• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے کالم میں جب میں نے اسلام آباد اور کولمبو کا موازنہ پیش کیا تو بعض لوگوں کو حیرت ہوئی،ہمیں حیرت کے ساتھ حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔مثلاً کولمبو کے علاقے کولمبو تھری، کولمبو فور اور کولمبو سیون انتہائی پوش علاقے ہیں۔آپ اس کے مقابلے میں اسلام آباد کا سیکٹر ای سیون پیش کر سکتے ہیںکیا یہ حقیقت نہیں کہ قبضہ مافیا اور اس کے ساتھ ساتھ پراپرٹی مافیا نے اسلام آباد کی خوبصورتی کو بدصورتی میں تبدیل کیا، اس شہر سبزہ وگل کی بربادی میں ان دو طبقوں کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادتوں نے بھی بربادی کے ذمہ دار طبقوں کو نہیں روکا بلکہ خاموشی اختیار کی۔ نہ صرف خاموشی اختیار کی بلکہ ترقی کی طرف توجہ بھی نہیں دی۔آج اسلام آباد کے سینکڑوں آئی نائن، آئی ٹین، آئی الیون، جی تھرٹین اور جی فورٹین کی سڑکیں کسی دور دراز شہر کی سڑکوں سے بدتر ہیں ۔سیکٹر جی تھرٹین اورجی فورٹین میں کوئی سرکاری اسکول نہیں، پینے کے صاف پانی کی سہولتیں بھی نہیں۔اسلام آباد میں راول ڈیم کے کنارے خوبصورت آبادی بنی گالہ کی اندرونی سڑکیں بہت خراب ہیں، اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے وزیر ڈاکٹر طارق فضل کا گھر بنی گالہ سے زیادہ دور نہیں، صدیق الفاروق، طارق فاطمی، زہرہ فاطمی ایم این اے اور وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ آج بھی بنی گالہ ہی میں رہتے ہیں، وزیر بننے سے پہلے احسن اقبال اور ماروی میمن بھی یہیں رہتے تھے یہ تمام لوگ ان سڑکوں سے خوب واقف ہیں، ماضی میں شریک اقتدار رہنے والے کئی لوگوں کا مسکن بنی گالہ ہے ۔مثلاً خورشید قصوری ، یار محمد رند، اویس لغاری اور سمیرا ملک ایک ہی کابینہ میں تھے اس دوران بھی بنی گالہ کی سڑکوں پر توجہ نہ دی گئی۔اخوند زادہ چٹان، سینیٹر ادریس صافی اور عائلہ ملک سمیت کئی سابق پارلیمنٹرینز کا مسکن آج بھی بنی گالہ ہے ، سندھ کے بڑے پیروں کے گھر بھی یہیں ہیں سومرو اور تالپور بھی اس بستی میں ہیں، ملک کے نامور سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی ڈیم کے کنارے بنی گالہ میں آباد ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ بنی گالہ کو شہرت صرف عمران خان کی وجہ سے ملی اور شاید عمران خان ہی کی وجہ سے یہ علاقہ حکمرانوں کی نگاہ کرم سے محروم ہے۔اسلام آباد اب بھی اپنے اندر بے پناہ حسن لئے ہوئے ہے، اسلام آباد پر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو یہ شہر صرف کولمبو ہی نہیں دنیا کے تمام دارالحکومتوں (کیپٹل سٹیز) کو مات دے سکتا ہے ۔بس یہاں قبضہ گروپوں، لینڈ مافیا اور متشدد لوگوں کو قابو کرکے ترقیاتی کاموں پر توجہ کی ضرورت ہے ۔مجھے گزشتہ سال کا یہ واقعہ نہیں بھولتا کہ عائلہ ملک کی بیٹی کی شادی پر میں، امجد علی خان ایم این اے اور سبطین خان ایم پی اے سے گفتگو کر رہا تھا کہ دونوں یک زبان ہو کر بولے کہ ’’....ہم نے بنی گالہ کا بہت نام سنا، ہماری پارٹی کا چیئرمین بھی یہیں رہتا ہے مگر ہمیں بہت حیرت ہوئی ہے کہ بنی گالہ کی اندرونی سڑکوں کی حالت میانوالی سے بھی گئی گزری ہے...‘‘اس تبصرے کے جواب میں میرے پاس لفظ نہیں تھے کہ میں خود بنی گالہ کا رہائشی ہوں ۔
میں نے آج کچھ باتیں سری لنکا کے بارے میں لکھنا تھیں مگر مجھے اسلام آباد اور کولمبو کا موازنہ پیش کرنا پڑ گیا۔سری لنکا میں بارشیں بہت ہوتی ہیں لیکن کیا خوبصورت انتظام ہے کہ پورے کولمبو میں بارش کے دوران یا بعد میں کہیں پانی کھڑا نہیں ہوتا جبکہ اسلام آباد کے سب سے بڑے کیش اینڈ کیری اسٹور کے گرد سڑکیں نہیں، کھڈے ہیں، یہاں سڑکوں پر پانی جمع ہوتا ہے سوائے چند بڑی سڑکوں کے اسلام آباد کی باقی سڑکیں تعمیر کی آس میں رو رہی ہیں۔پاکستان میں تعمیرو ترقی کے بجائے ’’ سروے سیاست‘‘ پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے ۔سروے کرنے والے، کروانے والے اور ماننے والے، حقیقت تک پہنچنے کے لئے حالیہ امریکی الیکشن کو دیکھ لیں۔جہاں امریکیوں نے تمام تر سروے پائوں تلے روند دیئے ۔لہٰذا سروے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یہ محض دولت کے زور پر کروائے جاتے ہیں ۔
اب آتے ہیں سری لنکا میں گزرے ہوئے چند ایام کی طرف ہماری زیادہ ملاقاتیں میڈیا سے منسلک لوگوں کے ساتھ ہوئیں ۔سری لنکا میں سرکاری ٹی وی ، ریڈیو کے علاوہ بہت سے اخبارات سرکار کے زیر سایہ شائع ہوتے ہیں۔سرکاری اخبارات شائع کرنے والے ادارے کو ’’لیک ہائوس ‘‘ کہا جاتا ہے ’’لیک ہائوس ‘‘ کے دورے کے دوران ہماری ملاقات ایم ڈی یا چیئرمین کیون رتنا ئیکا کے علاوہ لالیتھ، کے کُناراسا، ایمرک فرینڈو، سبھاش کارونارا، دھنا، پوشیا ایس راویل سمیت قانونی امور کی ماہر انورنگی سنگھ سے بھی ہوئی ۔یہاں ہماری ملاقات حکمران خاندان کے ایک فرد ساوان وجے وردنے سے بھی ہوئی ’’لیک ہائوس ‘‘ میں بہت دیر تبادلہ خیال ہوا اس سے دو روز قبل کیرولا پونے ایونیو کولمبو پر واقع انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (یعنی وہاں کی پی آئی ڈی ) میں ہماری ڈی جی انفارمیشن ڈاکٹر رنگاکلان سوریا سے تفصیلی ملاقات ہو چکی تھی ۔اس ملاقات میں ہمیں سمجھنے کیلئے بہت سا مواد مل گیا تھا پھر ہماری ملاقات آزادی سکوائر کے پاس واقع سرکاری ٹی وی (روپاوانی) کے ڈپٹی ڈی جی روین ایس پریرا سے ہو چکی تھی لہٰذا ہمارے لئے سری لنکن میڈیا پر گفتگو کرنا مشکل نہیں تھا۔
سرکاری میڈیا کے علاوہ سری لنکا میں پرائیویٹ سطح پر بھی ٹی وی چینلز اور اخبارات ہیں۔
کولمبو ٹومیں برے بروکے اسٹریٹ پر سب سے بڑے پرائیویٹ میڈیا گروپ ’’کیپٹل مہاراجہ آرگنائزیشن‘‘ کے دفاتر ہیں، یہاں سے ٹی وی چینلز چل رہے ہیں مہاراجہ گروپ انگریزی ، سنہالی اور تامل زبانوں میں ٹی وی چینل چلا رہا ہے ۔یہاں ہماری ملاقات گروپ کے ڈائریکٹر شیوآن ڈینیل سمیت دیگر لوگوں سے ہوئی۔پرائیویٹ سطح پر پرنٹ میڈیا میں سب سے بڑا گروپ وجیسیانیوز پیپرز ہے اس کے دفاتر ہویتیا کراس روڈ پر کولمبو ٹو میں واقع ہیں۔ یہاں ہماری ملاقات امین عزار دین سمیت اور نامور صحافیوں سے ہوئی ۔
ایک شام میری ملاقات ایس ایس کلب میں سری لنکن پارلیمنٹ کے سب سے کم عمر ممبر ڈاکٹر کے ونداجے وردنا سے ہوئی ۔ایس ایس کلب ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں جم خانہ کلب ہے ۔سری لنکا میں ہونے والی عسکری، کاروباری اور سیاحتی ملاقاتوں کا احوال آئندہ ،ساتھ ہی کچھ قومی سیاست پر بات ہو گی۔ابھی اجازت، فیض صاحب کے اس شعر کے ساتھ کہ؎
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے


.
تازہ ترین