• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام طور پر توقع کی جا رہی تھی کہ امریکہ کا صدر بننے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اپنے انتہا پسندانہ نظریات پر نظرثانی کریں گے اور ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جو ایک سپر پاور کے ذمہ دارانہ کردار سے مطابقت نہ رکھتا ہو امریکی عوام کی اکثریت نے اسی شک کا فائدہ دیتے ہوئے ہیلری کلنٹن جیسی نسبتاً متوازن شخصیت کے مقابلے میں انہیں ملک کا صدر منتخب کر لیا لیکن زمام اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے سب سے پہلے سات اسلامی ممالک کے لوگوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا کر واضح اشارہ دے دیا کہ انتخابی مہم کے دوران وہ جو کچھ کہتے رہے اس پر عمل بھی کر کے دکھائیں گے اس پر باقی دنیا ہی نہیں خود امریکی بھی ششدر رہ گئے عالم اسلام میں اس اقدام کو ان کے’ اسلامی دہشت گردی‘ روکنے کے بے بنیاد نعرے کے تناظر میں دیکھا گیا اور اس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا لیکن امریکہ اور دوسرے ملکوں میں بھی اس کی مخالفت کی گئی اور زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے جو اب بھی جاری ہیں اس حوالے سے تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ امریکہ کی 99(ایک اور اطلاع کے مطابق120) بڑی کمپنیوں نے سات مسلم ممالک کے شہریوں اور پناہ گزینوں پر پابندی کے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا ہے ایک وفاقی جج پہلے ہی ٹرمپ کے اقدام پر عملدرآمد روک چکے ہیں جس کے خلاف ایپلٹ کورٹ بھی حکومتی اپیل مسترد کر چکی ہے امریکی کمپنیوں جن میں سے 97کا تعلق ٹیکنالوجی اور دو کا تجارت سے ہے ،کا موقف یہ ہے کہ امریکہ کی عظیم ترین ایجادات اور کئی نامور ترین کمپنیاں تارکین وطن کی مرہون منت ہیں ان پر پابندی سے امریکی کاروبار، ایجادات، تجارت اور ترقی کو سخت دھچکا پہنچے گا۔ ان کمپنیوں کے بیشتر ملازمین بھی دوسرے ملکوں سے آنے والے تارکین وطن ہیں اور امریکی معاشرے اور معیشت میں ان کا بہت بڑا کردار ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے حکم نامے کے خلاف فیصلہ دینے والے جج کی مذمت کرتے ہوئے عدلیہ کے فنڈز روک دینے کی دھمکی دی ہے اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اس قانونی جنگ میں ملوث ہونے کے علاوہ دوسرے ملکوں سے امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور سفارتی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ ٹرمپ کے حکمنامے کی روشنی میں امریکہ نے ایران پر جو نئی پابندیاں عائد کی ہیں ایران نے انہیں مسترد کر دیا ہے اور چین نے ان کے خلاف امریکہ سے احتجاج کیا ہے ۔روس نے بھی امریکہ کو متنبہ کیا ہے کہ ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے سے چھیڑ چھاڑ امریکہ کے لئے خطرناک ہو گی، روس نے ایران کو دہشت گرد کہنے پر بھی ٹرمپ پر تنقید کی ہے امریکہ چین اور روس اس وقت دنیا کی تین بڑی طاقتیں ہیں۔ صدر ٹرمپ اگر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں تو چین اور روس ہی نہیںدنیا کے کئی اور ممالک کو بھی شکایات پیدا ہو سکتی ہیں جو عالمی امن و استحکام کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ میکسیکو نے پہلے ہی تارکین وطن کو روکنے کے لئے اپنی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے سے انکار کر دیا ہے جس پر اس چھوٹے سے ملک کے خلاف امریکی فوج کشی کے امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ جرمنی کے ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر بھی انتہا پسندانہ نعروں کے سہارے چانسلر منتخب ہوئے تھے اور آگے چل کر ایک کمزور ملک پولینڈ پر حملہ کر کے دوسری عالمی جنگ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اللہ نہ کرے کہ ٹرمپ بھی اس راستے پر چل پڑیں مگر’ اسلامی دہشت گردی‘ کا ہوا کھڑا کر کے مسلم ممالک پر پابندیوں کا جو آغاز انہوں نے کیا ہے اور پاکستان سمیت مزید اسلامی ملکوں پر ان کے اطلاق کے جو اشارے دیئے ہیں وہ کوئی بھی خطرناک رخ اختیار کر سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے کئی رہنمائوں نے ٹرمپ کے اقدامات کو نقصان دہ قرار دیا ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بنیادی طور پر یورپ افریقہ اور دوسرے براعظموں کے تارکین وطن کا ملک ہے ٹرمپ خود جرمن ہیں، دوسرے ملکوں کے جن لوگوں پر جائز اعتراضات ہوں انہیں امریکہ میں بے شک نہ داخل ہونے دیا جائے مگر قانونی دستاویزات کے ساتھ آنے والوں کو نہیں روکنا چاہئے۔


.
تازہ ترین