• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے کالم میں آپ کو ایک نہایت ہی اہم واقعہ کے بارے میں بتلایا تھا کہ کس طرح میں جرمنی سے نائیجیریا جاتے جاتے رہ گیا تھا اور یہ کہ اگر میں نائیجیریا چلا جاتا تو پاکستان کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی مگر قدرت کا اپنا نظام ہے۔ آج اسی سلسلے کا ایک اور اہم واقعہ بیان کرنا چاہتاہوں۔
میں نے پچھلے کالم میں بیان کیا تھا کہ میں نے پروفیسر اشٹارک سے ملاقات کے بعد نائیجیریا جانے کا ارادہ تبدیل کردیا تھا اور ان سے کہہ دیا تھا کہ میں ایک ماہ بعد جب نیا سمیسٹر شروع ہوگا تو برلن آئونگا۔ میں نے نائیجیریا خط لکھ دیا تھا کہ میں تعلیم جاری رکھنا چاہتا ہوں اور انھوں نے بُرا نہیں مانا تھا بلکہ اچھی خواہشات کا اظہار کیا تھا۔
میرے پاس اب تقریباً ایک ماہ تھا ۔ میں نے پریکٹیکل ٹریننگ جاری رکھی اورایک دن سوچا کہ میں نے ایمسٹرڈم اور راٹرڈم ہالینڈ میں دیکھ لئے ہیں لیکن ہیگ نہیں دیکھا جس کی بہت تعریف سُنی تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ ایک ویک اینڈ پر ہیگ کا چکّر لگا لوں۔ ٹرین سے ہیگ کا دو گھنٹہ کا فاصلہ تھا۔ میں سنیچر کو صبح ہیگ چلا گیا۔ وہاں شہر کی، ساحل کی، بین الاقوامی عدالت وغیرہ کی سیر کی۔ پاکستانی سفارت خانہ باہر سے دیکھا۔ میری ہمیشہ سے عادت تھی کہ جب کبھی کہیں سیر کو جاتا تھا تو وہاں سے اپنی چھوٹی بہن رضیہ حسین خان کو ایک خوبصورت پوسٹ کارڈ روانہ کرتا تھا جس پر اس شہر کی خوبصورت جگہوں کی تصاویر ہوتی تھیں۔ میںاور چھوٹی بہن ایک دوسرے کے بہت قریب تھے اور ایک دوسرے کو چاہتے تھے وجہ یہ تھی کہ تمام بڑے بھائی اوربہن پاکستان چلے گئے تھے اور پھر بھائی سعودی عرب چلے گئے تھے اور بڑی بہن کی شادی ہوگئی تھی اور وہ علیحدہ رہتی تھیں۔ اسطرح بہن اور میں والدہ کے ساتھ تھے۔
شہر کی تصاویر والا کارڈ لینے کے لئے میں ایک سوینیر کی دکان میں گیا۔ میں نے ایک خوبصورت کارڈ خریدا اور دکاندار خاتون سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس پوسٹیج اسٹیمپ بھی ہے۔ اس نے معذرت کی اور کہا کہ پوسٹ آفس سے لے لوں جو زرا دور ہے۔ اتنے میں ایک نوجوان خاتون نے جو پاس ہی کھڑی تھیں مجھ سے پوچھا کہ خط کہاں بھیجنا ہے۔ میں نے بتلایا کہ پاکستان۔ انھوں نے اپنے بیگ میں سے ایک چھوٹی سی نوٹ بُک نکالی اور اس میں سے ایک ٹکٹ نکال کر دیدیا۔ میں نے قیمت پوچھی تو کہا رہنے دیں۔ معمولی قیمت ہے۔ چلتے چلتے انھوں نے پوچھا میںکیا کرتا ہوں اور جرمنی میں کہاں رہتا ہوں۔میں نے بتلایا کہ ڈسل ڈارف میں، اسٹوڈنٹ ہوں۔ ایک ماہ بعد بَرلن چلا جائونگا۔ میں نے ان سے ان کا پتہ لے لیا۔ ہم نے چھوٹی موٹی خط و کتابت شروع کردی۔ مجھے انھوں نےبتایا کہ وہ تحفہ جات کی بڑی دکان ان کے والدین کی ہے۔ میں نے انکو ڈسل ڈارف آنے کی دعوت دی۔ ایسٹر کی تعطیلات آرہی تھیں وہ دو دن کے لئے ڈسل ڈارف آگئیں۔ میں نے ان کو ڈسل ڈارف، کولون وغیرہ کی سیر کرادی۔ جس گھر میںمَیں کرائے پر رہتا تھا میں نے ایک کمرہ ان کے لئے بک کرالیا تھا۔ اپریل کے مہینے میں میں برلن چلا گیا۔ برلن بہت ہی خوبصورت شہر تھا مگر اتحادیوں کی بمباری سے کافی تباہ ہوگیا تھا۔ ہمارا ہوسٹل یونیورسٹی سے بہت قریب تھا۔ یہ اعلیٰ یونیورسٹی تھی یہاں کے کئی پروفیسروں کو نوبل انعام مل چکا تھا۔ بلڈنگ پرانی تھی مگر بہت اچھی۔ ہمارے ہوسٹل کے ساتھ ہی مہمانوں کے لئے بھی ایک ہوسٹل تھا جس میں دوستوں کو ٹھہرا سکتے تھے۔ گرمی کی چھٹی میں میں نے امریکن افواج کے اکائونٹس کے دفتر میں ملازمت کرلی، تنخواہ 600 مارک تھے اور ٹیکس وغیرہ کچھ نہ تھا۔ ایک مہینے کی تنخواہ تین ماہ کے مکمل اخراجات کے لئے کافی تھی۔ وہاں دو سمیسٹر ہوتے تھے ایک چار ماہ کا اور ایک تین ماہ کا۔ اسطرح مجھے پانچ ماہ کام کرنے کو مل جاتے تھے۔ میں نے اپنی دوست خاتون کو برلن آنے کی دعوت دی اور وہ ایک ہفتہ کے لئے آگئیں۔ میں نے ہوسٹل میں ٹھہرادیا اور برلن کی سیر کرادی۔ وہ بہت خوش ہوکر واپس چلی گئیں۔ چند دن بعد انھوں نے پوچھا کہ اگر وہ برلن میں ملازمت کرلیں تو مجھے اعتراض تو نہ ہوگا۔ میں نے کہا بالکل نہیں بلکہ مجھے خوشی ہوگی۔ انہوں نے امریکی آرمی کے فنانس ڈیپارٹمنٹ میں جگہ قبول کرلی اور میں نے ان کے ساتھ جاکر ایک خاتون کے گھر میں ایک کمرہ کرائے پر دلوادیا۔ شام کو یہ میرے ہوسٹل آجاتی تھیں اور ہم ساتھ ہی کھانا پکاتے اور کھاتے تھے۔ ہوسٹل کے کچن میں بہت چہل پہل ہوتی تھی۔ کئی طلباء کی منگیتر اور دوست شام کو آجاتی تھیں۔ لڑکیوں کو 10 بجے ہوسٹل چھوڑنا پڑتا تھا۔ میں ان کو اس سے پہلے ہی تیز الیکٹرک ٹرین (ایس بان) میں بٹھا دیتا تھا۔ ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست بن گئے اور اکتوبر کی چھ تاریخ کو ان کی سالگرہ کے موقع پر میں نے منگنی کی تجویز کی تو انھوں نے والدین سے پوچھ کر قبول کرلی اور ہماری منگنی ہوسٹل میں دھوم دھام سے منائی۔ ہمارے فلور کے تمام طلباء نے اس میں شرکت کی۔
اب کرسمس کی تعطیلات آرہی تھیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ چھٹی پر ہیگ جائیں اور چھٹیاں ان کے والدین کے ساتھ گزاریں۔ ٹرین مشرقی جرمنی سے جاتی تھی اور اسکی پولیس بہت پریشان کرتی تھی۔ ٹرین کو دوتین گھنٹہ کھڑا کرکے اس کے دروازے کھولدیتے تھے جبکہ درجہ حرارت منفی 10 ڈگری سینٹی گریڈ سے منفی 15 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا تھا۔ بہت تکلیف ہوتی تھی۔ بہرحال ہم ہیگ پہنچے تو ایک دن میری منگیتر (جو اب 53 سال سے میری شریک حیات ہیں) نے کہا کہ کیا میں ہالینڈ میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔ میں یہاں کے نظام و تعلیمی اداروں سے ناواقف تھا۔ مجھے انھوں نے بتایا کہ ہیگ کے قریب ہی ڈیلفٹ نامی چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے، 25,20منٹ ٹرام سے لگتے ہیں وہاںبین الاقوامی شہرت کی اعلیٰ یونیورسٹی ہے۔ انھوں نے وہاں میٹا لرجی کے محکمے میں فون کیا۔ محکمہ کے سربراہ پروفیسر یُونِگن بَرکر موجود تھے انھوں نے کہا کہ ہم دوسرے دن صبح آکر مل لیں۔ یونیورسٹی دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی بہت اعلیٰ یونیورسٹی اور اعلیٰ آلات سے پُر۔ میری بیگم نے ان کو بتایا کہ یہ میرے منگیتر ہیں، پاکستان سے ہیں اور برلن میں پڑھ رہے ہیں اور میں چاہتی ہوں کہ یہ یہاں آجائیں کیونکہ میرے والدین عمر رسیدہ ہیں اور میں اکیلی ان کے ساتھ ہوں۔ پروفیسر نے کہا کہ میں یونیورسٹی سے سرٹیفیکٹ لے آئوں کہ کیا کیا پڑھا ہے اور میرا ایک گھنٹہ بھی ضائع نہ ہوگا۔ واپس برلن جاکر میں نے سرٹیفکیٹ لئے اور درخواست وزارت تعلیم کی معرفت میٹالرجی دیپارٹمنٹ کو بھیجدی۔ دو ہفتہ بعد وہاں سےداخلہ آگیا اور ہم ہالینڈ چلے گئے۔ پروفیسر اشٹارک کو بتلایا تو اس نے کہا کہ وہ بہت اچھی یونیورسٹی ہے اچھا ہے کہ تم تعلیم جاری رکھو ۔ میں نے یونیورسٹی جانا شروع کردیا۔ 9 مارچ 1964 کو پاکستانی سفارت خانے میں ہماری شادی ہوئی، مرحوم قدرت اللہ سفیر میرے گواہ تھے، نکاح مرحوم جمیل الدین حسن نے پڑھایا اور ہمیں استقبالیہ بھی دیا۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ تمام تبدیلیاں اور ہالینڈ میں تعلیم حاصل کرنا قدرت کی جانب سے طے شدہ پروگرام کے تحت ہورہا تھا۔
میں نے اچھے نمبروں سے تمام امتحانات پاس کئے اور ڈچ زبان پر بھی عبور حاصل کرلیا۔ یہ سب چیزیں مجھے منزل مقصود (یعنی نیوکلیر ٹیکنالوجی) کی طرف لے جارہی تھیں۔ میں نے وہاں ماسٹرز اچھے نمبروں سے پاس کیا اور میرے پروفیسر نے مجھے اپنا ریسرچ اسسٹنٹ بنا لیا۔ 1967 کی گرمی کی چھٹیوں میں ہم دونوں کراچی آئے اور بہن کے گھر ٹھہرے۔ میری بیگم کو پاکستان بہت پسند آیا ۔ اس وقت پاکستان تھا بھی بہت اچھا۔ جب ہم واپس گئے تو بجلی کے آلات بنانے والی کمپنی سے ڈاکٹریٹ کرنے کی پیشکش ملی۔ میں 4 دن یونیورسٹی میں کام کرتا اور ایک دن اس کمپنی میں ۔ اس دوران مجھے بلجیم کی مشہور یونیورسٹی لیوون (Leuven) سے ڈاکٹریٹ کرنے کی پیشکش ملی۔ ہم دونوں لیوون گئے اور پہلے ہی لمحہ مجھے بہت پسند کیا۔ بہت عمدہ فلیٹ دے رہے تھے اور یونیورسٹی اور وزارت تعلیم دونوں کی جانب سے وظیفے ملے تو بہت اچھی رقم تھی۔ وہاں وقت بہت ہی اچھا گزرا۔ میں نے کئی مقالے اعلیٰ رسالوں میں لکھے۔ ابھی میں 1972 کے اوائل میں ڈاکٹر آف انجینئرنگ کی ڈگری حاصل ہی کر رہا تھا کہ ایمسٹرڈیم میں واقع کمپنی ورک اسپور (جہاں ایک لاکھ افراد کام کرتے تھے) سے پیشکش ملی۔ میں نے قبول کرلی اور ہم ایمسٹرڈیم چلے گئے۔ کمپنی نے ہمیں اچھا گھردیا اور بہت اچھی تنخواہ۔ مجھے یہاں فوراً ہی یورینیم کی اَفزودگی کے کام پر لگا دیا گیا۔
یہاں میں نے یورینیم کو اَفزودہ کرنے کی سینٹری فیوج ٹیکنالوجی سیکھی جو میں نے پاکستان میں کامیابی سے استعمال کرکے پاکستان کو ایٹمی قوّت بنا دیا۔ آپ نے دیکھا کہ کس طرح قدرت نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچایا اور اس قابل کیا کہ میں یہ کام کرسکوں۔ اس میں میری بیگم کا بہت بڑا ہاتھ تھا کہ انھوں نے بہت ہی مشکل وقت گزارا اور احسان فراموشوں کے ہاتھوں بہت تکالیف اُٹھائیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اپنے ملک کے لئے کچھ کرسکتا تھا وہ میں نے کردیا اور کہیں اور نہیں گیا جبکہ میرے پاس اعلیٰ پیشکشیں تھیں۔

.
تازہ ترین