• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بات ساری ترجیحات کی ہے ورنہ یہ تصور وفاقی حکومت کا تھا، اس سے متعلق سارا کام وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمن صاحب نے کیا لیکن اس نیک کام میں بازی تحریک انصاف کی خیبر پختون خوا حکومت لے گئی۔ سوچ تو یہ تھی کہ اس کا اعلان وزیر اعظم میاں نواز شریف کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ موقع عمران خان کودے دیا جنہوں نے دو روز قبل اپنے ٹیوٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ تعلیمی اصلاحات میں سب سے پہلے صوبہ بھر کےا سکولوں میں آئندہ تعلیمی سال سے قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ ہر مسلمان طالب علم کو لازمی پڑھایا جائے گا اور اس کے لیے صوبائی کابینہ نے منظوری بھی دے دی ہے۔ وفاقی حکومت نے یہ کام بہت پہلے شروع کیا لیکن معاملہ ابھی تک تکنیکی معاملات میں پھنسا ہوا ہے۔ پنجاب میں بھی یہ اہم معاملہ ابھی مشاورت کے سطح پر لٹکا ہوا ہے۔ سندھ اور بلوچستان نے تو ابھی اس بارے میں سرے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں لی۔ مسئلہ یہ ہے کہ وفاق اور پنجاب کا سارا زور میگا پروجکٹس پر ہے جن پر تختیاں لگتی ہیں، دنیا دیکھتی ہے، واہ واہ ہوتی ہے اور ووٹرز متاثر ہوتے ہیں۔ ورنہ جتنا زور میٹرو بس یا اورنج لائن پر لگایا جا رہا ہے، اُس سے کہیں کم توجہ اور دلچسپی سے تعلیمی میدان میں وہ انقلاب لایا جا سکتا ہے جس کے لیے خیبر پختون خوا نے قدم اٹھا لیا ہے اور جس کے نتیجے میں ہم ایک بہترین معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وفاق میں یہ معاملہ قانون سازی کے مراحل سے سست روی سے چل رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کی توجہ اس معاملہ کی طرف عرصہ پہلے دلوائی گئی جبکہ وزیر مملکت برائے Capital Administration Division طارق فضل چوہدری کو بھی بار ہا کہا گیا کہ کم از کم وفاق کے اسکولوں میں قرآن پاک کی لازمی تعلیم آئندہ تعلیمی سال سے لاگو کرنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھا لیے جائیں لیکن شاید وزیر اعظم ،طارق فضل چوہدری صاحب اور پنجاب حکومت اس سال سے قرآن پاک کی تعلیم کو لاگو کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ کاش ہمارے حکمران یہ سمجھ پائیں کہ بعض کاموں میں تختیاں تو نہیں لگتیں لیکن یہ وہ کام ہوتے ہیں جن سے نہ صرف ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور سکتے ہیں بلکہ ہمارا منفی معاشرتی رویہ یکسر بدل سکتا ہے۔ ویسے بھی اگر ہمیں اس ملک سے شدت پسندی اور نفرت کی بنیاد پر قتل و غارت، فرقہ واریت اور دوسری غلط رسموں اور رواجوں کو ختم کرنا ہے تو ہمیں اپنے بچوں کو قرآن اور حدیث سمجھ کر پڑھانے ہوں گے جس سے ہمیں انسان اور مسلمان کی زندگی اور اُن کے مال کی حرمت کا پتا چلے گا ، ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ بچوں کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے، بڑوں اور والدین کی خدمت اور اُن کے ساتھ ادب سے پیش آنے کا کیا اجر ہے، عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کیا ہیں اور اُن کا کیسے خیال رکھا جانا چاہیے۔ اگر ہمیں جھوٹ، دھوکہ فراڈ، ملاوٹ، شراب نوشی، فحاشی و عریانیت، نشہ ، زنا، سفارش، رشوت ستانی اور دوسری معاشرتی برائیوں کو ختم کرنا ہے تو اس کے لیے بھی بچوں کو اسکول کالج میں ہی باقاعدہ تعلیم دینی ہو گی اور اُن کی تربیت کرنی ہو گی تاکہ انہیں اچھے بُرے، گناہ، ثواب اور حق و باطل کے درمیان فرق صاف ظاہر ہو جائے اور وہ ایک انسان، ایک مسلمان اور ایک شہری کے طور پر اپنے فرائض کو سمجھ پائیں۔ مثلاً ہمارا دین صفائی پر بہت زور دیتا ہے اور کہتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ تعلیمی اداروں میں پہلے دن سے ہی بچے کو نہ صرف یہ بتانا چاہیے کہ صفائی کی اہمیت کیا ہے اور اس بارے میں ہمارا دین کیا کہتا ہے بلکہ ہر بچے کوا سکول آتے ہی سب سے پہلے اپنے کرسی ٹیبل کو صاف کرنے کی تربیت دی جائے۔ صفائی ستھرائی کے لیے سویپر (sweeper) پر ہی سب کچھ نہ چھوڑا جائے بلکہ کلاس روم اورا سکول کی صفائی میں بھی بچوں کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ویسے چند سال پہلے ہمارے ایک ٹی وی چینل نے ایک سرکاری اسکول کی انتظامیہ کے خلاف یہ ’’اسکینڈل‘‘ نکالا کہ اسکول پرنسپل نے بچوں کو اسکول کی صفائی میں کیوں لگایا۔ اس کام پر توا سکول پرنسپل کو انعام دیا جانا چاہیے تھا لیکن ہمارے بیمار میڈیا کے خیال میں صفائی کو نصف ایمان کی حد تک پڑھنا پڑھانا تو ٹھیک ہے لیکن عملی طور پر گلیوں محلوں، پارکوں، بازاروں، حتیٰ کہ اپنے دفتروں میں ہمارا کام توگند پھیلانا ہے جبکہ صفائی کا کام تو صرف سویپرز، جمعداروں اور آفس بوائز کا ہی ہوتا ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ تعلیمی اداروں میں ethics کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ بات چلی تھی خیبر پختون خوا سے جو وفاق اور دوسرے تمام صوبوں سے اس نیک کام میں بازی لے گیا۔ آج ہی کے اخبارات میں وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کے حوالے سے پڑھا کہ انہوں نے ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک کی تعلیم کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی ارادہ کیا کہ وہ تعلیمی نصاب کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ پرویز خٹک صاحب کو یہ بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے صوبہ بھر میں نجی طور پر سود کے کاروبار کو قانونی طور پر جرم قرار دے دیا ہے جب کہ صوبائی حکومت کے زیر نگرانی چلنے والے خیبر بینک کو بھی مکمل طور پر اسلامی بینکنگ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ بلا شبہ خٹک صاحب کی حکومت کے یہ بہت بڑے کارنامے ہیں۔

.
تازہ ترین