• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ نے جس دو ٹوک انداز میں کرپشن کو برداشت نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور عدالتی اختیارات لامحدود ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئےعدالتی دائرہ اختیار وسیع کرنے کا عندیہ دیا، اس میں پریشان حال عوام کی بڑی تعداد کے لئے تسلی کا پہلو مضمر ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے منگل کے روز ٹیلی کام سیکٹر میں غیرقانونی ایکس چینجز (گرے ٹریفکنگ) کے حوالے سے ایک کیس میں مذکورہ ریمارکس دئیے۔ اسی روز چیف جسٹس نے دل کے مریضوں کو غیرمعیاری، غیررجسٹرڈ اور مہنگے اسٹنٹ ڈالنے کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی بھی سماعت کی اور اداروں پر واضح کیا کہ مزید غیرس ذمہ داریاں اور کوتاہیاں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’من حیث القوم ہمیں اس نوع کے معاملات کی درستی کا موقع ملا ہے، ہم اس میں کوئی سقم نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل سہ رکنی بینچ مذکورہ دونوں کیسز کی سماعت کررہا ہے۔ گرے ٹریفک کے حوالے سے سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا کہ سانحہ سول اسپتال کوئٹہ کی تفتیش کے دوران گرے ٹریفکنگ کو دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے ان کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ چینلوں کے ذریعے ایسی ٹیلیفون کالیں کی جاتی ہیں جن کا ریکارڈ نہیں ہوتا۔ اس بیان سے واضح ہے کہ بات پیسہ کمانے سے آگے بڑھ کر ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے تک جاپہنچی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ملک گیر مہم کے دوران ایسے شواہد سامنے آتے رہے ہیں کہ بدعنوانی اور رشوت کی لعنت میں ملوث عناصرانتہائی سنگین جرائم میں مدد دینے یا ان سے چشم پوشی کرنے یا انہیں راستہ دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کرپشن جس انداز سے ملک کو اندر سے کھوکھلا کررہی ہے وہ کئی اعتبار سے بیرونی جارحیت سے کم تشویش انگیز نہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں کی قیادت کے سوا حکمرانوں کی سطح پر کرپشن ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی۔ مملکت خداداد کے قیام کے ابتدائی برسوں میں غریبوں کو اچھے سرکاری اسپتالوں میں داخلے سے لے کر، طبی ٹیسٹوں، خوراک اور آپریشن سمیت کئی سہولتیں مفت مل جاتی تھیں۔ سرکاری اسکولوں میں پرائمری کی سطح پر بچوں کو مفت تدریس، سلیٹ، تختی اور کتابوں کے علاوہ دودھ اور بھیگے ہوئے چنوں کی صورت میں صبح کا ناشتہ بھی فراہم کیا جاتا تھا۔ سیکنڈری اسکولوں اور کالجوں میں ’’ہاف فری‘‘ اور ’’فل فری‘‘ فیس کی رعایتیں دستیاب تھیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو غیر سرکاری اداروں سے زیادہ معیاری سمجھا جاتا تھا اور ان میں تعلیم پانے والوں میں سائنس، ٹیکنالوجی، ادب، آرٹ، قانون اور بیورو کریسی کی نامور شخصیات کے نام شامل ہیں۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار پست ترین سطح تک کیسے آیا اور زرپرستوں کے لئے تعلیم کا کاروبار ہیروں کی کان کیسے بن گیا؟ یہ ایک دلخراش داستان ہے۔ دہاڑی دار فقیروں کی بھرتی، ملازمتوں کی فروخت، سیاسی و ذاتی مفادات کے تحت غلط بخشیوں، تھانوں کی نیلامی، کمیشنوں، کک بیکس، ٹیکسوں کی چوری، بجلی اور گیس میں خیانت اور ماتحت عدلیہ کی استعماری دورسے جاری خرابیوں کو روکنے میں غفلت کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے کرپشن کے خاتمے کا عزم کیا ہے تو خود اپنے ادارے پر بھی توجہ دی ہے اور ذرائع کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے بعض ججوں کو بھی شوکاز نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے عدلیہ کے اختیارات لامحدود ہوسکتے ہیں مگر سرکاری اداروں کی ناقابل فخر کارکردگی معاونت میں آڑے آتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتو کو اس معاملے میں سرجوڑ کربیٹھنا اور پورے سرکاری نظام کی اصلاح کا لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ اس باب میں بعض قوانین بنے بھی ہیں مگر نظام پر عوام کے کمزور ہوتے ہوئے اعتماد کو تقویت دینے کے لئے فوری طور پر ایسے اقدامات ناگزیر ہیں جن میں عوام سانس لینے کی قدرے زیادہ گنجائش محسوس کریں۔

.
تازہ ترین