• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2016کی رپورٹ جاری ہونے کے بعد ہمارے حکمراں فخریہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے کرپشن انڈیکس میں 9درجے بہتری آئی ہے، پاکستان کرپٹ ترین ممالک کی فہرست سے نکل کر ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہوگیا ہے اور جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جو کرپشن کے خلاف اقدامات میں بہتری لایاہے۔ یہ دعوے غیرحقیقت پسندانہ اور غلط ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں پاکستان 100میں صرف 32نمبر حاصل کر پایا ہے جبکہ دنیا کے 176ملکوں نے جو اسکور حاصل کئے ہیں ان کا اوسط 43ہے۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ جو ملک جتنا زیادہ کرپٹ ہوتا ہے اس کا اسکور اتنا ہی کم ہوتا ہے جبکہ جس ملک کے پبلک سیکٹر کو نسبتاً کم کرپٹ یا شفاف سمجھا جاتا ہے اس کا اسکور اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 176ممالک میں سے 115ممالک بشمول بھارت میں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔ اس رپورٹ کے چند نکات نذر قارئین ہیں۔(1)بدعنوان ممالک کی درجہ بندی میں جنوبی ایشیا کے 4ملکوں کے مقابلوں میں پاکستان میں کرپشن زیادہ ہے۔ بھوٹان 27ویں (اسکور 65)، بھارت 79 ویں (اسکور 40)، سری لنکا اور مالدیپ 95ویں (دونوں کا ا سکور 36ہی ہے) پر براجمان ہیں جبکہ پاکستان 32 کے اسکور کے ساتھ 116ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گورنر پنجاب کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ پاکستان میں 2016 میں کرپشن میں 9درجے بہتری آئی ہے۔
(2) 22مسلم ملکوں میں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔
(3) آبادی کے لحاظ سے عالم اسلام کے 5بڑے مسلمان ملکوں میں کرپشن کی صورت حال یہ ہے۔ انڈونیشیا درجہ بندی 90(اسکور 37) پاکستان 116 (اسکور 32) بنگلہ دیش 145(اسکور 26)، نائیجیریا 136(اسکور 28) اور مصر 108(اسکور 34)۔ ان 5مسلمان ملکوں کی آبادی اسلامی ممالک کی مجموعی آبادی کا تقریباً نصف ہے۔ یہ پانچوںممالک دنیا کے بدعنوان ترین ملکوں کی فہرست میں آتے ہیں۔ بھارت میں کرپشن ان پانچوں ممالک سے کم ہے۔
(4) دنیا کے 30شفاف ترین ملکوں میں صرف ایک اسلامی ملک متحدہ عرب امارات کا نام آتا ہے جبکہ دنیا کے 11کرپٹ ترین ممالک میں 8مسلمان ملک شامل ہیں۔
(5) اسرائیل کا شمار دنیا کے شفاف ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ عالم اسلام کے صرف ایک ملک متحدہ عرب امارات میں کرپشن اسرائیل سے کم ہے باقی تمام اسلامی ممالک میں کرپشن اسرائیل سے زیادہ ہے۔ متحدہ عرب امارات، قطر، اردن اور کویت میں 2016میں کرپشن بڑھی ہے۔ کرپشن پاکستان کی معیشت اور معاشرے کی چادر کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ مالیاتی کرپشن، ٹیکسوں کی چوری، ٹیکسوں میں طاقتور طبقوں کو بے جا چھوٹ و مراعات، بدانتظامی، اقرباء پروری اور نااہلی وغیرہ سے قومی خزانے کو 8500؍ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔ وطن عزیز میں احتساب کا موثر اور شفاف نظام عملاً موجود ہی نہیں ہے۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لوٹی ہوئی دولت کو سفید بنا کر قانونی تحفظ حاصل کرنے اور ان رقوم کو ملک سے باہر منتقل کرنے کا قانون، طریقہ کار اور سہو لتیں موجود ہیں۔ وقتاً فوقتاً ٹیکس ایمنسٹی قسم کی اسکیموں کا اجرا بھی کیا جاتا رہا ہے۔ دنیا کے کسی ملک نے اتنی کم شرح ٹیکس پر ایمنسٹی اسکیموں کا اجرا نہیں کیا جتنا پاکستان کرتا ہے۔ ان حالات میں انسداد کرپشن کی باتیں کرنا قطعی بے معنی ہے۔ حکمرانوں، سیاستدانوں، ممبران پارلیمنٹ، ممبران صوبائی اسمبلیوں اور مذہبی جماعتوں وغیرہ میں عملاً اس بات پر اتفاق ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق (4) 111برقرار رکھی جائے جس کے ذر یعے لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ حاصل کرنا ممکن ہے کیونکہ کوئی بھی اس شق کو منسوخ کرنے کا مطالبہ نہیں کررہا۔
وطن عزیز میں احتساب کا یکساں نظام ہی موجود نہیں ہے۔ عدلیہ اور افواج پاکستان کا احتساب کا اپنا الگ نظام ہے۔ اس پر نظرثانی ہونا چاہئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بیوروکریسی،عدلیہ، فوج و دیگر اداروں کے سینئر اراکین و افسران اور صحافیوں کے لئے سرکاری زمین کوڑیوں کے مول الاٹ کرنے کی پالیسی پر بھی نظرثانی کی جائے تاکہ طاقتور طبقوں کو پلاٹ الاٹمنٹ کی پالیسی ختم ہو جوکہ قومی وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور بدعنوانی کے مترادف ہونے کی وجہ سے آئین پاکستان کی روح کے خلاف ہے۔ ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ عدلیہ بشمول وفاقی شرعی عدالت میں معاشی معاملات کے اہم مقدمات بھی برس ہا برس سے سرد خانے میں پڑے ہوئے ہیں۔ وطن عزیز میں ’’پاناماز‘‘ ملک کے اندر موجود ہونے کی وجہ سے حکومت کی مکمل دسترس میں ہیں جن سے چند ماہ میں تقریباً دو ہزار ارب روپے کی وصولی ممکن ہے۔ ان کے ضمن میں کوئی بات نہیں کررہا۔ پانامالیکس کے معاملے میں بہرحال ایک ڈالر کی بھی وصولی نہیں ہوگی۔
سپریم کورٹ میں قرضوں کی معافی کا مقدمہ 2007 سے زیر سماعت ہے۔ معزز عدالت نے جون 2011 میں اپنے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں اس ضمن میں ایک کمیشن بھی بنایا تھا جس نے جنوری 2013 میں اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو ہی پیش کی تھی لیکن چار برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس پر کوئی کارروائی ہی نہیں ہوئی۔ قرضوں کی معافی کے ضمن میں اسٹیٹ بینک کے سرکلر 29پر فیصلہ 7برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود نہیں سنایا گیا۔ ہم نے 14دسمبر 2009کو چیف جسٹس کو اس غیرقانونی سرکلر کے ضمن میں تفصیلی خط لکھا تھا۔ انہوں نے 24دسمبر 2009کو کہا تھا کہ عدالت اس سرکلر کا جائزہ لے گی۔ اس کے بعد 30مئی 2011کو انہوں نے ریمارکس دیئے تھے کہ اس سرکلر سے بڑے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔
چیف جسٹس صاحب نے 29ستمبر 2010 یہ بھی کہا تھا کہ بینکوں کے قرض معاف کروا کر دولت بنائی اور وہ دولت ملک سے باہر پہنچائی گئی ہے۔
وطن عزیز میں انٹلیکچوئل کرپشن تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کی دو مثالیں ہمارے سامنے ہیں اول، سی پیک منصوبے سے ملنے والے سنہری مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے دانشمندانہ معاشی پالیسیاں اپنانے کے بجائے طاقتور طبقوں کو دی جانے والی مراعات میں تیزی سے اضافہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے چنانچہ خدشہ ہے کہ اس منصوبے سے ملک کی قسمت بدلنے کی توقعات پوری نہیں ہوسکیں گی اور دوم، امریکی صدر ٹرمپ کی ’’نئے گریٹ گیم‘‘ کے تحت وضع کردہ پالیسیاں آنے والے برسوں میں پاکستان کے لئے زبردست مشکلات پیدا کرسکتی ہیں کیونکہ اس خطرے سے نمٹنے کے لئے پاکستان خود انحصاری کے زریں اصولوں پر مبنی معاشی پالیسیاں اپنانے کے بجائے بیرونی ذرائع سے حاصل ہونے والی رقوم پر انحصار برقرار رکھ رہا ہے۔

.
تازہ ترین