• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے اس بابے کی بات اتنی اچھی لگی کہ میں اندر ہی اندر کھل اٹھا۔ بابا چہرے پر لمبی سفید نورانی ریش مبارک سجائے نوجوانوں کی مانند چلا جارہا تھا۔ ایک ڈاکٹر سفید کوٹ پہنچے، گلے میں اسٹیتھواسکوپ (ٹوٹیاں) لٹکائے اوراپنے اسسٹنٹ کے ساتھ تیز تیز قدم اٹھاتے وارڈ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس کا چہرہ لٹکا ہوا اور بہت متفکر لگ رہا تھا۔ بابے نے اسے السلام علیکم کہہ کر پیار سے روکا اور کہنے لگا کہ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ مریضوں کو دیکھنے وارڈ میں جارہے ہیں؟ان میں کچھ معمولی مرض میں مبتلا ہوں گے اور کچھ جان لیوا مرض کا شکار ہوں گے۔ ان میں کچھ آنکھوں میں زندگی کی آس کے چراغ جلائے لیٹے ہوں گے اور کچھ قبر کے خوف اورموت کی آمد کے تصور سے ناامیدی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب !آپ وارڈ میں چہرے پر مسکراہٹ کے پھول کھلا کر داخل ہوں تو اس سے مریضوں کی نصف بیماری رفع ہوجائے گی۔ قبر سے فرار ممکن نہیں۔ قبر کوبہرحال آنا ہے لیکن آپ اپنے چہرےپرقبر سجاکر وارڈ میں نہ جائیں۔ ‘‘ڈاکٹر بابے کی بات سن کر مسکرا اٹھا اور جواب دیئے بغیر وارڈمیں داخل ہو گیا۔
بابے کی یہ بات تیر کی مانند میرے دل میں گھس گئی اور میں سوچنے لگا کہ اس بزرگ نے کتنے پتے اور راز کی بات کی ہے اور زندگی کا راز بیان کر دیا ہے۔ زندگی کی آخری حقیقت یہی ہے کہ قبر کو بہرحال آنا ہے۔ اس سے نہ فرعون بھاگ سکا اور نہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام بچ سکے۔ پھر وقت سے پہلے قبر کو چہرے پر کیوں سجایا جائے؟ جب تک زندہ ہو لوگوں کو زندگی کا پیغام کیوں نہ دیاجائے۔ زندگی کا پیغام کیا ہے؟ زندگی کا پیغام فقط ایک مسکراہٹ ہے۔ پھول کھلتا ہے تو مسکراہٹ لئے آتا ہے۔ پھول مرجھاتا ہے تو اپنے چہرے پر قبر کا سماں پیدا کئے جھڑ جاتا ہے اور لوگوں کے قدموں تلے مسلا جاتا ہے۔ جب تک پھول مسکراتارہتا ہے، وہ گلے کاہار، کلائی کا زیور اور دلہن کا سنگھار بنتا ہے۔ پھول جب تک کھلا رہتا ہے اسے مزاروں اورقبروں پر ڈالا جاتاہے کہ مزار اور قبر اس کی خوشبو سےمہک اٹھیں۔ یہ مرحوم یا صاحب ِ مزار کو زندگی کی تمنا اور دعا دینے کی علامت ہوتی ہے، ایک ایسی خواہش جو نہ پوری ہوسکتی ہے اور نہ ہی نظرآتی ہے بلکہ یہ خواہش نہیں دراصل عقیدت ہوتی ہے۔ غور کیاجائے تو خواہش اور عقیدت کا آپس میں گہرا رشتہ اور تعلق ہے اور یہی تعلق پھول کو قبر پر لے جاتا ہے۔
پھول کاجوبن چندروزہ ہوتاہے۔ پھول کی زندگی چند ہفتے ہوتی ہے لیکن اس کا جوبن اور مختصر سی زندگی انسانی نگاہوں کو فقط یہ پیغام دینے آتی ہے کہ موت سے فرار ممکن نہیں اس لئے جب تک زندہ ہو، مہکتے رہو، کھلے رہو، خوشبو بکھیرتے رہو اور زندگی کاپیغام دیتے رہو اور اسی مسکراہٹ کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جائو۔ زندگی کا عارضی اور بے ثبات ہونا موت کا پیغام نہیں بلکہ چہرے پہ مایوسی کی قبر بنا لینا موت کا پیغام ہے۔ اسی لئے دنیا کا ہر مذہب اور ضابطہ حیات حسن اخلاق پر زور دیتا ہے۔ حس اخلاق کا مرکز اور منبع مسکراہٹ ہوتی ہے وہ مسکراہٹ جو دلوں کو مسخر کرتی اور امید کے چراغ روشن کرتی ہے۔
اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ کو صدقہ بے حد پسند ہے۔ صدقہ بیماری سے نجات اور آنے والی مصیبت یا آفت کو روکتا ہے۔ بابا کہتا تھا کہ اگر زندگی کی مصیبتوںاور رکاوٹوں سے محفوظ رہناچاہتے ہو تو ہر روز صدقہ دیتے رہو۔ صدقہ دس روپے کا بھی ہوسکتا ہے اور دس ہزار روپے کا بھی لیکن ایک صدقہ بلاقیمت ا ور بیش قیمت ہوتاہے اور وہ صدقہ مسکراہٹ کاہے..... مسکراہٹ نور کی، دعااوراحترام و محبت کی، مسکراہٹ طنز، چوٹ اور تمسخر کی بھی ہوتی ہے جو دلوں پرایٹم بم گراتی اور ذہنوں کو ویران کر جاتی ہے۔ سچی مسکراہٹ دلوں میں پھول کھلاتی ہے جبکہ طنزیہ مسکراہٹ دلوں کو ابدی زخم لگا جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ مسکراہٹ انسان کی نمائندگی کرتی ہے، انسان کےباطن کی عکاسی کرتی ہے، انسان کا نقش اور یاد ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ فیصلہ بھی خود آپ ہی کو کرنا ہے کہ آپ پھول بن کر لوگوں کے دلوں میں مہکناچاہتے ہیں یا زخم بن کر کراہنا چاہتے ہیں۔ بہرحال یادرکھئے کہ مسکراتا چہرہ اللہ کا نور اور سہانی صبح کا طلوع ہوتا ہے جو زندگی کاپیغام دیتا ہے جبکہ مایوس اور آدم بیزار چہرہ غروب ِ آفتاب کی مانند ہوتا ہے جواپنے ساتھ تاریکی لاتا اور شکست آرزو اور خزاں کا د رداجاگرکرتاہے۔ گویا مسکراہٹ صاف باطن اور زندگی کی علامت ہے، زندگی کاراز اور زندہ رہنے کا سب سے بڑا آسراہے۔

.
تازہ ترین