئی جہت لگائیں گے اور اس طرح کہ امریکہ اپنی قومی ریاستی اجارہ دارانہ سرمایہ داری کو مضبوط کر پائے۔ لیکن تاریخ کا پہیہ تو آگے بڑھنا ہی ہے۔ اب ایک کثیر مرکزی دُنیا وجود میں آ ئے گی اور امریکہ تجارتی بندشوں سے چین اور دوسری سرمایہ دارانہ قوتوں کو پچھاڑ نہیں پائے گا۔ اسی طرح جمہوری آزادیوں، انسانی حقوق کی بساط بھی لپیٹی نہیں جا سکے گی۔ خود امریکہ اور یورپ میں انتہاپسندی کے خلاف جو مضبوط اور وسیع ترین محاذ اُبھر رہا ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ جمہوری اور انسان دوست دُنیا کی جانب سفر کو آگے بڑھائے گا۔ لیکن اس اثنا میں جگہ جگہ چھوٹے موٹے ٹرمپ اُبھر کر سامنے آ رہے ہیں اور مزید آئیں گے۔ جیسے روس کا مردِ آہن پیوٹن، ترکی کے ایردوان، بھارت کا قوم پرست مودی، داعش کا خود ساختہ خلیفہ، خونخوار بنیادپرستوں کی خون آشام آمرانہ ملوکیتیں، جو سب سے خوفناک ردِّعمل سامنے آئے گا وہ اسلامی دُنیا میں ہوگا جہاں پہلے ہی غریب مسلمانوں پر کونسی برق ہے جو نہیں گر رہی۔
ٹرمپ کی اسلام دشمنی پر مبنی نسل پرستی ہمارے ہاں سادہ لوح لوگوں کو اُس نفرت پسندی کی آگ میں دھکیلے گی، جو درحقیقت ٹرمپ ہی کی نفرت انگیز نسل پرستی کے ہاتھ میں کھلونا بن کر مسلمانوں کی میانہ رو، اعتدال پسند، انسان دوست اور امن پرور اکثریت کو مشکلات سے دوچار کر رہی ہے۔ ابھی سے مملکتِ خداداد میں ایسے اشتعال انگیز، فرقہ پرست، تکفیری میدان میں اُتر آئے ہیں جو عقلیت پسند روشن خیال اور جمہوری لوگوں کے خلاف کذب بیانی اور مذہبی اشتعال انگیزی سے قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنا چاہتے ہیں اور اُنہیں کوئی روکنے والا نہیں۔ اللہ اور اس کے محبوب رسول محمد مصطفےٰ ﷺہم پر رحم کریں اور ہمیں ان فتنہ گروں سے محفوظ رکھیں۔ لیکن لوگ گمراہ ہونے والے نہیں وہ کذب بیانوں اور اشتعال انگیزوں سے واقف ہیں اور اُن پر لعنت بھیجتے ہیں۔ جیسے ٹرمپ کے خلاف نکلے ہیں گلابی رنگ کی ٹوپیاں پہنے امریکی مرد و خواتین، ویسے ہی نکلیں گے پاکستان کے عوام جمہوریت کیلئے، شہری و انسانی حقوق کیلئے، امن کے لئے اور وطنِ عزیز کی سلامتی اور خوشحالی کیلئے ۔ ٹرمپ چلے گا نہ پاکستانی فتنہ گر!



.
تازہ ترین