• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خنجر پر کوئی چھینٹ نہ دامن پہ کوئی داغ
ارے کون کم بخت کہتا ہے ہم نے کوئی چیز ایجاد نہیں کی۔ہم نے ایسے جان لیوا ہتھیار اور مہلک اوزار بنائے ہیں جن کے سامنے اقوام مغرب کی تمام تر سائنسی ترقی ماند پڑ جائے۔کبھی کسی دور میں ڈانگ سوٹے چلتے تھے۔زمانہ بدلاتو تلواریں ،نیزے اور بھالے وجود میں آئے اور پھر بندوقوں نے تیر و تفنگ کی جگہ لے لی۔بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ تقسیم ہند سے پہلے ہندو اور مسلمان امن و آشتی سے رہا کرتے تھے۔تمام تر خامیوں کے باوجود ہندو کی ایمانداری ضرب المثل تھی اس لئے کاروباری معاملات اور لین دین میںلوگ اس پر اعتماد کیا کرتے تھے۔ایک گائوں میں رام داس کی دکان پر گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا مگر اس سے چند گز کے فاصلے پربیٹھا مسلمان دکاندار غلام رسول دن بھر مکھیاں مارتا رہتا۔گائوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ۔ایک دن غلام رسول ہدیہ لیکر امام مسجد کے پاس پہنچا اور اسے اپنی رام کہانی سنائی۔مولوی صاحب نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا،بس دیکھتے جائو اس جمعہ کو میں کیا کرتا ہوں۔نماز جمعہ پڑھانے سے پہلے تقریر کرتے ہوئے مولوی صاحب نے مسلمانوں کی غیرت کو للکارتے ہوئے کہا:’’کچھ شرم کرو، کلمہ گو ہو کر ایک کافر سے خریداری کرتے ہو اور اپنے مسلمان بھائی کی دکان پر نہیں جاتے۔‘‘کئی دن گزر گئے مگر لوگ ٹس سے مس نہ ہوئے اور صورتحال جوں کی توں رہی۔غلام رسول پریشانی کے عالم میںپھر ہدیہ لیکر مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا ۔مولوی صاحب بہت دیر سوچ بچار کرنے کے بعد بولے ،جا بچے تیرا کام ہو گیا ،اس مرتبہ ایسا تیر بہدف نسخہ سجھائی دیا ہے کہ وار خالی جانے کا کوئی امکان نہیں۔جمعہ کو نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے مولوی صاحب نے گرجتے ہوئے کہاـ’’گائوں والو! اپنے ایمان کی فکر کرو ۔تمہیں میں نے پہلے بھی نصیحت کی تھی مگر تم باز نہیں آئے ۔تمہیں پتہ ہے رام داس کا مسلک کیا ہے؟یہ بد بخت تمہارے مسلک کا نہیں۔اس سے سودا نہ خریدنا ورنہ تمہارے نکاح ٹوٹ جائیں گے‘‘مذہب کی کمان کھینچ کر چلایا گیا یہ مسلک کا تیر اس قدر کارگر ثابت ہوا کہ لوگوں نے سوچے سمجھے بغیر رام داس کی دکان پر جانا چھوڑ دیا۔یہ تھا اس خطرناک ہتھیار سے پہلا وار جس سے بندہ مرتا تو نہیں تھا مگر گھائل ضرور ہوجاتا تھا۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے مسلک کے اس کمبل کو اس قدر وسعت دی کہ جب جسے چاہا اس میں لپیٹ کر ادھ موا کر دیا۔
مگراب وہ وقت گیا جب ان خودساختہ اور دیسی ہتھیاروں سے اپنے مخالفین کو گھائل کیا کرتے تھے۔ اب تو مارکیٹ میں ایسے ایسے خطرناک ہتھیار آ گئے ہیں کہ جب جو جسے چاہے یوں مار ڈالے کہ خنجر پر کوئی چھینٹ ہو نہ دامن پہ کوئی داغ۔آپ چاہیں تو ’’کارتوس ِغداری ـ‘‘ سے اپنے مخالف کا جسم ہی نہیں روح بھی چھلنی کر ڈالیں۔یہ وہ کارتوس ہے جسے حب الوطنی کا کوئی بھی خود ساختہ ٹھیکیدار کسی پر فائر کر سکتا ہے۔اگر کسی ٹی وی چینل کی بندوق میں ڈال کر چلائیں گے تو آپ کے دشمن کے پرخچے اڑ جائیں گے کیونکہ اس میں سے بیک وقت درجنوں چھرے نکلیں گے۔ سی آئی اے ،را،موساد اورایم آئی سکس کے ایجنٹوں کا قلع قمع کرنے والے چھرے ،بھارت اور امریکہ کے لئے کام کرنے والوں کا خاتمہ کرنے والے چھرے،ملک دشمنوں کا صفایا کرنے والے چھرے۔۔یہ ان گنت چھرے پلک جھپکتے ہی آپ کے حریف کو ملیا میٹ کر دیں گے ۔اور اگر آپ ان روایتی ہتھیاروں سے حملہ آور ہونے کا رسک نہیں لے سکتے اور چاہتے ہیں کہ دشمن کے بچ نکلنے کا کوئی امکان نہ رہے تو پھر مذہب کی توپ اٹھائیں اور کسی لائیو شو کے مورچے سے’’توہین کا کیمیائی ہتھیار ‘‘داغ دیں۔اس ہتھیار کا کمال یہ ہے کہ دشمن کی آنے والے نسلیں بھی اس کے تباہ کن اثرات سے محفوظ نہیں رہتیں۔اہل بیتؓ کی شان میں گستاخی کا الزام ،صحابہؓ کی اہانت کا بہتان یا پھر توہین رسالت کی تہمت ،ان میں سے کوئی بھی کیمیائی ہتھیار فائر کرتے ہی آپ کا مخالف یوں بھسم ہو جائے گا جیسے فاسفورس سے جلنے والوں کی لاش کوئلہ ہوجاتی ہے۔کوئی بھی ذاتی پرخاش ہو،مفاداتی تعصب یا پھرکسی قسم کا کینہ اور بغض ،کیمیائی حملہ کرکے مخالف کو ختم کر ڈالیں۔نہ ایف آئی آرکا جھنجھٹ ، نہ وکیل کرنے کی پریشانی ،نہ دلیل ڈھونڈنے کی حاجت ،نہ گواہ لانے کی ضرورت ،نہ ثبوت پیش کرنے کی نوبت ،نہ ٹرائل کا تکلف ،نہ جیوری کا تردد،بس آپ ہی مدعی ،منصف جو چاہیں فیصلہ صادر کر دیں۔لگے ہاتھوںاگر آپ اپنے شکار کو آزاد خیالی اور لبرل اِزم کی رسیوں سے باندھ کر نشانہ لیں تو آپ کا کام مزید آسان ہو سکتا ہے۔ان مہلک اوزاروں اور جان لیوا ہتھیاروں سے ذاتی حساب کتاب برابر کرنے کا سلسلہ تو ہمارے ہاں برسہا برس سے جاری تھا مگرالیکٹرونک میڈیا کی کوکھ سے جنم لینے والے بعض بہروپیوں نے اس سلسلے کو بام عروج تک پہنچا دیا ہے۔میں ان کےاوصافِ جمیلہ و حمیدہ ‘‘ اور ’’محاسن ‘‘ بیان کرنے پر قارئین کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا کہ سب لوگ ان ’’اسرار و رموز ‘‘ سے خوب واقف ہیں۔ناموری کا جنون اور شہرت کا لپکا بھی انسان کو کیسی کیسی پستی اور انتہاتک لے جاتا ہے۔آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ عقلمندی کی انتہا ہو سکتی ہے مگر پاگل پن ،حماقت اور بے وقوفی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ ان کی ہسٹریائی آوازیں بغیر کسی ناغہ کے روز آتی ہیں ۔یہ مذہب کی توپ اور حب الوطنی کی بندوق اٹھائے بلا تعطل ٹی وی چینل کی اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں اور اندھا دھند فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔یہ محض ایک شخص نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا جیتا جاگتاکردار ہےجو گائوں کے مولوی کی طرح لوگوں کے عقیدے اور ایمان سے کھیلنا جا نتا ہے۔

.
تازہ ترین