• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب یا کبھی نہیں۔ یہ محض نعرہ نہیں میری سوچی سمجھی رائے ہے۔ فاٹا کو اگر اس سال کے اندر اندر خیبر پختونخوا میں ضم کرکے آئینی، سیاسی، سماجی اور انتظامی حوالوں سے پاکستان کا حصہ نہیں بنایا گیا تو پھر یہ کام کبھی نہیں ہوسکے گا۔ کسی زمانے میں افغانستان رکاوٹ تھا لیکن اب جبکہ بارڈر مینجمنٹ پر کام ہو رہا ہے اور طورخم بارڈر پر اسی طرح ہر صبح پرچم کشائی کی تقریب منعقد ہونے لگی ہے،جس طرح واہگہ بارڈر پر ہوتی ہے تو اس رکاوٹ کا تذکرہ ہی عبث ہے۔ ہاں اگر ہم فاٹا کو اب مین اسٹریم میں نہیں لاتے تو مستقبل کے لئے ڈیورنڈ لائن جیسے مسائل دوبارہ سر اٹھاسکتے ہیں۔ ماضی میں سول بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ فوج کی بھی یہ رائے رہتی تھی کہ اسٹیٹس کو چھیڑ کر نیا پنڈورا باکس نہ کھولا جائے لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج رکاوٹ نہیں ڈال رہی ہے بلکہ وہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کی ہر کسی سے زیادہ خواہش مند ہے۔ اسی طرح فاٹا کا ظالمانہ نظام انگریز کے دور سے پولیٹکل ایجنٹ اور مراعات یافتہ ملکانان کے سہارے قائم تھا۔ ان دونوں کو پہلے طالبان نے غیرموثر بنا دیا اور پھر فوج نے ان کی جگہ لے لی۔ اب دوبارہ مصنوعی طور پر اگر ملکانان کے انسٹی ٹیوشن میں ہوا بھری جاتی ہے اور پولیٹکل ایجنٹ کو دوبارہ زمینی خدا بناکر فوج اسے اختیارات منتقل کرے تو وہ کیوں نہ باقی پاکستان کی طرح اقتدار منتخب نمائندوں اور سول بیوروکریسی کو منتقل کرے۔اسی طرح ماضی میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے آوازیں اٹھتی تھیں لیکن حکومتیں ٹال مٹول سے کام لیتی رہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ حکومت کی بنائی ہوئی کمیٹی نے قبائلی علاقوں کے ساتھ انضمام کے حق میں رائے دی ہے جبکہ اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتیں یعنی پیپلز پارٹی، اے این پی، جماعت اسلامی اور پختونخوا کی حکمران جماعت تحریک انصاف بھی اس کے حق میں ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کا یہ اتفاق نہ ماضی میں کبھی دیکھنے کو ملا ہے اور نہ مستقبل میں مل سکتا ہے۔ تبھی تو میں عرض کرتا ہوں کہ فاٹا کا پختونخوا کے ساتھ انضمام، اب یا کبھی نہیں، والا معاملہ ہے۔ تبھی تو لکھتا اور بولتا ہوں کہ اگر میاں نوازشریف نے اپنی حکومت کی کمیٹی کی سفارشات کو عملی جامہ پہنایا تو قبائلی عوام کی آئندہ نسلیں بھی ان کو اپنا محسن گردانیں گی اور اگر یہ موقع انہوں نے ضائع کیا تو یہی نسلیں ان کو تو کیا ان کی آئندہ نسلوں کو بھی معاف نہیں کریں گی۔
اب ذرا ایک نظر ان لوگوں کے دلائل پر جو قبائلی عوام کو ذہنی رشوت دے کر فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے مطالبے کے نام پر انضمام پر رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔
وہ دلیل دیتے ہیں کہ قبائلی عوام کی اپنی رسوم و رواج ہیں۔ تو کیا فیصل آباد، قلات، خضدار، لاڑکانہ اور لاہور کے لوگوں کے اپنے رسم و رواج نہیں ہیں۔ وہ سب اگر پاکستان کے مین اسٹریم میں رہ کر بھی اپنے رسوم و رواج کے ساتھ رشتہ برقرار رکھ سکتے ہیں تو قبائلی عوام ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ یہی قبائلی پشاور، مردان، چارسدہ، ٹانک، ڈی آئی خان اور کراچی میں اسی نظام کے تحت زندگی گزاررہا ہے، جس کے تحت باقی پاکستان کے لوگ گزاررہے ہیں۔وہاں اگرانہیں کوئی مشکل پیش نہیں آرہی تو قبائلی علاقوں کے باقاعدہ پختونخوا کے ساتھ ضم ہوجانے سے کیوں آئے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں سب سے منفرد رسوم ورواج چترال کی وادی کیلاش کے لوگوں کے ہیں۔ ان کا مذہب بھی منفرد ہے اور غم شادی کے طریقے بھی۔ مثلاً فوتگی کے وقت وہ ڈھول بجاتے ہیں۔ اب اگر وہ لوگ خیبر پختونخوا کا حصہ رہ سکتے اور اس نظام کے تحت زندگی گزارسکتے ہیں، جس کے تحت دیگر پاکستانی گزار رہے ہیں تو قبائلی کیوں نہیں گزار سکتے۔
دوسرا بہانہ ان لوگوں نے ’’جرگہ‘‘ کے انسٹی ٹیوشن کو بنایا ہوا ہے اوریقینا قبائلی نظام میں جرگہ کو اہمیت حاصل ہے لیکن جرگہ کا کلچر بلوچستان کے پختونوں میں بھی عام ہے، چارسدہ کے پختونوں میں بھی،بلوچستان کے بلوچوں میں بھی جبکہ سندھ اور پنجاب میں وہ کسی اور نام سے لیکن رائج ضرور ہے۔ اگر بلوچستان کے پختونوں اور بلوچوں کے فیصلے ان کی اسمبلی میں، پنجابیوں اور سرائیکیوں کے ان کی اسمبلی اور پختونخوا کے لوگوں کی ان کی اسمبلی میں ہوسکتے ہیں تو قبائلی علاقہ جات کے فیصلے ان کی منتخب اسمبلی میں کیوں نہیں ہوسکتے۔
گزشتہ ساٹھ سال سے قبائلی علاقوں کا تنہا حکمران خیبر پختونخوا کا گورنر ہوا کرتا ہے جو پشاور کے گورنر ہائوس میں بیٹھتا ہے اور جن کو پختونخوا کے وزیراعلیٰ اور وزراء حلف دیتے ہیں اور جو پختونخوا اسمبلی کا اجلاس طلب کرتے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے بچے پختونخوا کی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں۔ وہاں ساری بیوروکریسی پختونخوا کی تعینات رہتی ہے۔ اس حوالے سے کبھی کسی نے اعتراض نہیں اٹھایا کہ قبائلیوں کی اپنی الگ شناخت ہے اور ان کو اپنی بیوروکریسی دی جائے یا ان کے بچوں کے لئے الگ یونیورسٹی بنائی جائے لیکن آج جب اس کو پختونخوا کے ساتھ ضم کیا جارہا ہے تو بعض لوگوں کو قبائل کی اپنی شناخت یاد آگئی ہے۔ قبائلی علاقے عملی لحاظ سے پہلے سے خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم ہیں لیکن نہ جانے اعتراض کرنے والے کس دنیا میں رہتے ہیں۔ مثلاً خیبر ایجنسی کا پولیٹکل ایجنٹ اس ایجنسی کے اندر نہیں بلکہ پشاور میں بیٹھتا ہے۔ اسی طرح اورکزئی ایجنسی کا پولیٹکل ایجنٹ پختونخوا کے شہر ہنگو میں بیٹھتا ہے۔ مہمند ایجنسی اور باجوڑ ایجنسی کے قبائلی کو اگر کرم یا اورکزئی ایجنسی جانا ہو تو اسے پشاور اور کوہاٹ پر سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح خیبر ایجنسی کے قبائلی کو بھی پختونخوا کے اندر سے گزر کر شمالی یا جنوبی وزیرستان جانا پڑتا ہے کیونکہ ان علاقوں کا آپس میں براہ راست کسی سڑک کے ذریعے رابطہ نہیں لیکن پھر بھی کچھ لوگ مصر ہیں کہ قبائلی علاقہ جات کو الگ صوبہ بنادیا جائے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ قبائلی عوام کی اکثریت قبائلی علاقوں کے اندر نہیں بلکہ خیبر پختونخوا میں رہتی ہے۔ مثلاً ہمارے قبیلے کے لوگ مہمند ایجنسی میں کم لیکن پشاور، مردان اور چارسدہ میں زیادہ ہیں۔ اسی طرح آفریدی اور شینواری خود خیبر ایجنسی کے اندر کم لیکن پشاور اور کوہاٹ میں زیادہ رہتے ہیں۔ یہی معاملہ دیگر قبائلیوں کا بھی ہے۔اب عملاً ایک ہوجانے والی دو اکائیوں کو اگر آئینی اور سیاسی حوالوں سے بھی ایک کیا جاتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔
دراصل کچھ لوگ اس خوش فہمی میں قبائلی علاقہ جات کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ یہاں پھر ان ہی کا بندہ وزیراعلیٰ ہوگا۔ اسی طرح چند افراد ایسے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ پورے خیبر پختونخوا میں تو وہ گورنر یا وزیراعلیٰ نہیں بن سکتے لیکن اگر قبائلی علاقے الگ صوبہ بن جائیں تو ان کی یہ آرزو پوری ہوجائے گی۔ سیاسی چالاکی سے کام لے کر یہ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ پہلے قبائلی علاقوں میں تعمیر نو کی جائے تو پھر اس کی حیثیت پر بات کی جائے۔ اب ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر موجودہ الگ حیثیت میں صلاحیت ہوتی تو نہ قبائلی بے گھر ہوتے اور نہ ان کی بحالی میں اتنی زیادہ تاخیر ہوتی۔ سوات میں بھی طالبانائزیشن ہوئی تھی لیکن چونکہ سوات مین اسٹریم اور خیبر پختونخوا کا حصہ تھا، اس لئے وہاں بحالی کا کام مہینوں میں ہوگیا لیکن قبائلی علاقوں میں دس سال میں بھی یہ کام نہیں ہوسکا۔
پختونخوا کے ساتھ انضمام کی صورت میں ان پر اسمبلیوں میں بات ہوگی۔ وہاں میڈیا جاسکے گا۔ وہاں عدالت کا دائرہ اختیار پھیل جائے گا۔ یوں بحالی کا کام بھی تیز ہوسکے گا۔ اس وقت قبائلیوں کی ضرورت گھر، اسکول، سڑک اوراسپتال ہے۔ الگ صوبہ بن جانے کی صورت میں تو جو رقم میسر ہوگی وہ گورنر ہائوس، وزیراعلیٰ ہائوس اور سیکرٹریٹ وغیرہ کی تعمیر پر صرف ہوگی اور مذکورہ بنیادی ضروریات پس منظر میں چلی جائیں گی۔
جہاں تک ریفرنڈم کے مطالبے کا تعلق ہے تو مطالبہ کرنے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ کیا سوات، بہاولپور، قلات اور بہاولپور وغیرہ کی ریاستیں ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان میں ضم ہوئی تھیں حالانکہ قبائلی علاقے تو پہلے سے پاکستان کا حصہ ہیں۔ جس طرح مولانا فضل الرحمان صاحب ڈی آئی خان کے لوگوں اور محمود خان اچکزئی صاحب چمن کے لوگوں کے نمائندے ہیں، اسی طرح شہاب الدین خان اور حاجی شاہ جی گل قبائلی عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ اب اگر وہ پختونخوا کے ساتھ ضم ہونا چاہتے ہیں اور پختونخوا کے منتخب حکمران پرویز خٹک ان کو قبول کرنے کو تیار ہیں تو ریفرنڈم کے ڈرامے کی کیا منطق ہے؟۔ شہاب الدین خان کو قبائلی عوام کے ساڑھے پندرہ ہزار اور شاہ جی گل کو تقریباً 30ہزار ووٹ ملے۔ اس کے برعکس بلوچستان میں محمود خان اچکزئی کی سپورٹ سے وزیراعلیٰ بننے والے ڈاکٹر مالک نے صرف چارہزار پانچ سو انتالیس ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ سردار ثناء اللہ زہری نے نو ہزار چار سو اکتیس ووٹ حاصل کئے تھے۔ اب دس ہزار سے کم ووٹ لینے والے تو بلوچستان کے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتے ہیں لیکن تیس ہزار اور پندرہ ہزار ووٹ لینے والے شاہ جی گل اور شہاب الدین کو اپنے علاقوں کے بارے میں ایک ایسے فیصلے کا اختیار نہیں کہ جس کی حمایت تمام بڑی جماعتیں بھی کررہی ہیں۔

.
تازہ ترین