• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دُنیا بھر میں مقیم کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی مقبوضہ کشمیر میں 70سال سے جاری بھارتی آرمی کی بربریت اور ظلم و تشدد پر سراپا احتجاج ہے۔ یورپی ممالک کے مقامی لوگ بھی نہتے اور بے گناہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے سخت خلاف ہیں، کشمیری ماؤں کی اُجڑتی گودیں اقوام متحدہ سے سوال کرتی ہیں کہ اُ سے یہ ظلم دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ کشمیری نوجوانوں کے لاشے رہ رہ کر امن کے ٹھیکیداروں کو مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔ پاکیزہ بیٹیوں کی عفت اور عزتیں پھر کسی محمد بن قاسم کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ چنار وادی میں یتیم ہونے والے بچے اپنے ماں باپ کے بغیر مستقبل کی تاریکیوں میں اُمید کی ایک کرن کے متلاشی ہیں، وہ بچے بڑی طاقتوں سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آزادی کے سُورج کی پہلی کرن ہماری آنکھوں کی ننھی پتلیوں سے کب ٹکرائے گی؟ گولیوں، بموں اور جدید اسلحے کا مقابلہ غلیلوں اور پتھروں سے کرنے والوں کا خُون کب رنگ لائے گا، جنت نظیر کشمیر کی گلیوں سے بارُود کی بُو کب ختم ہوگی؟ اِن سوالوں کا جواب دینے کے لئے شاید ابھی اقوام متحدہ کے پاس وقت نہیں یا یہ کہہ لیں کہ یہ مظالم مغرب میں نہیں ہو رہے۔ ظلم و تشدد اور بربریت دہشت گردی کا دوسرا نام ہے، کہیں بھی ہو اِس عمل کو کوئی ذی روح اچھا نہیں سمجھتا، مغرب میں اگر دہشت گردی ہو تو مقامی میڈیا چیخ چیخ کر آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے، کشمیر میں ہونے والی بھارتی دہشت گردی پر مغربی میڈیا کا دہرا معیار سمجھ سے بالاتر ہے۔ یورپی یونین برسلز میں آئے دن کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے لئے سیمینار، کنونشن، کانفرنسز اور بحث مباحثہ ہوتا رہتا ہے۔ برسلز میں کشمیر کونسل یورپ کے چیئرمین علی رضا سید اور کشمیری رہنما سردار صدیق یورپی پارلیمنٹ کے ممبران کے ساتھ مل کر کشمیر میں ہونے والے مظالم پر آواز بلند کرتے رہتے ہیں، کبھی یہ احباب یورپی ممالک میں کشمیر کی آزادی کے حق میں دستخطی مہم شروع کرتے ہیں تو کبھی مقامی کمیونٹی کو مل کر انہیں مسئلہ کشمیر کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں، یورپی پارلیمنٹ میں پاکستانی نژاد اور مقامی ممبران کے ساتھ مل کر کشمیر کاز کے لئے لابنگ کرنا بھی اِن کے فرائض میں شامل ہے۔ کشمیر کاز کو یورپی ایوانوں میں اجاگر کرنے کے لئے کشمیر کونسل یورپ کی دعوت پر صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان کو برسلز بلایا گیا،صدر آزاد کشمیر نے ’’یورپ میں مسئلہ کشمیر پر جدوجہد‘‘ اور ’’تنازع کشمیر اور بین الاقوامی آرا‘‘ جیسے عنوانات پر مبنی کانفرنسز میں حصہ لیا، جس میں برسلز پارلیمنٹ کے پاکستانی نژاد ممبر ڈاکٹر منظور الٰہی، برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ممبرز یورپی پارلیمنٹ ڈاکٹر سجاد کریم، افضل خان اور امجد بشیر بھی شامل تھے۔ صدر آزاد کشمیر کے برسلز آنے سے ایک ہلچل نظر آئی ہے لیکن یہ ہلچل سیکورٹی اداروں یا یورپی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے نہیں بلکہ کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کیلئے کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی کے جوش و جذبہ پر مشتمل کہی جاسکتی ہے۔ لیکن جب کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمٰن یورپی یونین کے اجلاسوں میں حصہ لینے کے لئے برسلز کا دورہ کرتے ہیں تو ائیرپورٹ سے اُن کے ہوٹل تک خفیہ اور سیکورٹی ادارے انہیں اپنے حصار میں رکھتے ہیں، پاکستانیوں کی مولانا سے ملاقات اور بات چیت انتہائی احتیاط اور قانون کے دائرے میں کی جاتی ہے، اب ایسے حالات میں مولانا فضل الرحمٰن کشمیر کاز کی بات کھل کر کیسے کر سکتے ہیں؟ مولانا صاحب یورپ میں جس پاکستانی سے ملاقات کر لیں اُس کو کئی بار سیکورٹی اداروں کا جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین اُس پاکستانی کو بنائیں جو مسئلہ کشمیر کے بارے میں مکمل طور پر جانتا ہو، اس مسئلے پر بلاروک ٹوک اور بلا جھجک بات کر سکتا ہو، جس پاکستانی سے یورپی ممالک میں ملاقات کرے اُسے سیکورٹی اداروں کے سوال و جواب کا ڈر نہ ہو اور سیکورٹی ادارے اُس چیئرمین کو اپنے حصار میں لینے کا سوچ بھی نہ سکیں، ایسا کرنے سے کشمیر کاز کے لئے دُنیا کے دوسرے ممالک میں پاکستان کی نمائندگی بہتر انداز میں کی جا سکتی ہے۔ بات ہو رہی تھی صدر آزاد کشمیر کے دورہ برسلز کی، صدر آزاد کشمیر نے ممبرز یورپی پارلیمنٹ، یورپی یونین کے اعلیٰ حکام اور عالمی امور کے ماہرین کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر خصوصی بات چیت کی۔ فرینڈز آف کشمیر گروپ کے تعاون سے یورپی پارلیمنٹ میں منعقد کی جانے والی کانفرنس سے صدر آزاد کشمیر کا خطاب تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ صدر آزاد کشمیر کا دورہ برسلز ایسے وقت میں ترتیب دیا گیا کہ جب 5فروری یوم یکجہتی کشمیر پر یورپی ممالک میں مقیم کشمیری اور پاکستانی ریلیاں اور جلوس نکال رہے تھے، میں سمجھتا ہوں کہ سردار مسعود خان کے حالیہ دورہ کے مثبت نتائج برآمد ہوںگے، انہوں نے اپنے خطابات میں زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم بند کرائے اور کشمیریوں کو اپنا حق رائے دہی دلوانے میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے۔ یورپی ممالک میں اس سال یوم یکجہتی کشمیر انتہائی جوش جذبے سے منایا گیا، اٹلی، پرتگال، فرانس، ہالینڈ، بلجیم، جرمنی اوردوسرے ممالک میں کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی نے بھارتی سفارت خانوں اور قونصلیٹ کے سامنے اپنے احتجاج ریکارڈ کرائے، یورپ بھر میں قائم پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں اس دن کے حوالے سے پروگرام منعقد ہوئے لیکن صد افسوس کہ قونصلیٹ جنرل آف پاکستان بارسلونا میں ایسا کوئی پروگرام ترتیب نہیں دیا گیا۔ علامہ اقبالؒ کا یوم پیدائش قونصلیٹ بارسلونا میں نہیں منایا جاتا، کرسمس کا کیک پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں کاٹا جاتا ہے لیکن بارسلونا میں نہیں، بارسلونا میں پاکستانی کمیونٹی نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ریلی نکالی اور پروگرام بھی ترتیب دیا جس میں کشمیری، پاکستانی اور مقامی کمیونٹی کے سرکاری افسران، سیاستدان اور ایم پی اے، ایم این اے شامل ہوئے، مقامی نمائندوں نے کشمیر کاز پر کھل کر بات کی، لیکن قونصلیٹ آفس بارسلونا میں علامہ اقبالؒ ڈے، قائداعظم ڈے اور کرسمس کے ساتھ ساتھ یوم یکجہتی کشمیر کا پروگرام منعقد نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، حالانکہ ایسے پروگرام منعقد کرکے ہم مقامی کمیونٹی کو اپنے وطن کے محسنوں اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا مثبت پیغام باہم پہنچا سکتے ہیں۔



.
تازہ ترین