• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جہاں تعلیم کالفظ ترقی کےمتبادل استعمال ہوتا ہے وہیں جہالت کا مترادف تباہی ہوتا ہے، تعلیم شعور کی منزلوں کو چھونے کا وسیلہ اور انسانی زندگی کی بالیدگی و آزادی کا پیرہن ہے، اسی لئے تو کہتے ہیں کہ
“Education is the key to unlock the golden door of freedom”
وطن عزیزکے قیام کے بعد انگریز کی باقیات میں ایک مثبت چیز چند اعلیٰ تعلیمی درس گاہوں کا میسر آنا بھی ہے جو صاحب شعور کو احساس دلاتا ہے کہ سینکڑوں برس پہلے مسلم امہ اور پھر مغربی دنیا کا عروج، برتری و بہتری انہی درس گاہوں کی بدولت ہے۔ یونیورسٹیوں کا بنیادی مقصد و تصور صرف تعلیم نہیں بلکہ تخلیق گاہوں کا کام دینا ہے، ذہنوں کی نگہداشت اور انسانی رویوں سے لے کر کریکٹر بلڈنگ کرکے ایک بہتر انسان بنانا اساتذہ اور درس گاہوں کی اولین ذمہ داری اور عظیم کارنامہ ہوتا ہے اسی لئے تو یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے افراد کو Gold Collar کہا جاتا ہے، پچھلے کچھ کالموں میں تعلیم کےشعبے پرحکومتوں کی عدم توجہی اور نئی نسل کےمستقبل سے بےخبری و بے اعتنائی برتنے اور پس پشت ڈالنے کی روایت جاری رکھنے کے قومی المیہ کی طرف توجہ دلا چکا ہوں۔ تاہم اس اہم ترین موضوع پر دوبارہ لکھنے پر اس لئے مجبور ہوا کہ زمینی حقائق جتنے بھی تلخ اور ناپسندیدہ ہوں محب وطن اور فرض شناس لوگوں کی کمی نہیں جو اس ملک اور نیشن بلڈنگ کیلئے اپنا تن من دھن تک قربان کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں، انہیں احساس ہے کہ اس ملک میں قائم سینکڑوں سرکاری وغیرسرکاری یونیورسٹیاں بلاشبہ مکمل طور پر نہیں تو کچھ نہ کچھ انصاف کر رہی ہیں لیکن یہ امر پوری قوم کے لئے تکلیف دہ ہے کہ کوئی ایک بھی یونیورسٹی عالمی معیار کی رینکنگ میں شامل نہیں، پاکستانی ڈگری کی اہمیت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، حال ہی میں پاکستان کے سب بڑے مقابلے کے امتحان سی ایس ایس میں پاکستانی یونیورسٹیوں کےطلبہ کے2 فیصد کامیابی کےرزلٹ نے بھی آنکھیں اور دماغ کھول کر رکھ دئیے ہیں، اس صورتحال کا روشن پہلو یہ بھی ہے کہ درد دل رکھنے والے ماہرین تعلیم جانفشانی سے اپنے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ گلشن کی آبیاری کے بغیر اچھے دماغوں اور انسانوں کی فصل تیار کرنا محض ایک خواب ہے، سیاہ فام لبریشن علمبردار اور معروف رائٹر مسٹر میلکم ایکس کہتے ہیں ’’صرف کالجزاور یونیورسٹیز ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ تمہارے پاس تعلیم بھی ہے.....!‘‘
قارئین کرام، 1882ء میں قائم ہونے والی تاریخی اہمیت کی حامل ملک کی بڑی جامعہ پنجاب یونیورسٹی نےنوبیل انعام یافتہ سائنسدان سر عبدالاسلام اور مسڑ گوبند کھورانا جیسے کئی نامور سپوت پیدا کئے ہیں لیکن 70سے زائد شعبوں پر مشتمل اس تعلیمی درسگاہ کو گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست کی نذر کر دیا گیا، شومئی قسمت دیکھیے کہ ڈکٹیٹر ضیاءالحق سمیت کئی حکمرانوں نے حقیقی سیاسی کلچر کو پنپنے سے روکنے کیلئے ادارے کو مذہب کےنام پر استعمال کیا، اس ادارے کی عظمت کا اندازہ لگائیے کہ حکیم الامت علامہ محمد اقبال جیسی شخصیات یہاں درس دیتی رہیں، آج اس ادارے کو یونیورسٹیز کی عالمی حد بندی کی صف میں کہیں اوپر نظر آنا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا؟ چلیں اب بھی کچھ نہیں بگڑا، بقول اقبال؎
نگاہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کاررواں کے لئے
ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین کی میرٹ پر ادارے کے نئے سربراہ کےطور پر تعیناتی کو سراہا جا رہا ہے، جنہوں نے خود امریکہ سمیت دنیا کی بڑی جامعات سے ناصرف تعلیم حاصل کی بلکہ امریکن یونیورسٹی سمیت یونیورسٹی آف ماڈرن سائنسز دبئی کالج کے سربراہ رہے اور اپنی مٹی کا قرض اتارنے کبلئے عہدے چھوڑ کر پنجاب یونیورسٹی کی بہتری وتعمیر کا کام شروع کر چکے ہیں، ایک حالیہ نشست میں انہوں نے موجودہ نظام تعلیم کی زبوں حالی کا دل گرفتہ واقعہ سنایا، بولے، وائس چانسلر بننے کے بعد سے کئی والدین آکر شکوہ کرچکے ہیں کہ ان کے بچوں نے یہاں سے دو دو تین ماسٹرز ڈگریاں حاصل کیں لیکن اعلیٰ تعلیم یا نوکری کیلئے کوئی معمولی ٹیسٹ پاس کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے، یہ آپ کا کیسا نظام تعلیم ہے؟ یہ ہی نہیں اور بھی بہت شکایتیں ہیں، لیکن پرعزم ہو کر بولے کہ انہوں نے اس جامعہ کو پاکستان ہی نہیں دنیا کی بہترین جامعات میں شمار کرنے کیلئے جامع اصلاحاتی پیکج تیار کر لیا ہے، سب سے بڑا ٹاسک ٹیچرز اور اسٹوڈنٹس کے درمیان فاصلوں کو کم اور کلاس رومز کا ماحول بحال کرناہے جس کیلئے سمسٹر سسٹم کا ہفتہ وار آن لائن پورٹل تیار کر رہے ہیں جس میں استاد اپنے پڑھانے کا مکمل نصاب اور دیگر مواد ڈالنے کا پابند ہوگا اور طالبعلم صرف کلاس کے وقت میں اس پورٹل کو کھولنے اور پڑھنے کا پابند ہوگا، یہ استاد اور طالب علم کی حاضری یقینی اور قابلیت کا معیار جانچنے کا ذریعہ ہوگا جبکہ کورس فائلنگ سسٹم بننے سے استاد کو کوالٹی مواد فراہم کرنا لازمی اور طالبعلم کیلئے امتحان سے قبل اس بارے میں آگاہی وجواب دہی ضروری ہوگی، Quality Enhancement Cellبنے گا جو ہرسمسٹر کے بعد ہر کلاس کا آن لائن آڈٹ کرے گا، سمسٹر سسٹم کا امتحانی نظام بھی اسی سے منسلک ہوگا اور ٹیچر پسند ناپسند کی بجائے طالبعلم کی کلاس روم میں پریزنٹیشن، ریسریچ اور رپورٹس کی پرفارمنس کو بنیاد بناکر ہی نمبرز یا گریڈ دے سکے گا، اس سے الیکٹرانک آٹومیٹڈ ایگزام سسٹم سے امتحانی نظام اور رزلٹ کی شکایات کا ازالہ ہوجائے گا۔ اساتذہ کی صلاحیتوں کے جائزہ اور ان کو بہتر بنانے کیلئے الگ نظام بنایا جا رہا ہے ان کی کمزوریوں کا پتہ لگا کر انہیں عالمی ماہرین سےتربیت دلوائی جائے گی، مختلف شعبوں میں پڑھائے جانے والے موجودہ کورس کا ازسر نو جائزہ لیا جا رہا ہے جس کو جدید اور موجودہ دور کےتقاضوں سے اہم آہنگ کرنے کا Course Evaluation systemبنایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر ظفر کا خیال ہےکہ ریسرچ سب سے اہم ترین شعبہ ہےجس کی فعالیت اور فروغ پر بالخصوص توجہ دے رہے ہیں اور یونیورسٹی میں ایک پروڈکٹ ڈویلپمنٹ سینٹر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں ریسرچ کےحوالے سے ہونے والے کام کو عالمی معیار کے مطابق اور عام آدمی کو فائدہ پہنچانے کیلئے استعمال کیا جائے گا، میڈیکل ریسرچ کیلئے ملک کے بڑے اداروں پمز اور بیالوجی سینٹرز سمیت پرائیویٹ سیکٹر سے الحاق کریں گے، یونیورسٹی میں اسٹیٹ آف دی آرٹ لیبز بنیں گی جس سے شہری بھی فائدہ اٹھا سکیں گے، یونیورسٹی کے لینڈ اسکیپ کو تبدیل کرکے اس کو ایک عالمی معیار اور ماڈرن یونیورسٹی میں تبدیل کیا جائے گا، ڈاکٹر ظفر معین کی گفتگو میں پاکستانی طلبہ کے روشن مستقبل کا جذبہ موجزن تھا، خدا کرے کہ ان کے نیک نیت جذبے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر کامیابی میں بدل جائیں، میرے وطن کی درسگاہیں ابن الہیثم، خوارزمی اور بو علی سینا جیسے علم ودانش کے سپوت پھر سے پیدا کریں، اساتذہ لالچ و خود غرضی کی چادر اتار کر معلم کا گاؤن پہنیں اور طلبہ تعلیم کو بوجھ اور محض نوکری کے حصول کی غرض سےحاصل کرنے کی بجائے قوم وطن کی ترقی وخوشحالی کیلئےخود کو حصول علم کبلئے وقف کریں تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ قوموں میں شامل ہونے کبلئے کم ازکم ترقی پذیر قوموں کی فہرست میں ہی پہلے نمبر پر آجائیں۔


.
تازہ ترین