• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان دنوں ’’اہل زمین‘‘ کے لئے سیاست سے زیادہ زمین کا ماحولیاتی نظام اہم ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جنوبی افریقہ کے ماہر ماحولیات نے عالمی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ ’’ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو غریبی کے روگ میں مبتلا ہے، غیرمساوی دولت کی تقسیم کے عذاب جھیل رہی ہے اور ہر دن جس کی ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے‘‘۔
زمین کے ماحول کو مغربی ممالک اور امریکہ کی اندھا دھند صنعتی مہم بازی اور بے لگام منافع خوری کی وجہ سے جو نقصان پہنچا اس کی ’’مرمت‘‘ کی تمام تر ذمہ داری مغرب پر ہی عائد ہوتی ہے ایک طرف تو کائنات میں انسانوں کے واحد مسکن کرہ ارض کو ناقابل رہائش بنایا جارہا ہے تو دوسری طرف ایشیائی اور افریقی ملکوں کے باشندے اس صنعتی جبر کی قیمت اپنی صحت اور زندگی سے ادا کررہے ہیں جب امیر اور متمول ملکوں کو اپنی ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو ان کی تلافی کے لئے مالی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کی نکاسی کی سب سے بڑی اور اہم وجہ مغرب میں استعمال ہونے والی کاروں اور گاڑیوں کی بڑی تعداد ہے ایک اندازے کے مطابق اکیلے امریکہ میں موٹر کاروں کی تعداد اس ملک کی آبادی سے دو گنا زیادہ ہے گویا امریکہ کی سڑکوں پر دوڑنے والی کاروں کی تعداد 50کروڑ سے زیادہ ہے۔ ان 50کروڑ کاروں کے سیاہ دھویں کی وجہ سے فضائی کرہ گلوبل وارمنگ کی بیماری میں مبتلا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے اور مزید بڑھ رہا ہے۔ انٹارٹیکا اور قطب شمالی کی برف کے ساتھ ساتھ دنیا کی بلند ترین چوٹی ہمالیہ کی پانچ کروڑ سال سے سلسلہ وار جمی ہوئی برف بھی پگھلنے لگی ہے (نہیں پگھلی تو پاک و ہند کے حکمرانوں پر نفرت کی جمی ہوئی برف نہیں پگھلی) سیلاب بیشتر ملکوں کا مقدر بن چکے ہیں۔ خود یورپ کے بارہ ممالک بدترین سیلاب کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ حال ہی میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے یورپی ملکوں کو 20بلین یورو کا نقصان ہو چکا ہے۔ ایشیا میں بھی موسموں کی گردش اس قدر بگڑ چکی ہے کہ مون سون ایک بے اعتبار موسم بن گیا ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں قحط معمول بن گئے ہیں۔ فضائی آلودگی کے ساتھ قلت آب نے زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔ قدرت کی بنائی ہوئی کروڑوں سال کی متوازن فضا اور ماحول کو مغرب نے دو سو سال کی چیرہ دستیوں سے پارہ پارہ کردیا ہے۔ افریقہ میں کروڑوں لوگ بھوکوں مر رہے ہیں کہ وہاں قحط پڑا ہے دوسری طرف ایشیا کے نیلے آسمانوں پر زہریلی گیسوں کے بھورے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
جب 1997کے کیوٹو معاہدے کے تحت امریکہ سے کہا گیا کہ وہ کاربن ڈائی آکسائڈ کی نکاسیوں پر پابندی عائد کرے تو اپنے تجارتی مفادات کے پیش نظر اس نے صاف انکار کردیا اس قسم کا امریکی رویہ ’’ماحولیاتی بدمعاشی‘‘ کی ایک بدترین مثال ہے نہ تو امریکہ زمین کے بہتر ماحول کی بحالی کے لئے امدادی رقوم دینا چاہتا ہے اور نہ ہی زمین کے صحت مند مستقبل کے لئے کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کی پاسداری کے لئے تیار ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جس عالمی کانفرنس میں زمین کے مقدر پر گفتگو ہو رہی ہو امریکہ کے صدر اوباما اس میں شرکت کرنے سے قاصر رہے۔ وسیع پیمانے پر زمین کے قدرتی ماحول میں پیدا ہونے والی خرابی کے علاوہ صنعتی آلودگی نے بھی بڑے المیوں کو جنم دیا ہے۔ یہ صنعتی آلودگی مغربی ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دین ہے۔ جو اس دنیا میں زمین کے چپے چپے کو نفع خوری کے لئے استعمال کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں لیکن اس کے نتیجے میں پچھلے سال دنیا بھر میں صاف پانی کی فراہمی اور صفائی کی صورتحال کے جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ گزشتہ بیس سالوں میں اس سلسلے میںکی جانے والی کوششوں اور اقدامات کے باوجود ترقی پذیر ملکوں کے 2.4بلین افراد اب بھی صحت و صفائی کے معیاری انتظامات اور 1.2بلین افراد صاف اور محفوظ پانی کی فراہمی سے محروم ہیں۔ یونیسیف کے اس عالمی جائزے کے مطابق حالات دنیا کچھ یوں ہیں۔ترقی پذیر ملکوں کے 4.8بلین افراد کی پہنچ محفوظ پانی کے وسائل تک نہیں ہے۔ دنیا کے 4.9بلین افراد کے گھر اور صحن میں صاف پانی کے نل لگے ہوئے نہیں ہیں۔ دنیا میں ہر سال 4بلین افراد ہیضے میں مبتلا ہوتے ہیں ان میں 2.2بلین ہلاک ہوجاتے ہیں جن میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اکثریت ہوتی ہے۔ ایشیا میں صرف 35فیصد گندا پانی صاف کیا اور ٹھکانے لگایا جاتا ہے لاطینی امریکہ میں یہ شرح 14فیصد اور افریقہ میں برائےنام ہی ہے۔ ایشیائی ملکوں کے شہروں میں 40فیصد صاف پانی شہریوں تک نہیں پہنچتا۔ پانی کے اس ضیاع اور جمع ہونے سے صحت کے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں محفوظ پانی اور صحت و صفائی کی سہولتیں بہت ہی کم ہیں۔
ان حالات میں بہت سے ترقی پذیر ممالک سمجھتے ہیں کہ گزشتہ دنوں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس امیر متمول اور بڑے ملکوں کی طرف سے اکیسویں صدی میں ’’نو آبادی‘‘ نام کا ایک فورم ہے۔ ایسے فورم سے کسی کو خیر کی کیا توقع ہوسکتی ہے؟
مجھے میرا ہی شعر یاد آرہا ہے۔
اگر پیدا کیا ہے یہ جہاں میرے لئے اُس نے
تو پھر کیوں مجھ کو اپنے طور پر جینے نہیں دیتا



.
تازہ ترین