• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر کے اپنے منصب پر براجمان ہونے کے دن سے دنیا میں ایک گومگو کی کیفیت بتدریج بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کے انتخابی مہم کے دوران بیانات کو سیاسی تپش کے سبب سے جاری کردہ رد عمل کے طور پر بھی دیکھا جا رہا تھا۔ مگر تجارتی معاہدے سے نکلنا اور پھر 7مسلمان ممالک پر ابتدائی طور پر سفری پابندیاں عائد کرنا اس امر کی غماضی کرتا ہے کہ وہ مستقبل میں ایسا بہت کچھ کر گزر سکتے ہیں جو کہ وہ اپنے انتخابی نعروں میں کہتے رہے ہیں۔ اور یہ پریشانی صرف مسلمان ممالک کو ہی نہیں بلکہ یورپ بھی ان کے اگلے اقدامات کے حوالے سے اندیشوں کا شکار ہے۔ یورپ کے اندیشوں کو سلگانے کی اہم ترین وجوہات میں یہ شامل ہے کہ یورپ ، روس کے یوکرائن کے حملے، مشرق وسطیٰ بالخصوص شام اور شمالی افریقہ کے پناہ گزینوں، دہشت گردی کے خطرات، شرح نمو کے گرنے بریگزٹ اور قوم پرست موثر تحریکوں کا حالیہ دنوں میں مقابلہ کر رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یورپ دوسری جنگ عظیم کے بعد اب سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔ اور یورپ اپنے استحکام کی غرض سے امریکہ سے مختلف معاہدوں میں جڑا ہوا ہے۔ لبرل جمہوری یورپ کو امریکہ کی گزشتہ سات عشروں کی سب سے بڑی کامیاب خارجہ پالیسی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کے صدور اس معاملے پر یک زبان رہے ہیں۔ امریکہ نے یورپ سے تعلقات جمہوری روایات، تجارتی تعلقات اور نیٹو جیسے فوجی اتحادوں کی صورت میں قائم کیے۔ اور مشترکہ سلامتی کا اصول اس کی بنیاد قرار پایا۔ مگر ٹرمپ کے عرصہ صدارت میں یہ اصول بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ اور یہی یورپ میں پریشانی کا باعث ہے۔ کیونکہ امریکہ سے اس اتحاد کی بدولت یورپ جنگ ، نسل کشی اور معاشی بدحالی سے محفوظ رہا مگراب اگر یہ بدل گیا تو یورپ کے لئے ان عفریتوں کا سامنا کرنانا ممکن ہو جائے گا جو یورپ کا دل دہلا دینے کیلئے کافی ہے۔ ٹرمپ نے سنڈے ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ مجھ کو پروا نہیں کہ یورپی یونین برقرار رہے یا ختم ہو جائے۔ ٹرمپ کے خیال میں جرمنی اپنی عالمی طاقت کی حیثیت کو از سر نو بحال کرنے کیلئے اس تنظیم کو ایک پہیے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ خیال رہے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران سب سے زیادہ نا مناسب گفتگو جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کے حوالے سے ہی کی تھی۔ ٹرمپ کی یہ سوچ کوئی اچانک سامنے نہیں آ گئی بلکہ وائٹ ہائوس میں اس کے سیاسی معتمد اسٹیفن کے بین عرصے سے یورپی یونین کے خلاف مہم میں پیش پیش ہیں۔ 2014میں اسٹیفن کے بینن نے "Global Tea Party Movement" کی کھل کر حمایت کا اعلان کیا تھا جو مرکزیت کے خلاف ہے اور اس کا بنیادی ہدف بہرحال یورپی یونین ہی ہے۔ اسی سبب ٹرمپ نے اپنی کامیابی کے بعد سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غیر ملکی رہنمائوں میں پہلی ملاقات بے انتخاب Nigel Farage سے کی جو یونائیٹڈ کنگڈم انڈی پینڈنس پارٹی کے رہنما اور معروف قوم پرست ہیں۔ فرانس کا نیشنل فرنٹ اور جرمنی کی قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی جو یورپی یونین کے مخالف ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی کھلی حمایت حاصل کرتی محسوس ہور ہی ہیں۔ ٹرمپ یورپ کے حوالے سے امریکہ کی سات عشروں پر محیط خارجہ پالیسی میں جوہری تبدیلیاں وقوع پذیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور ان کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ ان تبدیلیوں کی بناپر یورپ اپنا استحکام کھو بیٹھے گا۔ اگر جیسا کہ انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ کریمیا کے مسئلے پر روس پر عائد پابندیوں کو اٹھا لیں گے اور روس کے کریمیا کے الحاق کو تسلیم کر لیں گے تو اس صورت میں یورپ میں قائم یہ تصور کہ اب سرحدوں کو نہیں بدلنا یا بدلا جا سکتا ہے بری طرح متاثر ہو گا۔ اگر بتدریج امریکہ کی حکمت عملی یورپ کے حوالے سے اسی سمت مڑتی چلی گئی تو اس صورت میں یورپ کے لئے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ موجودہ اتحاد کی صورت کو زیادہ عرصہ قائم رکھ سکیں۔ یورپ کے ممالک میں آج بھی بہت سارے داخلی تنازعات کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ لیکن مفادات کے سبب سے سوئے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ مگر توڑ پھوڑ کی صورت میں یہ تنازعات از سر نو سر اٹھا لیں گے ۔ زندگی پا جائیں گے۔ یہ صورتحال معاشی بدحالی اور کسی ممکنہ تصادم کو بھی جنم دے سکتی ہیں۔ ابھی یہ باتیں ذرا دور کی محسوس ہو رہی ہیں مگر اگر واقعات اسی رفتار سے بڑھتے چلے گئے تو یہ دور جلدی نزدیک ہو جائے گا۔ اس تمام صورت حال کا پاکستان پر بھی براہ راست دو طرفہ اثر ہو گا۔ پاکستان کے گہرے تجارتی مفادات یورپ سے وابستہ ہیں ۔
اگر یورپ میں شرح نمو گرتی چلی گئی تو اس صورت میں پاکستان میں کارخانوں کے بند ہونے کا امکان آموجود ہو گا۔ دوسرا وہاں پر لاکھوں پاکستانی آباد ہیں جو لوگ عشروں قبل ترک وطن کر گئے تھے ان کے بھی سماجی تعلقات کی جڑیں ابھی تک بہت گہری وطن عزیز میں موجود ہیں۔ کہیں ٹرمپ کی پالیسیوں کا خمیازہ پاکستان کو بھی نہ بھگتنا پڑے کیونکہ یورپ کی معاشی صورتحال کی خرابی کی صورت میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے پاس واپس راستہ پاکستان کی طرف ہی ہو گا۔ پاکستان میں ہمیں اس مسئلے کی جانب اور ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات کی طرف گہری نظر رکھنی چاہئے اور اس حوالے سے حکمت عملی کو ابھی سے تیار کرنا چاہئے۔ کیونکہ تمام پاکستانیوں کو بنگلہ دیش میں محصور بہاریوں کی مانند فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ فراموش ان کو بھی نہیں کرنا چاہئے۔

.
تازہ ترین