• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تارکین وطن اور 7 مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ داخلے پر پابندی کے ایگزیکٹو آرڈر پر امریکہ اور مغربی ممالک کے لوگوں نے جو ردعمل ظاہر کیا ہے ، اس سے انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کا معاشرہ اعلیٰ اقدار کا حامل ہے اور انہیں دنیا پر اخلاقی سبقت حاصل ہے ۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں لوگ صدر ٹرمپ کے اس آرڈر کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں ۔ صرف تارکین وطن کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیمیں ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی سراپا احتجاج ہیں ۔ اس احتجاج میں امریکی ریاستیں بھی شامل ہو گئی ہیں اور بعض مغربی ملکوں نے تو امریکی صدر کی اس پالیسی کی سرکاری سطح پر کھل کر مخالفت کی اور اس پالیسی کو نہ صرف غیر منصفانہ بلکہ غیر انسانی بھی قرار دیا ہے ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا ایگزیکٹو آرڈر مسلمانوں کے خلاف سمجھا جا رہا ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں بار بار یہ اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دیں گے ۔ عام تاثر یہ بھی ہے کہ مسلم مخالف جذبات کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کے بعض حلقوں کی سیاسی حمایت حاصل ہوئی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح سے عمومی تاثر یہ پیدا ہوا تھا کہ امریکی معاشرہ تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہو رہا ہے اور اپنا حقیقی جوہر کھو رہا ہے ۔ ٹرمپ کا ایگزیکٹو آرڈر بہت حد تک مسلمانوں کو ہی ہدف بناتا ہے لیکن سب سے زیادہ حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ اس ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف جو لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں یا جنہوں نے مختلف فورمز پر آواز بلند کی ہے ، ان میں زیادہ تر غیر مسلم ہیں ۔ امریکہ کی خواتین پہلے اپنے حقوق کے لئے ٹرمپ کے خلاف سڑکوں پر آئی تھیں اور اب وہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے سڑکوں پر موجود ہیں ۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ تارکین وطن کے حقوق کے لئے کام کرنے والی اور انسانی حقوق کی زیادہ تر تنظیمیں غیر مسلم خصوصاً یہودی چلاتے ہیں ۔ امریکی اور مغربی معاشروں کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ کثرتیت (Pluralism) معاشروں کا حسن ہے اور اس سے معاشرے زیادہ توانائی حاصل کرتے ہیں ۔ برطانوی پارلیمنٹ میں اپوزیشن ارکان نے تو یہاں تک مطالبہ کیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کو برطانیہ کا دورہ نہ کرنے دیا جائے ۔ بعض ارکان نے تو انہیں فاشسٹ قرار دیا ہے ۔ برطانوی عوام بھی ٹرمپ کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں ۔ اسی طرح فرانس ، جرمنی اور دیگر ملکوں سے بھی ٹرمپ مخالف مظاہروں کی رپورٹس مل رہی ہیں ۔
چار امریکی ریاستوں واشنگٹن ، نیویارک ، میسا چوسٹس اور ورجینیا نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کی مخالفت کی ہے اور اسے امریکی آئین اور مذہبی آزادی کی ضمانت کے منافی قرار دیا ہے ۔ یہ ریاستیں مذکورہ آرڈر کے خلاف عدالتوں میں پہنچ گئی ہیں ۔ سوشل میڈیا پر بھی ٹرمپ کے آرڈرز کے خلاف ایک بہت بڑی مہم جاری ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ دستخطی مہم بھی چلائی جا رہی ہے اور لاکھوں لوگ اپنے دستخط کرکے اس آرڈر کو مسترد کر چکے ہیں ۔ ٹرمپ نے جیسے ہی ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے ، ویسے ہی کینیڈا کی طرف سے تارکین وطن کو یہ پیشکش ہوئی کہ وہ ادھر آ جائیں ، انہیں وہاں خوش آمدید کہا جائے گا ۔
مسلمان ملکوں میں سب سے زیادہ سخت ردعمل ایران کی طرف سے آیا ۔ ایران کی طرف سے یہ کہا گیا کہ اگر امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند ہے تو ایران بھی امریکیوں کا یہاں داخلہ بند کر دے گا ۔ دیگر مسلمان ممالک کا ردعمل بہت محتاط ہے ۔ غیر مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ غیر مسلم عوام کی طرف سے ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف بہت بلند آواز آئی ہے ۔ امریکہ اور مغرب کے لوگوں کو سرد جنگ کے بعد امریکہ اور اس کی اتحادی قوتوں نے مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا اور ’’ تہذیبوں کے تصادم ‘‘ کے نظریہ کو فروغ دیا ۔ یہ باور کرایا گیا کہ مسلمان صرف آج کے ہی نہیں بلکہ تاریخی طور پر مغربی لوگوں کے دشمن ہیں ۔ صلیبی جنگوں کے حوالے بھی دیئے گئے ۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جو نام نہاد اور مصنوعی جنگ شروع کی ، اسے ہمارے مسلمان ملکوں میں بھی حقیقت سمجھ لیا گیا اور کئی ملک خصوصاً پاکستان نے اس جنگ میں اپنے آپ کو جھونک دیا اور اس جنگ کی آگ میں آج تک جل رہا ہے ۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں لوگوں نے پہلے بھی امریکہ کی فوج کشی اور پالیسیوں کی مخالفت میں بڑے بڑے مظاہرے کیے ۔ وہاں کے لوگ آج بھی یہ سمجھتے ہیں ہے یہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی استعماری اور سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے تیسری دنیا خصوصاً اسلامی ممالک میں دہشت گردی اور انتشار کی آگ پھیلی ہوئی ہے ۔ اگر وہاں سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ مغربی معاشرے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نقل مکانی ایک انسانی المیہ ہے ۔ وہ ہر نسل اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مساوی حقوق پر بھی یقین رکھتے ہیں اور ان کا نظریہ یہ ہے کہ جو لوگ مغربی ممالک میں رہتے ہیں ، انہیں رنگ ، نسل یا مذہب کی بنیاد پر کسی امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ۔ مغربی معاشروں نے یہ بھی باور کرا دیا ہے کہ تارکین وطن کے لئے سرحدیں بند کرنا یا ان کی میزبانی نہ کرنا غیر مہذب ملکوں اور معاشروں کا کام ہے ۔ امریکی نیو ورلڈ آرڈر نے امریکی اور دیگر مغربی معاشروں کو کسی حد تک تعصب اور تنگ نظری کی طرف دھکیلا لیکن ان معاشروں کا بنیادی جوہر ختم نہ کیا جا سکا ۔ وہ بنیادی جوہر یہ ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور تمام انسانوں کے مساوی حقوق ہیں ۔ نیو ورلڈ آرڈر نے ٹرمپ پیدا کیا لیکن ٹرمپ کے خلاف ان معاشروں میں مزاحمت موجود ہے ، جو ان معاشروں کے زندہ ہونے اور اخلاقی طور پر برتر ہونے کا ثبوت ہے ۔



.
تازہ ترین