• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں خواندگی کی شرح کوئی اتنی خوشگوار نہیں اور نہ قابل ذکر ہے اور تعلیم کے فروغ کے لئے ماضی میں حکومتوں نے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں اچھے بھلے چلنے والےا سکولز اور کالجز جو مدتوں سے بلکہ قیام پاکستان سے قبل بھی برصغیر میں تعلیم کے فروغ کیلئے نمایاں اور بہتر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کو سیاسی فیصلہ کر کے قومی ملکیت میں لے لیاتھا۔ قومی ملکیت میں آنے کے بعد ان تمام معروف اور نامور اسکولوں اور کالجوں کا معیار نہ صرف متاثر ہوا بلکہ وہ مختلف سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گئے۔ اساتذہ اوراسٹوڈنٹس کی یونین بازی نے ان تعلیمی اداروں کی ساکھ پر بہت منفی اثرات ڈالے۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت اسٹوڈنٹس یونینوں کو بحال کرنے کا سوچ رہی ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت کو اسٹوڈنٹس یونینوں کی بحالی کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر، تمام معاملات اور مسائل کا جائزہ لے کر کسی ٹھوس لائحہ عمل کو مرتب کر کے پھر کرنا چاہئے کیونکہ اس ملک کے ہر شعبے اور ہر محکمے کو یونین بازی نے بہت نقصان پہنچایا ہے بہرحال پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف جس طرح شعبہ تعلیم اور صحت کے لئے کام کر رہے ہیں وہ لائق تحسین ہےاس سلسلے میں ان کی ٹیم خصوصاً پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن قابل ذکر کام کر رہی ہے اس ادارے کے نگران علی جان خان نے آج سے کچھ عرصہ قبل حکومت کو ایک منصوبہ پیش کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اسکولز جن کا معیار بہت گر چکا ہے اور وہ تعلیمی میدان میں کوئی کارکردگی نہیں دکھا رہے ان کو آئوٹ سورس (Out Source)کیا جائے۔ یہ ایک بالکل منفرد اور اچھوتا منصوبہ تھا جس پر کام شروع کیا گیا۔ یاد رہے کہ دنیا میں جو طریقہ کار رائج ہے ہمارے ملک میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس منصوبے کی خاصیت یہ تھی کہ ایسے پانچ ہزار پرائمری ا سکولز کا انتخاب کیا گیا جن کے تعلیمی نتائج بہت خراب تھے۔ حکومت نے پبلک ا سکولز سپورٹ پروگرام کے تحت ایسے ا سکولوں کا انتخاب کیا جہاں پر حاضری بہت کم تھی بلکہ طلباء وہ ا سکولز چھوڑ کر جا رہے تھے کسی زمانے میں آج سے تیس/چالیس برس قبل گورنمنٹ ا سکولز کا معیار اتنا بلند ہوتا تھا کہ تمام والدین کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری ا سکولوں میں داخل کرائیں۔ اس کی مثال ہم گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول لوئر مال لاہور کی دے سکتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل اور تاحال پاکستان کی بیورو کریسی، بری فوج، فضائیہ فوج، بحری فوج، سیاست، انجینئرنگ اور خصوصاً میڈیکل فیلڈ میں جو نامور لوگ پیدا ہوئے وہ تقریباً سبھی اس ا سکول کے فارغ التحصیل تھے پھر وقت کے ساتھ ساتھ سفارشی داخلے اور سفارش پر جو لوگ اس ا سکول کے ہیڈماسٹر /پرنسپل لگتے رہے۔ انہوں نے اس تاریخی ا سکول کا بیڑہ غرق کر دیا اگرچہ آج سے 25/ 30برس قبل اس ا سکول کے ساتھ ہیڈماسٹر اور سینٹرل ٹریننگ کالج کے پرنسپل اور وائس پرنسپل کی رہائش گاہوں کو گرا کر گورنمنٹ سینٹرل اسکولزنمبر2بنایا گیا تھا مگر وہ اسکول بھی اپنی ساکھ نہیں بنا سکا۔ ایک زمانے میں ماضی میں حکومت نے پائلٹ ا سکولز کا پروجیکٹ شروع کیا تھا وہ بڑا اچھا قدم تھا مگر بعد میں اس کو بھی بند کر دیا گیا۔ اب امید ہے کہ علی جان خان اس نئے منفرد منصوبے کو ناصرف جاری رکھیں گے بلکہ اس کو کامیاب بھی بنائیں گے۔
اس نئے منفرد تعلیمی منصوبے کے لئے حکومت نے جو پلان دیا ہے کہ کوئی این جی او یا انفرادی طور پر جن کے پرائیویٹ سیکٹرز کے ا سکولز بہت کامیاب چل رہے ہیں ان کی درخواست پر یہ ا سکولز ان کو دیئے گئے ہیں اس سلسلے میں تعلیمی حلقوں میں یہ غلط فہمی پائی جارہی ہے کہ حکومت جن لوگوں کو اسکولز دے رہی ہے ان کو اس کا مالک بنا دیا جائے گا یا ان کو مستقل طور پر اس کی ملکیت دے دی جائے گی ایسا ہرگز نہیں حکومت ان لوگوں کو ایک مقررہ مدت کے لئے یہ تباہ حال اسکولز دے رہی ہے جس میں ٹیچنگ ا سٹاف، کلرک اسٹاف، مالی، چوکیدار، لیبارٹری ا سٹاف وغیرہ سب اسکول حاصل کرنے والی پارٹی کا ہو گا بلکہ ا سکول کی عمارت کی دیکھ بھال بھی وہ لوگ کریں گے حکومت ا سکول چلانے والے ادارے کو فی طالب علم /طالبہ ساڑھے پانچ سو روپے ادا کرے گی اور بعض اسکولوں میں سات روپے فی بچہ بھی ادا کرے گی کسی بھی طالب علم /طالبہ سے ا سکول کی انتظامیہ کوئی فیس لینے کی مجاز نہ ہو گی اور نہ کوئی ا سٹوڈنٹ حکومت کو کوئی فیس ادا کرے گا نہ اسکول کی انتظامیہ کسی بھی طالب علم کو کوئی جرمانہ کرنے کا اختیار رکھے گی، حکومت کتابیں اور بستہ بھی دے گی حکومت کے اس تعلیمی منصوبے کی وجہ سے جو بچے اسکول چھوڑ کر جا رہے تھے اب وہ و اپس آرہے ہیں پہلے ان ا سکولوں میں ایک لاکھ طالب علم تھے صرف چار ماہ میں ان کی تعداد میں 40ہزار اسٹوڈنٹس کا اضافہ ہو چکا ہے۔ یعنی اب ان کی تعداد ایک لاکھ 40ہزار ہوگئی ہے۔ حکومت سیکنڈفیز میں مزید 1300اسکول آئوٹ سورس کرے گی۔حکومت نے ان ا سکولوں کے معیار اور سسٹم کو چیک کرنے کے لئے ریٹائرڈ فوجیوں کی خدمات حاصل کی ہیں جو ان ا سکولوں کو وقتاً فوقتاً چیک کریں گے کہ کہیں کوئی انتظامیہ تو گڑبڑ نہیں کر رہی۔
حکومت تعلیم کے فروغ اور معیار کو بہتر بنانے کے لئے پنجاب انشیٹو مینجمنٹ اتھارٹی قائم کر رہی ہے۔ہم یہاں پر حکومت کو ایک مشورہ دینا چاہیں گے کہ جو بھی این جی او اور ادارہ یا انفرادی طور پرا سکول حاصل کرے اس کو پابند کیا جائے کہ وہ ا سکول میں کھیلوں کے فروغ کے لئے پریڈ رکھے اور سامان بھی مہیا کرے۔ہمارے خیال میں اسکولوں میں فرسٹ ایڈ، سول ڈیفنس اور جے سی سی جیسی تربیت بھی شروع کرنے کی ضرورت ہے دوسرے صوبوں کو چاہئے کہ وہ بھی اس منفرد منصوبے کو شروع کریں اس سے یقیناً تعلیم کے فروغ اوراسٹوڈنٹس کی حاضری پر خوشگوار اثرات پڑیں گے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نےچند ہفتے قبل ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے تمام عملے کو تبدیل کردیا تھا اور لیبارٹری کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر نے کا آغاز کردیا گیاہے۔ اس لیبارٹری کو بھی جدید بنانے کا خیال کچھ یوں آیا کہ دو سال قبل پی آئی سی میں دل کے مریضوں کو جب ایک دوائی دی گئی تو اس دوائی کے بعد مریضوں کی رنگت سیاہ اور کئی مریض مر گئے، کے ای ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود نے ان مریضوں کو دیکھا اور کہا کہ یہ دوائی دل کی نہیں بلکہ اس کے اندر کوئی اور دوائی بھی شامل ہو رہی ہے۔ دل کی دوائی میں ملیریا کی دوائی بھی آرہی تھی۔
جب وزیر اعلیٰ نے اس دوائی کو ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری سے چیک کرانا چاہا تو ان کے پاس وہ آلات اور مشینری نہیں تھی پھر اس دوائی کو لندن سے چیک کروایا گیا۔ سوچیں ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری 1971میں قائم کی گئی تھی اپنے قیام سے لے کر 2016تک اس لیبارٹری کے پاس نہ کوئی جدید مشین اور آلات تھے صرف خانہ پری کی جاتی تھی۔ 2016میں شہباز شر یف نے اس لیبارٹری کو جدید بنانے کے لئے باہر ممالک کی لیبارٹریوں سے معاہدے کئے اپنے ماہرین کو لندن اعلیٰ تربیت کے لئے بھجوایا۔ آج یہ لیبارٹری جدید تجزیاتی آلات LCMS, HPLCاورGCMS سے لیس ہوچکی ہےاور پھر ان آلات کو استعمال کرنے والے عملے اور فارماسسٹ کو بھی تربیت دی گئی ہے۔ ہر چیز کمپیوٹرائزڈ ہو چکی ہے۔ ادویات کی کوالٹی، ان کی مقدار یعنی ان کے اجزائے ترکیبی، غرض ہر چیز کو بڑی باریکی کے ساتھ چیک کیا جارہا ہے۔ ایک اہم امور کی طرف ہم توجہ دلانا چاہتے ہیں سرکاری طور پر آنے والی ادویات کو چیک کیا جاتا ہے اگر ان کو چیک کرنے کے بعد عوام کو بھی اشتہارات کے ذریعے آگاہ کیا جائے کہ فلاں دوائی ٹھیک ہے یا مضرصحت ہے یا اس کے اجزا ترکیبی صحیح نہیں، تو اس سے اس ڈرگ ٹیسٹنگ کی لیبارٹری کی افادیت اور بھی بڑھ جائے گی۔ دوسرے وہ ہربل اور ہومیوپیتھک ادویات کو بھی چیک کرےاور جب تک دوسرے شہروں میں یہ لیبارٹریاں قائم نہیں ہوتیںتب تک لاہور کی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے ساتھ ادویات کی چیکنگ کا کوئی مربوط نظام بنایا جائے۔

.
تازہ ترین