• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جھوٹ بول کر جیت جانے کے جتن کرنے والے بزدلوں نے ایک طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے لیکن سچ بول کر ہار جانے کے خوف سے آزاد کچھ بہادر لوگ اس طوفان میں بھی سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ ایک طرف امریکہ کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے جو مسلمانوں کے خلاف جھوٹ بول رہا ہے۔ مسلمانوں کے کچھ بہت محترم بادشاہ ٹرمپ کی تائید میں سر جھکائے کھڑے ہیں لیکن ٹرمپ کے اپنے ہی کئی ہم وطن اور ہم مذہب جج اُس کے فاشسٹ احکامات کو ماننے سے انکاری ہیں۔ دوسری طرف اپنے پیارے پاکستان میں کچھ مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف جھوٹ بول کر زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ جھوٹ بولنے والوں میں صرف کفر کے فتوے لگانے والے مذہبی انتہا پسند نہیں بلکہ ایسے پروگریسو بھی شامل ہیں جنہیں امریکی مصنف جونا گولڈ برگ نے اپنی کتاب ’’لبرل فاشزم‘‘ میں ہٹلر اور مسولینی کے پیروکار قرار دیا تھا۔ پاکستان میں سچ بولنے اور لکھنے والے مذہبی انتہا پسندوں اور لبرل فاشسٹوں کے لئے ہمیشہ ناقابل برداشت رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے کانگریس کی سیکولر قیادت اپنے اتحادی مولانا صاحبان کے ذریعے علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ پر کفر کے فتوے لگواتی رہی اور قیام پاکستان کے بعد بھی اس ملک کے طاقتور طبقے نے کمزور اکثریت کو جھوٹ بول بول کر تقسیم کئے رکھا تاکہ اس طبقے کی حکومت قائم رہے۔ یہ یکم مئی 1948ء کی بات ہے۔ لاہور کے وائی ایم سی اے ہال میں انجمن ترقی پسند مصنّفین نے مزدوروں کے عالمی دن پر ایک جلسہ کیا جس کی صدارت فیض احمد فیض نے کی۔ اس جلسے میں شاعروں اور ادیبوں کے علاوہ مزدور بھی شریک تھے جنہوں نے سرخ جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ یہ سُرخ جھنڈے اُس زمانے کے انگریز فوجی و پولیس افسران کو پسند نہ آئے۔ اگلے روز ایک اخبار ’’احسان‘‘ نے الزام لگا دیا کہ یوم مئی کے جلسے میں اسلام کی توہین کی گئی۔ بس پھر کیا تھا، لاہور کی درجنوں مساجد سے فیض صاحب کے خلاف کفر کے فتوے جاری کر دیئے گئے۔ فیض صاحب نے خاموشی اختیار کرنے یا ملک سے بھاگ جانے کی بجائے باغ بیرون موچی دروازے میں جلسہ کیا۔ عجیب بات یہ تھی کہ سلمان تاثیر کے والد ایم ڈی تاثیر نے ’’احسان‘‘ میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کے خلاف نظم لکھی تو مولانا چراغ حسن حسرت کی طرف سے جواب ’’نوائے وقت‘‘ نے شائع کیا۔ ’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی .....‘‘ میں ڈاکٹر ایوب مرزا نے فیض صاحب کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب اُن پر کفر کے فتوے لگ رہے تھے تو حمید نظامی نے اُن کا ساتھ دیا۔ یہ طوفان تھم گیا تو ایک دن مظہر علی خان کے گھر انجمن کا اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت صفدر میر کر رہے تھے۔ اجلاس میں انجمن کے سیکرٹری احمد ندیم قاسمی نے حکم جاری کیا کہ علامہ اقبال کو تباہ کر دیا جائے، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو اور ن۔ م راشد پر بھی حملہ کیا جائے کیونکہ یہ ترقی پسندی کی کسوٹی پر پورا نہیں اُترتے۔ ڈاکٹر ایوب مرزا نے فیض صاحب کے الفاظ میں لکھا کہ ....’’ہمیں یہ بک بک لگی اور ہماری ان سے جنگ ہو گئی۔ ہم نے اعتراض کیا کہ یہ کیا تماشا ہے، آپ لوگ کیا کر رہے ہیں، یہ تو سکہ بند قسم کی بے معنی انتہا پسندی ہے۔ ہماری نہ مانی گئی۔ ہم بہت دل برداشتہ ہوئے۔ اس کے بعد ہم انجمن کی محفلوں میں شریک نہیں ہوئے اور صرف پاکستان ٹائمز چلاتے رہے۔ ‘‘
ڈاکٹر ایوب مرزا کے ساتھ فیض احمد فیض کی یہ گفتگو پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ انتہا پسندی صرف مذہب کے ٹھیکیداروں میں نہیں بلکہ ترقی پسندی کے کچھ علمبرداروں میں بھی ہوتی ہے۔ ترقی پسندوں کے ساتھ فیض صاحب کے اختلاف کی ایک وجہ مسئلہ کشمیر بھی تھا۔ اس اختلاف کی تفصیل جاننے کے لئے فتح محمد ملک کی کتاب ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین پاکستان میں‘‘ کا مطالعہ بہت ضروری ہے جس میں فیض صاحب کے مخالف ترقی پسندوں کے طرز فکر کو اشتراکی ملائیت قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مطابق 1948ء میں پاکستان کے شاعروں اور ادیبوں نے جموں و کشمیر میں بھارتی جارحیت کی مذمت میں ایک بیان جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ انجمن ترقی پسند مصنّفین کے اراکین نے اس بیان کی حمایت نہیں کی لیکن فیض صاحب نے نا صرف اس پر دستخط کئے بلکہ پورا بیان پاکستان ٹائمز میں شائع کیا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ کشمیر کی آزادی کے داعی فیض صاحب کو 1951ء میں بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ فیض صاحب جیل میں قیدیوں کو درس قرآن دیا کرتے تو جیل حکام حیران ہوتے کیونکہ اُنہیں بتایا گیا تھا کہ یہ خطرناک کمیونسٹ اسلام کا دشمن ہے۔ میجر اسحاق محمد نے ’’رودادِ قفس‘‘ میں لکھا ہے کہ حیدر آباد جیل میں فیض صاحب درس قرآن و حدیث بھی دیا کرتے اور کشف المحجوب کے رموز و نکات بھی سمجھاتے۔ کامریڈ چوہدری فتح محمد نے ’’جو ہم پہ گزری‘‘ میں لکھا ہے کہ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں ایام اسیری کے دوران اُنہیں پتہ چلا کہ فیض صاحب علامہ اقبال پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ کامریڈ صاحب نے اقبال کے فکری تضادات پر گفتگو کی تو فیض صاحب نے دلائل کے ساتھ جواب دے کر اُنہیں مطمئن کر دیا۔ غور کیجئے غداری کے الزام میں قید کاٹنے والے فیض احمد فیض جیل میں علامہ اقبالؒ کا دفاع کیا کرتے تھے اور پھر جب اقبال کے اس پرستار کو لینن امن انعام ملا تو اقبال سے حسد کرنے والے اشتراکی ملّا ہاتھ ملتے رہ گئے۔ فیض کا اصل انعام یہ ہے کہ جو مکتبہ فکر اُن پر کفر کے فتوے لگاتا تھا آج اُس کی تقریریں فیض کے اشعار کے بغیر نامکمل رہتی ہیں اور جو مکتبہ فکر اُنہیں علامہ اقبالؒ کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا اُس نے فیض کی انقلابیت کو اپنے گلے کا ڈھول بنا رکھا ہے اور ’’بول کہ لب، آزاد ہیں تیرے‘‘ گاتا رہتا ہے۔ ان دونوں مکاتب فکر کو پاکستان میں ناکامی کا سامنا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور لبرل فاشزم کو پاکستان میں کبھی پذیرائی نہیں ملی۔ پاکستانی عوام نے ہمیشہ اعتدال کا ساتھ دیا ہے اور اعتدال کا نمونہ اُنہیں اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کے کردار میں ملا جو مغرب کے تعلیم یافتہ تھے لیکن حق پرست علماء سے رہنمائی لیتے تھے۔ لبرل مسلمان تھے لیکن ایک گستاخ رسولؐ کو قتل کرنے والے غازی علم دین کی رہائی کے لئے جدوجہد بھی کرتے تھے۔ جمہوریت پر یقین رکھتے تھے لیکن دین کی سیاست سے جدائی کو چنگیزی سمجھتے تھے۔ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کے پاکستان میں نہ تو کفر کے جھوٹے فتووں کی گنجائش ہے نہ ہی ترقی پسندی کے نام پر کسی گستاخ رسولؐ کو برداشت کیا جا سکتا ہے۔ یہاں لبرل فاشزم نہیں چلے گا۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے 2007ء میں مشرف کے انداز حکمرانی کے بارے میں سب سے پہلے لبرل فاشزم کی اصطلاح استعمال کی تھی کیونکہ مشرف کے حامی ترقی پسند ہم جیسوں کو ٹی وی ٹیررسٹ لکھا کرتے تھے۔ میں ٹیررسٹ تھا کیونکہ مجھے مشرف کی کشمیر پالیسی قبول نہیں تھی۔ میں موجودہ حکومت کی کشمیر پالیسی سے بھی مطمئن نہیں کیونکہ بھارت جنگ کی بھاشا میں بات کرے گا تو کوئی امن کی آشا نہیں چل سکتی۔ میری کشمیر پالیسی وہی ہے جو فیض، فراز اور حبیب جالب کی تھی۔ یہ ناچیز 2003ء میں عافیہ صدیقی کی گمشدگی پر آواز اٹھائے تو مذہبی انتہا پسندوں کا ساتھی کہلاتا ہے اور 2009ء میں سوات جا کر ملالہ یوسفزئی کو ٹی وی اسکرین پر دکھائے تو امریکی ایجنٹ قرار پاتا ہے۔ مجھ جیسوں کے مسلمان یا محب وطن ہونے کا فیصلہ کسی اخبار یا ٹی وی چینل کو نہیں بلکہ ملک کے قانون کو کرنا ہے۔ میں نے تو خود توہین رسالت اور غداری کے جھوٹے الزامات کا سامنا کیا ہے لیکن میں اُن کی حمایت نہیں کر سکتا جو ’’بھینسا‘‘ بن کر سوشل میڈیا پر اسلام کی توہین کرتے ہیں۔ ایسے لبرل فاشسٹوں کے بارے میں حکومت کی پُراسرار خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہیں قانون کے سامنے کیوں پیش نہ کیا گیا؟ اچھے طالبان اور برے طالبان کی پالیسی ناکام ہو چکی۔ کیا اب اچھے لبرل اور برے لبرل کی نئی پالیسی شروع ہو چکی ہے؟ نہ اچھے طالبان کسی کام کے تھے نہ اچھے لبرل کسی کام آئیں گے۔ کام آئیں گے تو صرف اچھے پاکستانی کام آئیں گے جو خود کو آئین و قانون سے بڑا نہیں سمجھتے۔

.
تازہ ترین