• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایشیا ،افریقہ اور لاطینی امریکہ پر مشتمل ترقی پذیر دنیا میں برصغیر کا یہ امتیاز پوری دنیا پر واضح ہے کہ یہ بے بہا خطہ تینوں آباد ترین براعظموں میں سب سے زیادہ جمہوری مزاج، اقدار و روایات، اور اپنے معیاری ہیومن ریسورس (افرادی قوت) کے باعث تیز تر اقتصادی و سماجی ترقی کی بھرپور صلاحیت کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آج خطے کی یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ بہت واضح ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے اپنے بیمار جمہوری عمل، مسئلہ کشمیر جیسا سنگین تنازع اسے باہمی حل کرنے کی محدود صلاحیت کے ساتھ، کشمیر پر بدستور قابض رہنے اور اس سے کسی حالت دستبردار نہ ہونے کے مسلسل جارحانہ ارادوں نے آزادی کے بعد جمہوری و ترقی کے عمل کو مکدر کر کے اس کے ارتقاء اور مطلوب نتائج دونوں کو روک دیا۔ یہ مسلسل صورتحال دونوں ملکوں میں داخلی حالات کے بگاڑ، تلخ دو طرفہ تعلقات اور علاقائی عدم استحکام کا باعث بنی ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہر دو ممالک کے عوام خصوصاً رائے ساز حلقے اور میڈیا 70سال کے تلخ ابواب کا تجزیہ کرتے ہوئے حکمران طبقے کے ان عوام دشمن رجحانات پالیسیوں اور اقدامات سے ترقیاتی اور جمہوری عمل کے بگاڑ کو بے نقاب کریں جو قوم پرست بن کر مملکت کے علاقائی غلبے، عوام دوستی اور جمہوریت کے کور میں کیا گیا لیکن نتائج اس کے ہر دو اقوام کے خلاف نکلے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ دونوں ملکوں میں حقیقی جمہوریت کے فقدان نے مسئلہ کشمیر کے تسلسل کے بے پناہ خمیازے کے باوجود ناصرف اسے بھارت کی ترقی اور جمہوری عمل میں مسلسل رکاوٹ بنا دیا ہے بلکہ بنیاد پرست مودی حکومت نے پاکستان کے دریائوں کا پانی روکنے کی جلسہ ہائے عام میں دھمکیاں دے کر آگ کا نیا کھیل شروع کر دیا ہے۔ بھارتی حکام کی منافقت کا یہ سفر پنڈت جواہر لعل نہرو کے سری نگر میں ایسے ہی جلسہ عام سے شروع ہوا تھا جس میں آنجہانی وزیر اعظم نے کشمیریوں سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ جلد ہی حالات سازگار ہونے پر اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق رائے شماری کرا کر مسئلہ کشمیر حل کر دیا جائے گا بعد از نہرو سمیت بھارت کے ’’جمہوری رہنمائوں‘‘ نے جس طرح بین الاقوامی برادری میں تسلیم شدہ کشمیریوں کے جمہوری حق رائے شماری کو ٹال مٹول کیا، اس کے نتیجے میں کانگریسی رہنمائوں نے نیشنلزم اور سیکولر ازم کے جھوٹے نعروں پر متنازع کشمیر پر مکمل قبضے کی جو پالیسی اختیار کی، اس کا سرحد پار نتیجہ یہ مسلسل نکلتا رہا کہ پاکستان اپنے دفاع و سلامتی پر چوکس ہوتا ہوتا ایٹمی طاقت بن گیا اور دونوں ملکوں میں طاقت کا حقیقی توازن قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کا آغاز بھی بھارت نے ہی کیا کہ اس نے مشرقی پاکستان کی داخلی بگڑی صورتحال میں جارحانہ مداخلت ہی نہیں کی، شاید مقبوضہ کشمیر کو اپنے ایٹمی طاقت کے رعب سے ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس میں کامیابی سے پاکستان کو عظیم دفاعی کامیابیوں کی ’’دعوت‘‘ دی۔
آج بھارت اسلحے کی جس دوڑ کو جاری رکھے ہوئے ہے، اور جمہوری سیکولر بھارت جس طرح چین اور پاکستان کا ہوّا کھڑا کر کے عوامی ضروریات کے بھاری سرمائے کا رخ اسلحے کے ڈھیر جمع کرنے کی طرف موڑ رہا ہے، وہ برصغیر ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی امن کے جمہوری اور ترقیاتی عمل کو متاثر کر رہا ہے۔ خصوصاً بھارتی وزیراعظم مودی کا پاکستانی دریائوں کی گزر گاہ پر غیر قانونی ڈیم بنانے اور دریائوں کا رخ موڑنے کے جن مذموم عزائم کا اظہار کر رہے ہیں، اس کے نتائج کا اندازہ کر کے بھارتی عوام اور عالمی برادری کو اس سے آگاہ کرنا پاکستان کی ایک بڑی قومی ضرورت بن گئی ہے۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کے حل کا تعلق ہے، یہ بین الاقوامی اداروں اور برادری کی منافقت اور دونوں ملکوں کی حکومتوں کی ناکامی (جس کی بھاری ذمہ داری نئی دہلی پر عائد ہوتی ہے) کے بعد اب خود مقبوضہ کشمیر کے عوام نے اپنے پر ہی سارا بوجھ لے لیا ہے اور انہوں نے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے جمہوری حق خودارادیت سے کسی طور دستبردار نہیں ہوں گے۔ اس کے حصول کے لئے وہ ہر قربانی دینے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ اس کے خلاف بھارتی انتہا پسند حکومت کے انتہاپسندانہ ڈیزائن بھارت کے ترقیاتی عمل میں جہاں رکاوٹ بن رہے ہیں وہاں اس کے جمہوری اور سیکولر تشخص کو بھی بری طرح مجروح کر رہے ہیں۔ پھر اسلحے کے بجٹ میں مسلسل اضافہ بھارتی غربت کو برقرار بھی رکھ رہا اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافے کے ساتھ پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ تو ضرور بن رہا ہے لیکن یہ بھارت کے مقابلے میں آئندہ آنے والے سالوں میں کم ہو گی کیونکہ پاکستان کے لئے ترقی کی جو متبادل راہیں بنتی واضح نظر آ رہی ہیں وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں تسلسل سے پیدا ہونے والی رکاوٹ کا بہت حد تک ازالہ کریں گی، پاکستان کی صورت بھارت کے مقابل دفاعی استحکام اور عوامی ترقی کے حوالے سے کہیں بہتر ہو گی۔ اس صورت میں بھی مودی حکومت اپنے سر پر چین کی نئی دشمنی پالنے میں جو محنت کر رہی ہے وہ بھارت میں غربت اور انتہا پسندی کا نیا ریلا لائے گی۔ چین اور پاکستان دونوں کی قومی اقتصادیات کا ایک بڑا حصہ ایک دوسرے سے جڑتا نظر آ رہا ہے جبکہ بھارت امریکی نقل میں (جسے صدر ٹرمپ ختم کرنے پر تل گئے ہیں) دوسرے ملکوں کی سلامتی کے ٹھیکے لینے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ بھارت کے کروڑ ہا عوام کی مطلوب بھلائی تقاضا کرتی ہے کہ مودی صاحب علاقائی طاقت بننے کے خواب کو ترک کر کے بھارت کو بمطابق حقیقی جمہوری سیکولر بھارت بنانے کے لئے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی زندہ حقیقت کو تسلیم کر کے بھارت میں اس مطلوب ترقیاتی جمہوری عمل کو شروع کریں جو پاکستان میں اسی کا سبب بن رہا ہے۔ بھارت نے پُر امن طور پر لینڈ لاکڈ سینٹرل ایشین ریجن اور افغانستان سے جڑنا ہے تو وہ دریائوں کا رخ موڑنے کے خطرات پالنے سے باز رہیں اور کشمیریوں کا وہ حق جو کل آنے والی باشعور اور بیدار بھارتی نسلیں بھارتی عوام کے لئے تسلیم کریں گی، اسے آج ہی تسلیم کرنے پر غور کریں۔

.
تازہ ترین